تعمیر و ترقی کا بے مثال کرشمہ

چین کے تبت خوداختیار علاقے کی پر امن آزادی کی 70ویں سالگرہ کے حوالےسے ایک شاندار تقریب جمعرات کو دارالحکومت لہاسا میں منعقد ہوئی جس میں چین کی ممتاز سیاسی شخصیات سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد شریک ہوئے اور گزشتہ ستر برسوں میں تبتی سماج میں رونما ہونے والی نمایاں مثبت تبدیلیوں کو بھرپور انداز سے سراہا گیا۔تبت کو سطح سمندر سے اپنی بلندی کے اعتبار سے دنیا کی چھت کہا جاتا ہے اور یہ علاقہ سیاحت کے اعتبار سے بھی دنیا میں انتہائی مقبول ہے۔

سن 1951میں تبت کی پر امن آزادی کے بعد گزشتہ 70 سالوں میں تبت میں اقتصادی سماجی ترقی کے اعتبار سے انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔مجھے خود تبت کے دیہی اور شہری علاقوں میں جانے کا موقع ملا ہے اور عام لوگوں سے بات چیت کے دوران اُن کی خوشحالی زندگی سے متعلق بھی دریافت کر چکا ہوں۔یہ بات قابل زکر ہے کہ تبت کو اپنے سخت موسمی حالات اور جغرافیائی خدوخال کی وجہ سے چین میں انسداد غربت کا مشکل ترین محاز سمجھا جاتا تھا لیکن چینی حکومت کی مسلسل کوششوں سے چین کے دیگر علاقوں کی طرح تبت بھی غربت کو مکمل طور پر شکست دےچکا ہے۔یہاں کی تمام کاونٹیز گزشتہ برس غربت سے چھٹکارہ پا چکی ہیں۔ چینی حکومت نے تبت کے لئے سازگار پالیسیاں متعارف کرواتے ہوئے ٹیکس اور مالیات ، انفراسٹرکچر ، صنعتی ترقی ، تعلیم ، صحت ، ثقافتی تحفظ ، ماحولیاتی تحفظ اور دیگر شعبوں کو شامل کرتے ہوئے تبت میں معاشی ترقی کا ایک نیا باب رقم کیا ہے۔

عوام کے معیار زندگی میں بہتری سے متعلق مختصراً دو تین شعبہ جات کا لازماً زکر کرنا چاہوں گا جن کا میں نے تبت میں خود مشاہدہ کیا ہے۔تعجب انگیز بات یہ ہے کہ آج سے ستر برس قبل طبی سہولیات کی کمی کے باعث تبت کے شہریوں کی اوسط عمر صرف 35.5برس تھی مگر آج بہترین طبی مراکز کی بدولت اوسط عمر 71.1برس ہوچکی ہے۔ تبت کے باشندوں کو اب علاج معالجے کے لیے چین کے دیگر بڑے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑتا ہے بلکہ 400 سے زائد بڑے امراض کا علاج اب تبت میں ہی ممکن ہے۔ تبت میں آج مختلف اقسام کے 1642 طبی ادارے موجود ہیں ، جن میں جدید ترین سہولیات سے آراستہ 11 گریڈ اے ہسپتال بھی شامل ہیں جہاں شہریوں کو عالمی پایے کی سہولیات میسر ہیں۔

صحت کے علاوہ اگر تعلیمی شعبے میں ترقی کی بات کی جائے تو قدیم تبت کی نسبت جہاں ایک بھی مناسب اسکول موجود نہ تھا آج جدید تبت میں خواندگی کی شرح 95 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس وقت یہ خطہ مفت نو سالہ لازمی تعلیم کی فراہمی پر مکمل عمل پیرا ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت تبت میں مختلف نوعیت کے 3195 اسکول موجود ہیں جن میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد تقریباً 08 لاکھ ہے۔ تبت سے باہر جا کر تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد بھی بانوے ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔سات دہائیوں کی کوششوں کے بعد تبت میں ایک جدید اور جامع تعلیمی نظام پری اسکول،بنیادی تعلیم ، پیشہ ورانہ تعلیم ، اعلیٰ تعلیم اور خصوصی تعلیم کا احاطہ کرتا ہے ۔

تبت کے شدید موسم کے باوجود چین کے بقیہ علاقوں کی طرح یہاں بھی تمام پھل اور سبزیاں سال بھر دستیاب رہتی ہیں۔یہاں کسانوں کے لیے ایسے زرعی منصوبے اور زرعی ٹیکنالوجی استعمال میں لائی جا رہی ہے جس سے وہ سارا سال کاشتکاری کر سکتے ہیں۔ تقریباً چار دہائیاں قبل پورے تبت میں سالانہ صرف 26 ہزار ٹن سبزیاں پیدا ہوتی تھیں۔آج جدید زرعی اصلاحات اور سبزیوں کی فارمنگ کی وجہ سے یہاں مجموعی پیداوار تقریباً 08 لاکھ ٹن ہو چکی ہے۔

اسی طرح تبت میں جو بات آپ کو انتہائی منفرد لگتی ہے وہ یہاں کا بہترین بنیادی ڈھانچہ بھی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ ، توانائی ، ٹیلی مواصلات ، زراعت سمیت تبت میں شاہراہوں ، ریلوے ، فضائی راستوں اور پائپ لائنوں پر مشتمل ایک جامع ٹرانسپورٹ نیٹ ورک فعال ہے۔ تبت میں قیام کے دوران ایک اور نمایاں پیش رفت یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ یہاں کے شہریوں اور سیاحوں کی سہولت کی خاطر تیز رفتار "بلٹ ٹرین"بھی باضابطہ شروع کر دی گئی ہے۔435کلو میٹر طویل ریلوے ٹریک پر فوشنگ بلٹ ٹرین 160کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے جو ریلوے کی جدید تاریخ میں ایک معجزہ ہے۔تبت میں روزگار کی فراہمی کے حوالے سے بھی مناسب انتظامات کیے گئے ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں میں روزگار کی شرح پچانوے فیصد سے زائد ہے۔اسی طرح تبت میں بسنے والے تمام لوگ آزادانہ اپنے مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہیں۔ اگر مسلم کمیونٹی کا تذکرہ کیا جائے تو تبت میں چھ مساجد موجود ہے۔ تبت کی مسجد عظیم کے امام محمد علی سے ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ عیدین کے مواقع پر مسجد میں چار سے پانچ ہزار تک مسلمان جمع ہوتے ہیں۔مسجد سے ملحقہ ایک مدرسہ بھی ہے جہاں بچوں کو دینی تعلیم سمیت جدید عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔اسی طرح چینی حکومت نے یہاں مساجد کے تحفظ اور مسلم ثقافت کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے۔

تبت کا شمار چین کے ان علاقوں میں کیا جاتا ہے جو سیاحت کے اعتبار سے عالمی شہرت کے حامل ہیں۔ تبت میں آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد چار کروڑ سے زائد رہتی ہے اور ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں وبائی صورتحال شدید تھی اُس وقت یعنیٰ سال 2020میں بھی ساڑھے تین کروڑ سے زائد سیاحوں نے تبت کا دورہ کیا جو ایک غیر معمولی امر ہے۔ تبت میں سیاحت کی ترقی سے حاصل شدہ ثمرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2020 تک یہاں دیہی سیاحت نے براہ راست یا بالواسطہ مقامی کسانوں اور گلہ بانوں کے لئے 86 ہزار ملازمتیں پیدا کی ہیں ، جس کے نتیجے میں سالانہ فی کس آمدنی میں 4300 یوان کا اضافہ ہوا ہے۔

اگر مجموعی طور پر گزشتہ ستر برسوں میں تبت کی حاصل شدہ کامیابیوں کا احاطہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ چینی حکومت کی بہترین پالیسیوں کی بدولت آج تبت چین میں ترقی و خوشحالی کی ایک کامیاب داستان ہے جس نے دنیا کو بتایا کہ اگر آگے بڑھنے کی لگن ہو تو مشکلات پر قابو پاتے ہوئے معجزے تخلیق کیے جا سکتے ہیں۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 616013 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More