تحریر: روبینہ شاہین
زندگی ریگ زاروں کی طرح اپنے ہی دھارے پر بہتی رہتی ہے۔ ہر انسان ، ہر قوم
، ہر نسل کے لوگ اپنی اپنی کہانیاں بناتے ہیں۔ وقت گزارتے ہیں اور اس دنیا
سے نکلتے جاتے ہیں۔ آج سے 50سال پیچھے نظر ڈالو تو وہ لوگ کہاں ہیں جو اُس
دور کا درخشاں ستارہ تھے۔ وقت کے دھارے میں سب بہتا جا رہا ہے اور ہم
کاروان سفر لے کر آگے نکلتے جا رہے ہیں۔ زندگیاں بدل جاتی ہیں، انسان بدل
جاتے ہیں لیکن کہانیاں سب کی ملتی جلتی ہیں۔
آج وہ لوگ کہاں ہیں جو ہمیں پاکستان کی آزادی کے قصے سنا کر ہمارے خون کو
جوش اور ولولہ دلاتے تھے۔ وہ درخشاں ستارے ایک ایک کرکے نکلتے جا رہے ہیں
جو ہمیں بتاتے تھے جب پاکستان بنا تو ہم لوگوں نے کتنی قربانیاں دیں۔ ہم نے
سفر پاکستان کس طرح طے کیا۔ دلوں میں کیا کیا جذبے بنے اور بکھرتے گئے۔ہم
نے نئی نسل کو کس طرح سنبھالا۔
جب بھی کوئی قوم غلامی میں ہوتی تو آزادی اس کا خواب ہوتا ہے۔ وہ غلامی کی
زنجیریں کاٹنے کیلئے دن رات تڑپتی ہے، قربانیاں دیتی ہے، گردنیں کٹواتی ہے
پھر جب رب تعالیٰ ایک دن آزادی سے نواز دیتے ہیں تو آہستہ آہستہ آنے والی
نسلیں آزادی کی لذت سے آشنا ہوتی جاتی ہیں۔ وہ غلامی کے دنوں کو ایک خوفناک
خواب سمجھ کر بھول جاتے ہیں۔
آزادی کیا ہے، انسان آزادی کس جذبے کو کہتے ہیں۔ اپنی من مانیاں اور من
مرضیاں کرنے کا نام آزادی ہے۔ مرضی کا گھر ، مرضی کی مسجد، مرضی کا امام،
مرضی کا دین، من مرضی کا کام آزادی کس کا نام ہے۔ ہم ایک آزاد قوم ہیں یا
غلامی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کیا غلامی وہی ہوتی ہے جو ہم دوسروں کے
ماتحت زندگی گزار رہے ہوتے ہیں یا غلامی وہ بھی ہوتی ہے جو ہم اپنی خواہشات
کا غلام بن کر گزار رہے ہوتے ہیں۔
درحقیقت ہم غلام ہی ہوتے ہیں لیکن غلامی کے مطلب یا آزادی کے مطلب کو بدل
دیتے ہیں۔ پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے تو دنیا جانتی تھی۔ آج ہم اپنی
خواہشات کے غلام ہیں۔ یہ ہم جانتے ہیں پہلے نعرہ فضا میں بلند ہوتا تھا۔
پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اﷲ
آج نعرہ بلند ہوتا ہے، میرا جسم میری مرضی
14اگست ہمیں کس آزادی کی یاد تازہ کرنے کیلئے منانی پڑتی ہے۔ 74سال پہلے
بلند کیے گئے نعرے کیلئے یا آج کا جو دور ہے، اس کو ذہن نشین کرنے کیلئے۔
14اگست گھروں کی چھتوں پر جھنڈے لگانے یا ہرے سفید لباس پہن کر شاپنگ مالز
اور تفریح گاہوں پر نمائش لگانے کا نام نہیں۔ موبائلوں پر ڈیٹا اپ ڈیٹ کرنا
اور فحش جملوں کے ذریعے جذبوں کی نمائش کرنا زیب نہیں دیتا۔ ہمیں 74 سال
پہلے کی گئی ان قربانیوں کو یاد کرنا اور آزادی کا اصل مطلب سمجھنے کا نام
ہے۔ پاکستان جس اﷲ اور اس کے رسولؐ کے نام پر بنایا گیا ہے اس دین کو
سمجھنے اور پھیلانے کا نام ہے۔ یہاں دین کی سربلندی کیلئے کوشش کرنے کا نام
ہے۔ ہمارے دلوں سے 14اگست والی روح ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس روح کو دوبارہ
زندہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کی نسل دین اور زندگی کے اصل مقصد سے دور
ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں ہماری ناجائز اور جائز خواہشات پوری نہیں ہوتیں۔ ہم
اس انسان سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم اس جگہ پر جانا بھی پسند نہیں کرتے۔ ہم
آزاد ہیں یا غلام؟ یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔ بظاہر تو ہم آزاد ہیں لیکن
درحقیقت ہم اپنی خواہشات کے غلام ہوتے جا رہے ہیں۔
آیئے مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اس ملک اور ان نئی نسلوں کیلئے مل کر کام
کریں گے۔ ان سب کو آزادی کا حقیقی مطلب سمجھائیں گے۔ اگر ہم نے اپنا آج
نہیں بدلا تو شاید وقت ہمیں اور ہماری نسلوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
اپنے جذبوں کو کنٹرول کرنا سیکھیں اور سکھائیں ورنہ رشتے مر جائیں گے۔ جذبے
تو دوبارہ زندہ ہو جاتے ہیں، رشتے دوبارہ کبھی زندہ نہیں ہوتے۔
|