ہم نے کبھی غور کیا کہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو معا شرتی زندگی گزارنے کیلئے کیا فطر ت(عادت)
عطاکی ہے؟کیا انسان اکیلا اور تنہا سب کچھ ہے ؟اس کو کسی دوسرے کی ضرورت
نہیں ؟یا انسان اکیلا کچھ نہیں ؟اسے دوسروں کی ضروت ہے۔ آئیے اس راز سے
پردہ اٹھانے کیلئے ہم انسان کی زندگی کا جائزہ لیں، کہ انسان کو کہاں کہاں
دوسروں کی ضرورت پڑتی ہے ۔
جب انسان پیداہو تاہے تو وہ ننھا منا ،کمزور اور بے بس ہو تاہے۔ بول نہیں
سکتا ،اپنی بات نہیں کہہ سکتا ،اپنی بات منوا نہیں سکتا، اس کو اپنے والدین
کی ضرورت ہو تی ہے، ماں اسکو سنبھالتی ہے، وہ روتا ہے تو اسکی غذاکا
بندوبست کر تی ہے، اگر وہ کسی تکلیف میں ہو تووہ محسوس کر لیتی ہے ،
فوراًاس کیلئے دواکا اہتمام کر تی ہے۔ باپ اپنے بچے کو یہ تمام چیز یں
فراہم کر نے کیلئے محنت کر تاہے، اس کیلئے غذا ،کپڑوں اور سردی و گرمی سے
بچنے کا بندوبست کر تاہے ۔یہ سب تو وہ چیزیں ہیں جواسکے والدین اسکو فراہم
کر تے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ غذاجو آپ کھاتے ہیں اس کو آپ تک پہنچانے میں کتنے
لوگوں کی محنت شامل ہے۔ آپ روٹی دود ھ اور پھلوں کو ہی لیجئے ،سب سے پہلے
کسانوں کی ایک جماعت زمین کو قابل کاشت بنانے کے لئے محنت کرتی ہے ۔ایک شخص
ٹریکٹر چلاکر زمین کو نرم اور ہموار کرتاہے۔اس ٹریکٹرکو بنانے میں ہزاروں
لوگوں کا کردار ہو تاہے۔ سینکڑوں انجینئر ،ہزاروں کا ریگر مل کرکا م کرتے
ہیں ۔کئی ممالک تو یہ ٹریکٹر خود تیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہیں
دوسرے ممالک سے درآمد کر نے پڑتے ہیں پھر اس ٹریکٹر میں پٹرول ڈلتا ہے۔
اسکو ہم تک پہنچانے میں لاکھوں لوگ شامل ہو تے ہیں۔ کسان زمین کو تیار کرکے
اس میں بیج ڈالتے ہیں۔کیا آپ کومعلوم ہے کہ اس بیج کو کسان تک پہنچانے میں
ایک پو ری جماعت شامل ہو تی ہے؟ سائنسدان نئی سے نئی تحقیق کرکے زیادہ
پیداوار حاصل کرنے کیلئے معیاری بیج تیار کرتے ہیں ۔ اس بیج کو زمین میں
ڈالنے کے بعدزمین کو پانی اور کھاد کی ضرورت ہو تی ہے ،پانی کو کھیتوں تک
پہنچانے کیلئے محکمہ آب پاشی ہوتاہے، ایک مکمل نہری نظام ہوتاہے، جس میں
لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد محنت کرتی ہے، تب جاکر پانی کھیتوں تک پہنچتا
ہے ۔اسی طرح کھاد کے بڑے بڑے کارخانے ہو تے ہیں، جسمیں ہزاروں کی تعداد میں
مزدور کام کر تے ہیں۔ اس سارے عمل کے بعد پھر ننھے پودے اگتے ہیں ،جن کی
مکمل پودا بننے اورپھل آنے تک حفاظت کر نی پڑتی ہے۔فصل تیار ہونے کے بعد
کسان اس کوکا ٹ کر اس میں سے اناج اور بھوسے کو الگ کرتے ہیں ، بعض پودے
گائے ،بھینس،بکریوں ،بھیڑوں وغیر ہ کا چارہ بنتے ہےں ،جن سے ہم دودھ اور گو
شت حاصل کر تے ہیں ۔
اناج صفائی کے بعد غلہ منڈی بھیجاجا تاہے ،جہاں سے کارخانہ دار آکر خرید تے
ہیں۔ آٹے کی ملوں میں کا م کرنے والے ہزاروں مزدور گندم کو پیستے ہیں ،وہاں
سے یہ آٹے کی شکل میں ہمارے گلی محلوں کی دوکانوں پر آتا ہے ، ہم وہاں سے
خرید تے ہیں تب جاکر ایک روٹی کا لقمہ ہمارے منہ میں جا تاہے ۔بالکل اسی
طرح ہزاروں لوگوں کی محنت سے ہمیں پھل اور سبزیاں ملتی ہیں ۔ یہ لباس جو ہم
پہنتے ہیں اس کیلئے کپاس کو تیا ر کر نے میں محنت لگتی ہے، کپاس کی صفائی
ہو تی ہے، پھر اس کا دھاگہ بنتا ،پھر ٹیکسٹائل ملوں میں کپڑا تیار ہو کر
بازاروں میں آتاہے اور ہمارے والدین خریدکر لا تے ہیں ،درزی اسکو سیتاہے،
پھر ہم نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ اسی طرح جس مکان میں ہم رہتے ہیں اس کے بنانے
میں ہمیں ایک مستری کی ضرورت ہو تی ہے۔ مکان میں استعمال ہو نے والی اینٹوں
کے بھٹوں پر ہزاروں مزدور سر دی گرمی کی پرواہ کئے بغیر محنت کر تے ہیں ۔پھر
گھر کے دروازوں کو بنوانے کیلئے ہمیں بڑھئی کی ضرورت ہو تی ہے۔ گھر کے باہر
بڑے دروازہ کو بنوانے کیلئے لو ہار کی ضرورت ہو تی ہے ۔ خود راج ،بڑھئی
اورلوہارکو آلات کی ضرورت ہو تی ہے، یہ آلات کاریگر بناتے ہیں ۔
غلہ انا ج کھا کر اور سردی گرمی سے محفوظ رہ کر ایک ننھامنا بچہ جب 3یا 4
سا ل کا ہو تاہے تو اسے تعلیم وتربیت کی ضرورت ہو تی ہے۔ اس کیلئے والدین
کوئی سکول تلاش کر تے ہیں، تاکہ یہ ایک قابل انسان بن سکے اللہ تعالیٰ نے
اس کے اندر جو صلاحیات رکھیں ہیں وہ نکھر جائیں ۔ سکول کی عمارت کی تعمیر
بھی اسی طرح ہوتی ہے ،جس طرح ہمارے گھر کی۔ سکول میں تعلیم دینے کیلئے
اساتذہ ہو تے ہیں۔اساتذہ ہماری تعلیم و تربیت کے فرائض سر انجا م دیتے ہیں
۔تعلیم حاصل کر نے کیلئے ہمیں کتاب، قلم ،پینسل ،کاغذ وغیرہ کی ضرورت ہو تی
ہے۔ یہ سب چیزیں بنانے میں اسی طرح ہزاروں لوگ کردار اداکر تے ہیں، جس طرح
ہماری غذاہم تک پہنچنے میں ہزاروں لوگ شامل ہو تے ہیں۔ جب ہم سکول سے 10
ویں تک کی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں تو ہمیں کا لج ،یو نیورسٹی کی ضرورت ہو
تی ہے ۔تعلیمی اداروں میںجانے کیلئے سائیکل ،مو ٹر سائیکل ،رکشہ ،وین،بس
،کار وغیر کی ضرورت ہو تی ہے ،ان کو بنانے میں بھی لاکھوں انسانوں کی محنت
شامل ہو تی ہے ۔
جب یہ بچہ یو نیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے فارغ ہو تاہے ۔ کسی جگہ
آفیسر بھر تی ہو تاہے یا اپنے والد کا کاروبار سنبھالتا ہے،اس کے اندر
اکڑپیدا ہو جاتی ہے، مغرور اور متکبر ہو جاتاہے اور کہتا ہے کہ ان ورکروں،
کاریگروں ، کلرکوں ،مزدوروں اور کسانوں کی میرے سامنے کیا حیثیت ہے؟ میں تو
ان سے روپوں کے عوض کا م کرواتاہوں۔ وہ سرمایہ پرست(پیسے کو پوجنے والا) بن
جاتاہے ۔ اگر زمینوں کا مالک ہے تو کسانوں کو دوسرے درجے کا انسان سمجھتاہے
، جاگیر دار بن کرسوچتاہے ، کسانوں پر ظلم کر تاہے، انکی چھو ٹی چھوٹی
ضروریات کو پو را کر نے سے انکار کر تاہے، حالا نکہ اس کے پاس یہ سرمایہ
اور جاگیر کی آمدن انہی مزدورں اور کسانوں کی محنت کے نتیجے میں آتی ہے ۔
قرآن حکیم نے ان مزدوروں اور کسانوں پر خرچ نہ کرنے والوں کا سورة یسٰین
میں یوں ذکرکیا ہے کہ”جب ان کوکہا جاتاہے کہ خرچ کرو تو وہ لوگ جو انکار کر
نے والے ہیں(کافر) کہتے ہیں کہ کیا ہم انکو کھلائیں اگر اللہ چا ہتا تو
انہیں کھلادیتا “۔ بیشک اللہ ہی ساری دنیا کا رازق ہے وہی سب کو کھلاتا ہے
مگر یہاں اللہ نے کافر لوگوں کی صفت بتلائی ہے کہ وہ کمزوروں اورغریب لوگوں
پر خرچ نہیں کرتے ۔یہ اللہ کے کھلانے کا نظام ہی تھا تو یہ ننھے منے بدن سے
کڑیل جوان بنا، مگر آج جب اس کے ہاتھ میں طاقت آئی تو کہتاہے کہ یہ سب کچھ
میری عقل کی وجہ سے ہے۔ وہ اللہ کی تمام مخلوق کی محنت کا انکار کر دیتاہے۔
والدین کا نافرمان اورمعاشرے کے حقوق توڑنے والا بن جاتاہے ۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوایک دوسرے کا محتاج بنایاہے ۔انسان تنہا کچھ
نہیں۔وہ اکیلا ایک لقمہ روٹی کا نہیں حاصل کر سکتا،چہ جائیکہ اپنی دیگر بہت
سی ضروریات کو پورا کرے ۔حضور اکرم ﷺ کی حدیث ہے کہ ”تمام مخلوق اللہ کا
کنبہ ہے “۔ اللہ کے خاندان کو تنگ کر نے والے لو گ اللہ کے ہاں ناپسند یدہ
ہو تے ہیں۔جو اسکے کنبہ (خاندان ) کے حقوق اداکرے گا، ان کی ضروریا ت کو
پورا کر ے گا، اللہ تعالیٰ اسی سے خو ش ہو نگے ۔ ایسے معاشرے اور قوم کو
اپنے انعامات سے نواز یں گے ،جہاں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے
والے ہوں گے ،محبت اور امن سے رہتے ہو نگے۔ حضور اکرم نے فرمایا کہ” تم میں
سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو نفع پہنچائے“۔
اللہ کا حکم ہے کہ صرف میری عبادت کرو ، میری مخلوق کی خدمت کر و ،کسی
سرمایہ دار او ر جاگیر دار کی بات پر عمل نہ کرو، نہ انکے رعب میں آکر
غریبوں پر ظلم کر و ۔ جب اللہ کا خوف انسان کے دل میں آتا ہے تو باقی سب
خوف دل سے نکل جاتے ہیں۔یاد رکھو!جو لوگ ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھتے، ایک
دوسرے کے حقوق نہیں اداکرتے، وہاں اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔جہالت ،بے روز
گاری و پر یشانی بھوک اور قلت پیداہو جاتی ہے۔ ایسی قوم پوری دنیا میں ذلیل
ہو جاتی ہے اور غلام بنادی جاتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ کا حکم مانیں
ایک دوسرے کی عزت کریں ،امیر اور غریب کی جھوٹی تقسیم جو انسانوں کے ہاتھوں
کی پیداکردہ ہے اس کو مٹا دیں، تمام لوگ آدم ؑکی اولاد ہیں، ان میں چھوٹے
بڑے ،کالے گورے کا کوئی فرق نہیں۔ آپکا ارشاد ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں جو
بڑوں کی عز ت نہ کرے ، چھوٹوں پر شفقت نہ کرے ،اس لئے ہمیں تمام انسانوں کا
احترام کر نا چاہئے والدین اور اساتذہ کی فرمانبرداری کر نی چاہئے اور کمزو
ر لوگوں کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے ، انکاخیال رکھنا چاہیے۔اس
رب کریم کا شکر ادا کر نا چاہئے جو ہم سب کا خالق ،رازق و مالک ہے۔ تمام
انسانیت اسی کی محتاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ |