میری ایک عزیزہ دوپہر کو سو رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی،
وہ اٹھی تو دوسری طرف اس کے بیٹے کی روتی ہوئی آواز تھی کہ پولیس نے اسے
پکڑ لیا ہے آپ ذرا ان سے بات کریں۔ایک شخص نے بات کی اور اس بزرگ خاتون کو
بتایا کہ ایک لڑکے نے کوئی بچی اغوا کی ہے۔اس اغوا میں آپ کے بیٹے نے اس کی
مدد کی ہے۔ ہم نے دونوں کو پکڑ لیا ہے مگر آپ کا بیٹا بضد ہے کہ میں گھر
والوں سے آپ کو پچاس ہزار لے دیتا ہوں ، مجھے چھوڑ دو۔ پھر بیٹے کی بھرائی
ہوئی آواز آئی کہ جلدی سے پیسے دے دیں، کیس درج ہو گیا تو خرچ بھی بہت
زیادہ ہو گا اور میں بھی پھنسا رہوں گا۔اس نام نہاد پولیس آفیسر نے پھر بات
کی کہ پہلے ہی وہ لیٹ ہو چکے آپ نے بچے کو بچانا ہے تو فون بند مت کریں اور
قریبی کال سنٹر سے اس نمبر پر پیسے بھیج دیں۔ وہ بوڑھی عورت گھبرا کر اٹھی
گھر میں موجود پیسے اکٹھے کئے اور بھاگم بھاگ قریبی دکان پر پہنچی۔ نام
نہاد پولیس افسر نے اسے پیسوں کی وصولی تک فون بھی بند نہ کرنے دیا ۔آخری
دفعہ بیٹے نے بات کی اور کہا کہ وہ سیدھا گھر آ رہا ہے۔ کافی دیر انتظار کے
بعد خاتون نے یہ سوچتے ہوئے کہ اب فون بھی اس کے بیٹے کے پاس ہو گا کہ
نہیں،ڈرتے ڈرتے بیٹے کو فون کیا تو وہ ایک سیمینار میں بیٹھا تھا اور اسے
اس حادثے کا علم ہی نہیں تھا۔
میرے ایک دوست کو اس کے عزیز کا فون آیا۔وہ عزیز بڑے دھیمے لہجے میں اسے
بتانے لگا کہ اس کے دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ شدید زخمی ہے ،وہ
ہسپتال میں اس کے پاس ہے اور اس کو اس حالت میں چھوڑ کر ہسپتال سے کہیں جا
نہیں سکتا ۔ اس کے علاج کے لئے کچھ دوائیں درکار ہیں۔اس کے پاس پیسے کم ہیں۔
آ پ فوراً مجھے بیس ہزار بھیج دیں۔ ایمر جنسی جان کر اس نے فوری پیسے بھیج
دئیے۔ شام کو ملاقات ہوئی تو اس نے اپنے عزیز سے اس کے دوست کی خیریت پوچھی
مگر وہ عزیز حیران ہو کر بولا کون سا دوست اور کیسا ایکسیڈنٹ؟ وہ دونوں ایک
دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے اور کام دکھانے والے اپنا کام دکھا چکے
تھے۔یہ اب روزمرہ کے واقعات ہیں۔ مجھے ہر ہفتے دو دفعہ احساس پروگرام کے
تیس چالیس ہزار ملنے کی نوید ملتی ہے اورساتھ ہی ہدایت کی جاتی ہے کہ فلاں
نمبر پر رابطہ کریں اور پھر دیکھیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔انٹر نیشنل
لیول پر بھی یہ کام بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ روز کسی انجانے ملک کا وزیر یا
کوئی بڑا آدمی بنک میں وسیع رقم چھوڑ کر مر جاتا ہے اور مجھے بذریعہ ای میل
دعوت ہوتی ہے کہ ان سے بات کروں اور ساری رقم سمیت لوں کیونکہ دنیا میں میں
ہی وہ واحد آدمی ہوں جو وہ رقم وصول کر سکتا ہے۔ مگر میں ٹھہرا سست آدمی
ابھی تک ایسی کوئی سعی نہیں کر سکا۔ اگر سعی کرتا تو یقیناً کچھ ملنا تو
نہیں تھا مگر اپنی ذاتی رقم میں اک دڑاڑ ضرور پڑ جانی تھی
وہ تمام چیزیں جو کمپیوٹر یا کمپیوٹر جیسی اشیا جیسے سمارٹ فون وغیرہ سے
جڑی ہوتی ہیں سائبر کہلاتی ہیں اور ان سے جڑے سارے جرائم سائبر کرائم
کہلاتے ہیں۔ کمپیوٹر نے دنیا کو جس تیز رفتاری سے ایک نئی ڈگر پر ڈالا ہے،
سائبر کرائم بھی اسی انداز میں تیزی سے پھل پھول رہے ہیں۔ ای میل کے ذریعے
کوئی ہیرا پھیری کرنا، کمپیوٹر سے کسی کی ذاتی معلومات ہیک کرنا یعنی چرانا
اور انہیں استعمال کرنا، ATM کی دھوکے سے معلومات حاصل کرکے کارڈ سے رقم
غائب کر لینا، کسی کو کمپیوٹرکے ذریعے معلومات حاصل کرنے کا جھانسہ دے کر
بھتہ وصول کرنا یا حاصل معلومات سے ٍبلیک میل کرکے پیسے وصول کرنایا
کمپیوٹر سے کچھ اور کسی طرح کا بھی فراڈ کرنا، انعام کے لالچ کی ای میل
کرکے کسی کو لوٹنا،یہ سب اور اس سے ملتی جلتی تمام قابل اعتراض حرکات سائبر
کرائم میں شامل ہوتی ہیں۔کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا کو غائب کرنا یا اسے کسی
طرح کا نقصان پہنچانا بھی سائبر کرائم ہی جانا اور مانا جاتا ہے۔ یہ جرم
کرنے والے اس قدر تیز رفتار ہوتے ہیں کہ آدمی کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں
دیتے اور جب آدمی سنبھلتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جرم تو ہو چکا جس کے نتیجے
میں وہ بہت کچھ گنوا چکا ہے اور اب پچھتائے کیا ہوت۔
جعلسازی کا آسان تریں طریقہ فشنگ (phishing) یعنی جعلسازی کہلاتا ہے یعنی
کوئی ایسی ای میل بھیجنا ہے جس میں کوئی لالچ دیا ہو، جب کوئی ایسی ای میل
کھو لتا ہے تو اس کے کمپیوٹر کا سارا ڈیٹا چرا لیا جاتا ہے جس سے بہت سے
جرائم ممکن ہو جاتے ہیں۔کمپیوٹر جرائم کے ماہر جنہیں ہم ہیکر کہتے ہیں سب
سے زیادہ چین میں پائے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ سائبر جرائم امریکہ میں
ہوتے ہیں۔ سائبر کرائم جس مہارت اور تیزی سے ہوتے ہیں ان سے بچنے کے کئے
بھی ایسی ہی مہارت اور تیزی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک عام آدمی اگر معمولی سی
مندرجہ ذیل احتیاط کر لے تو اس بچنے آسان ہوتا ہے۔
اپنے سوفٹ وئیر کو ہمیشہ اپ ڈیٹ رکھیں تاکہ سوفٹ وئیر بنانے والوں کی طرف
سے مہیا سیکیورٹی سے استفادہ حاصل ہوتا رہے۔
اگر آپ کے کمپیوٹر میں اہم ڈیٹا ہے کسی اچھے انٹی وائرس کو کمپیوٹر میں فیڈ
کریں اور اس سے ضرور استفادہ حاصل کریں۔انٹی وائرس ایسی بہت سی چیزوں پر
قابو پا لیتا ہے۔
اپنا پاس ورڈ ایسا رکھیں کہ کوئی شخص آسانی سے اس کا اندازہ لگا کر آپ کا
ڈیٹا نہ چرا سکے۔
اپنے بنک میں موجود اپنی رقم پر لگاتار نظر رکھیں۔
کسی زمانے میں اپریل فول کے نام پر لوگوں کو ایسی اطلاع دی جاتی تھی جس سے
وہ پریشان ہو جاتے تھے۔ اب سائبر کرائم کے سلسلے میں انتہائی پریشان کن
اطلاعات سے لوگوں سے پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ کسی بھی اطلاع کے ملنے پر
کوئی رقم دینے یااطلاع دینے والے کی کسی ہدایت پر کسی طرح کاعمل کرنے سے
پہلے اس کی تصدیق ضرور کرلیں۔یہ فقط آپ کی حاضر دماغی ہے جو آپ کو ایسے
جرائم سے بچا سکتی ہے۔
باقی دنیا کا کاروبار اسی طرح چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ ہیکنگ ذہین لوگوں
کا کام ہے مگر آپ ذہین اسی وقت ہیں جب آپ ان ذہین لوگوں کے مقابلے میں اپنی
ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوتے ان کے فراڈ سے خود کو بچا لیں۔
|