تحریر: نیلم آصف سحر۔راولپنڈی
گزشتہ دنوں مملکت خداداد کے علاقے رحیم یار خان کے چھوٹے سے گاؤں کی چھوٹی
سی مسجد میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو عالمی سطح پر ہمارے ملک کی بدنامی
کا باعث بنا۔ ہمارا ملک دین اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا تھا ہم نے پاکستان
حاصل کرنے کے لیے کلمہ حق کا نعرہ لگایا تھا مگر مادیت پرستی کے پیچھے
بھاگتے بھاگتے اسلامی اصولوں پر عمل درآمد کرنے کی بجائے ان کو کہیں پیچھے
چھوڑ دیا گیا۔اب جب جہاں فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی بات آتی ہے عالمی
دنیا اسلام مخالفت کی آڑ میں پاکستان کو اسلامی مملکت ہونے کا سزاوار
ٹھہراتے ہوئے منفی پروپیگنڈا کرنے لگتی ہے
ایک عرصہ ہوا بھارت مسلمانوں کے اوپر زندگی تنگ کیے ہوئے ہے۔ آئے روز ہندو
مسلم فسادات ہوتے ہیں ہزاروں مسلمان نماز ادا کرنے کی سزا پاتے ہیں مسجدیں
مسمار کی جاتی ہیں قرآن پاک کی بے حرمتی کی جاتی ہے، گائے ذبح کرنے کے جرم
میں مسلمانوں کے خاندانوں کے خاندان بے آسرا کر دیے جاتے ہیں اور نام نہاد
جمہوریت کے دعویدار لبرل ازم کی سنہری پٹی سینے پہ سجائے اندر خانے فرقہ
وارانہ تعصب کا بازار گرم کیے رکھتے ہیں۔ کشمیری محصور کیے جاتے ہیں ان کی
نسل کشی کی جاتی ہے فلسطینی مسلمانوں کے لیے زندگی جنگ جہاد اور معذوری و
مرگ سے بڑھ کر کچھ نہیں عراق شام فلسطین کشمیر دنیا کے ہر کونے میں جہاں
جہاں مسلمان بستے ہیں ظلم و زیادتی کی چکی میں پس رہے ہیں شخصی آزادی اور
حق رائے دہی کا نعرہ لگانے والے مسلمانوں کو نہ تو انسان سمجھتے ہیں اور نہ
ہی ان کے لیے بنیادی انسانی حقوق نام کی کوئی شے ہے۔البتہ جہاں کہیں کسی
اسلامی ملک میں غیر متوقع طور پہ چھوٹا سا بھی کوئی واقعہ ظہور پذیر ہو
جائے تمام ڈرپوک اسلام دشمن محاذ کھڑا کر لیتے ہیں۔
آئیے چلتے ہیں اس واقعے کی طرف جس نے مجھے یہ سب کہنے پر مجبور کیا گزشتہ
دنوں ایک ہندو لڑکا عمر قریب آٹھ دس سال ایک مسجد کی ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے
مسجد میں داخل ہوا اور مسجد کے قالین پر جان بوجھ کر پیشاب کر دیا یہاں یہ
بات ذہن میں رکھنے والی ہے کہ آٹھ دس سالہ لڑ کے کے ذہن میں ایسا خیال آیا
ہی کیسے؟کیا معصوم ذہن میں یہ ناپاکی اور تعصب کسی مسلمان کا پیدا کرتا
تھا۔۔ بہرحال یہ سوچنا ان لوگوں کا کام ہے جو پاکستانی اور مسلمانوں کو
متعصب بولتے ہیں بچہ پیشاب کرتے ہوئے دیکھ لیا جاتا ہے اور وہ بھاگ نکلتا
ہے۔نامعلوم شخص کے خلاف دینی جذبات مجروح کرنے اور مقدس مقامات کی بے حرمتی
کا مقدمہ ایک نائب امام مسجد کی مدعیت میں درج ہوتا ہے بچے کو پکڑا جاتا ہے
اور نا بالغ ہونے کی وجہ سے اس کی ضمانت بھی ہو جاتی ہے-برسوں سے اکٹھے
رہنے والے مسلمان اور ہندو خاموشی سے نہ سہی اس بات کو برداشت کر جاتے
ہیں۔بنا لڑائی جھگڑے کے بات رفع دفع ہو جاتی ہے۔چند دن گزرنے پر اچانک گاؤں
کے باہر سے کچھ لوگ ہتھیاروں سے لیس ڈنڈے اٹھائے ہندوؤں کے مندر میں داخل
ہوتے ہیں توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ان کی مرتیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں۔مندر کو
تباہ کر کے چلے جاتے ہیں۔اگرچہ ان کے حلیے مسلمانوں سے بنے ہیں مگر وہ اس
علاقے سے تعلق نہیں رکھتے وہ غصہ دکھاتے ہوئے، آتے ہیں مندر کو نقصان
پہنچاتے ہیں اور تین گھنٹے کے لئے ہائی وے کو بلاک کر کے بیٹھ جاتے ہیں
یعنی ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری کے مصداق احتجاج کو حق سمجھ لیتے ہیں
اور اس تمام عمل کے دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے سوئے رہتے ہیں۔ایک
بھی موقع پہ پولیس ان کو روکنے کی کوشش نہیں کرتی۔کیا ہمارے ملک کا قانون
اور ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ اس طرح
کا سلوک کریں۔
کیا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تربیت دی ہے؟
قران مجید میں ارشاد ہوتا ہے
لا اکراہ فی الدین یعنی دین میں کوئی جبر نہیں۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے اسلامی ریاست کے اندر اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی
گزارنے کے متعلق نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اس ریاست
کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔اسلامی ریاست میں پہلے سے موجود غیر اسلامی عبادت
گاہوں کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہے۔البتہ ان کو نئی عبادت گاہیں بنانے کی
اجازت نہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے ریوڑ میں موجود کالی بھیڑوں نے اپنا کام کر
دکھایا ہے۔میر جعفر اور میر صادق تو ہر حق و باطل کے معرکے میں ہوتے ہی ہیں
اب یہ تو قیادت کی اعلی معاملہ فہمی اور سیاسی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ
کیسے ان ملک اور اسلام دشمن عناصر کو سمجھ دارانہ طریقے سے پکڑتے ہیں |