ریپ کے واقعات میں اضافہ ایک بڑھتا ہوا معاشرتی مسئلہ ہے
، جس کی روک تھام کےمتعلق میڈیا پر بحث صرف اُس وقت جنم لیتی ہی جب ایساا
ندوہ ناک واقعہ میڈیا میں رپورٹ ہوتا ہے ۔ پھرجب سوشل اور الیکٹرانک میڈیا
پر اس مسئلے کے حل کے متعلق آراء کےمابین بحث بہت شدت اختیار کرلیتی ہے تو
حکمرانوں کی طرف سے کچھ بیانات جاری کئے جاتے ہیں اور پھر حکومتی عہدیدار
اور حکمران اس سے یوں غافل ہو جاتے ہیں کہ گویا کوئی مسئلہ موجود ہی نہیں ۔
پاکستان کے ایک مختصر مگر اس نظام میں اثر رسوخ رکھنے والے گروہ کے مطابق
ریپ کی وجہ معاشرے میں مردوں کی بالادستی اور عورتوں کو معاشرے میں برابری
کا مقام حاصل نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے جنسی بھوک کے حامل مرد ،عورتوں کو
کمزور اور حقیر جانتے ہوئے انہیں اپنی جنسی تسکین کا نشانہ بناتے ہیں۔ٍ اس
گروہ کے نزدیک ریپ کا تعلق عریانی یا کسی مخصوص تصورات سے بالکل نہیں ہے،
بلکہ یہ ٹولہ اس بات میں کو ئی حرج نہیں سمجھتا کہ مرد و عورت اپنی رضامندی
و اختیار سے نکاح کے بغیر تعلق قائم کریں۔ لہذا جب کوئی عریانی کی روک تھام
یا مغرب زدہ عورتوں کے لباس کی بات کرتا ہے تو وہ اس شخص کو ریپسٹ کا ہمدرد
کہہ کر مجرم کے ساتھ کھڑا کردیتے ہیں۔
جب ہم اس بیانیے کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ بیانیہ
محض سطحیت پر مبنی ہے اور اس میں حقیقت کا نامکمل احاطہ کیا گیا ہے۔ مزید
یہ کہ یہ بیانیہ مغربی نقطۂ نظر سے متاثر ہے جوانسانی فطرت اور معاشرے کو
لبرل ازم کے گمراہ کن تصورات کی عینک سے دیکھتا ہے۔
اگر ہم ریپ سمیت معاشرے میں رونما ہونے والے جرائم اور ان کے سدباب کے
متعلق درست فہم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انسانی فطرت اور معاشرے کی
تشکیل کے متعلق درست سمجھ حاصل کرنا ہو گی ، وہ فطرت کہ جس پر انسانوں کے
خالق نے انہیں تخلیق کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو چاہے مرد ہو یا
عورت، ایک متعین فطرت پر پیدا کیا ہے اور نسل انسانی کی بقا کا دارومدار ان
کے ملاپ پر رکھا ہے۔ مردوعورت دونوں میں انسان ہونے کی تمام خصوصیات اور
زندگی کے لوازمات موجود ہیں۔ وہ خصوصیات یہ ہیں کہ ہر انسان صاحب ِعقل ہے
اور اس کی سوچ اس کے عمل پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی انسان کی
فطرت میں سے ہے کہ ہر انسان میں کچھ ایسی حاجات ہیں کہ جنہیں پورانہ کیا
جائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا جیسا کہ کوئی بھی انسان پیٹ کی بھوک مٹائے
بغیر، رفع حاجت کے بغیر اور سانس لیے بغیر زندگی نہیں گزارسکتا۔ ان لازمی
حاجات کے علاوہ اللہ نے انسان میں کچھ ایسی جبلتیں بھی رکھی ہیں کہ جن کے
پورا نہ ہونے سے انسان مرتا تو نہیں مگر بے چین رہتا ہے۔ جنسی جبلت ان
جبلتوں میں سے ایک ہے۔ انسان کی فطرت کے یہ حقائق قطعی ہیں اور کوئی ایک
انسان بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔
یہ اللہ ہی ہے کہ جس نے انسان میں جنسی جبلت رکھی ہے اور اس کے پورا کرنے
کے اسباب بھی پیدا کیے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ اللہ نے یہ جبلت تو پیدا کی ہے
مگر اسے پورا کرنے کے لوازمات نہیں رکھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اِس امر کے
متعلق بھی رہنمائی فرما دی ہے کہ انسانی جبلتوں کو پورا کرنے کا درست طریقہ
کیا ہے، خواہ وہ جبلتِ بقاء (survival instinct) ہو یا جنسی
جبلت(procreation instinct) یا پھر جبلتِ تدَیُّن(reverence instinct)۔ کسی
بھی جبلت کی تسکین کا کوئی بھی طریقہ بذاتِ خود یہ طے نہیں کرتا کہ وہ
طریقہ کار لازماً درست ہے۔ مثال کے طور پر ہر انسان میں بقا کی جبلت موجود
ہے ۔ اور یہ انسان کو ابھارتی ہے کہ وہ اپنےلیے آرام اور آسائشیں حاصل
کرے،جس کےحصول کے لیے ایک شخص دولت کماتا ہے اور پھر اس دولت سے آسائشیں
خریدتا ہے۔ مگر کیا دولت کو کسی بھی طریقے سے حاصل کرنے مثلاً چوری ، ذخیرہ
اندازی، منشیات فروشی وغیرہ کومحض اس وجہ سے درست قرار دیا جا سکتا ہے کہ
ایسا اس شخص نے اپنی جبلت کی تسکین کے لیے کیا ہے؟ اگر نہیں ، تو پھر جنسی
جبلت کے معاملے میں کیوں یہ طرزعمل اختیار کیا جائے کہ ایک انسان جیسے چاہے
اسے پورا کر لے، خواہ وہ اس کا خونی رشتہ ہو یا کوئی جانور ہو یا کسی پر
جنسی حملہ ہو!
پس وہ کیا معیار یا پیمانہ ہو گا جو یہ طے کرے گا کہ کسی جبلت کو فلاں
طریقے سے پورا کرنا درست ہے؟ کیا وہ پیمانہ یہ ہے کہ اگر دو انسان باہمی
رضامندی سے اپنی جبلت کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں تو انہیں اجازت ہونی
چاہئے، مثال کے طور پر اگر دو مرد ہم جنس پرستی کے ذریعے یا ایک مرد اور
ایک عورت نکاح کے بغیر ایک اجرت طے کر کے یا بوائے گرینڈ اور گرل فرینڈ کے
طور پر اپنی جنسی جبلت کو پورا کرنا چاہیں تو کیا انہیں اس کی اجازت ہونی
چاہئے؟ لبرل ازم کا تصور یہ کہتا ہے کہ اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہونی
چاہئے۔ تاہم اگر یہ مفروضہ درست تسلیم کر لیا جائے تو اگر دو مختلف ممالک
کے افراداپنی مرضی و رضامندی سے ملکی رازوں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرنا
چاہتے ہوں تو اس کی آزادی ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔
اگر معاشرے کے لیے کچھ معیار اور پیمانے ہی اس بات کو طے کریں گے کہ انسان
کا درست اور غلط طرزعمل کیا ہے تو پھر یہاں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان
پیمانوں اور معیارات کو کیسے اور کون طے کرے گا؟ اور اگراس کائنات کا کوئی
خالق ہے تو کیا اس کا بھی ان معیارات اور پیمانوں کو طے کرنے میں کوئی عمل
دخل ہے یا نہیں ؟!
جبلتوں اور انسانی حاجات کا بغور جائزہ لینے سے ہمیں انسانی فطرت کے متعلق
یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ عضویاتی حاجات جیسا کہ بھوک پیاس وغیرہ کی صفت
یہ ہے کہ یہ کسی بیرونی محرک stimulusکی محتاج نہیں ہوتیں۔ پس ایک شخص کو
لازماً بھوک لگتی ہے خواہ اس کے سامنے اچھا کھانا موجود ہو یا نہ ہو جبکہ
انسانی جبلتوں کی نوعیت یہ ہے کہ یہ اس وقت بھڑکتی ہیں اور اپنی تسکین
چاہتی ہیں جب کوئی بیرونی محرک stimulus انہیں ابھارتا ہے اور اس وقت سرد
پڑ جاتی ہیں جب یہ بیرونی محرک موجود نہیں ہوتا، تاہم جب تک ان جبلتوں کو
پورا نہ کیا جائے تو انسان بے چین اور غیر مطمئن رہتا ہے۔چنانچہ جب ایک بے
اولاد شخص کسی ماں کو اپنے بچے سے پیار کرتا دیکھتا تو اس کے اندرجذبات
اُبھرتےہیں مگر جب یہ منظر سامنے نہ ہو تو ان جذبات کی شدت کم ہو جاتی
ہے،لیکن ایک بے اولاد شخص مستقل طور پر غیر مطمئن رہتا ہے اور اپنے زندگی
میں ایک کمی محسوس کرتا رہتا ہے۔ جنسی جبلت کی بھی یہی حقیقت ہے کہ یہ اس
وقت بھڑک اٹھتی ہے جب ایک شخص کو جنسی محرک کا سامنا ہوتا ہے خواہ یہ محرک
ایک جنسی تخیل ہی کیوں نہ ہو۔
انسانی فطرت کی دوسری اہم حقیقت یہ ہے انسان کے تصورات اس کے میلانات و
رجحانات پر لازماًاثرانداز ہوتے ہیں اور اس کی جبلتوں کومخصوص شکل دیتے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان اپنی بہن یا والدہ کے متعلق کسی قسم کا کوئی
جنسی میلان نہیں رکھتا کیونکہ والدہ اور بہن کے متعلق دین اور معاشرہ اسے
خاص تصورات سے روشناس کراتا ہے، جو ان خونی رشتوں کی حرمت سے متعلق اسلام
نے دیے ہیں۔ گویامعاشرے کے اندر مرد و عورت کے تعلق کے بارے میں درست
تصورات کو پروان چڑھانا اور انہیں پختہ کرنا درست جنسی رویوں کو تشکیل دیتا
ہے جبکہ معاشرے میں اس سوچ کو ترویج دینا کہ ہر انسان آزاد ہے اور اس کی
زندگی کا ہدف اپنی خواہشوں کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنا ہونا چاہئے، ایک
شخص کو اس چیز پر مائل کرتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے بن پڑے جنسی تسکین حاصل
کرے۔
لہٰذا وہ بنیادی محرکات جو ریپ جیسے قبیح جرم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں
ان میں سے ایک وہ بیرونی عوامل ہیں جو انسان کی جنسی جبلت کو ممکنہ طور پر
بھڑکاتے ہیں۔ جبکہ اس جرم میں اضافے کا دوسرا بنیادی محرک معاشرے میں ایک
انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات کو منظم کرنے کے حوالے سے درست
تصورات کا فقدان ہونا ہے۔تبھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسٔلہ کی اصل آماجگاہ
مغربی معاشرے ہیں جہاں پر " شخصی آزادی" کے تصور کے پیش نظر، یہ دونوں
محرکات اپنے جوبن پر ہوتے ہیں۔
لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ پھر پاکستان کے معاشرے میں ان واقعات میں
کیوں اضافہ ہو رہا ہے جہاں پر اکثریت میں مسلمان آباد ہیں؟ تو اس کا جواب
یہ ہے کہ چونکہ ان معاشروں میں بھی اسلام کے نظام کا ہماگیر نفاذ نہیں بلکہ
انگریز کا چھوڑا ہوا نظام چند ترامیم کے ساتھآج بھی نافذ ہے ، اس لیے اس
جرم کو تقویت دینے والے بیان کردہ دونوں بنیادی محرکات یہاں بھی موجود ہیں۔
لیکن چونکہ ان کی شدت یہاں نسبتاً کم ہے اس لیے مغربی معاشروں کی نسبت
ہمارے معاشروں میں اس جرم کی شرح بھی کم ہے۔ البتہ پوری دنیا کی طرح ہمارے
یہاں بھی اس کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔
لیکن مسلمانوں کے معاشروں میں بھی اس کا حل محض عورتوں کو شرعی لباس کا
پابند بنا دینے یا محض شرعی سزاؤںکو متعارف کرا دینے میں نہیں، جیسا کہ
بعض لوگوں کا خیال ہے۔ اسلام کے احکامات ایک دوسرے سے علیحدگی میں کام نہیں
کرتے کہ اسلام کے جزوی یا ادھورے نفاذ کو مسٔلہ کا حل سمجھ لیا جائے۔ بلکہ
اسلام کے احکامات باہم مربوط ہیں اور ان کا صرف جامع اور ہمہ گیرنفاذ ہی
مطلوبہ نتائج پیدا کرنے اور شریعت کے مقاصد کو پورا کرنے کا ضامن ہے ۔
لہٰذا یہ مسئلہ صرف اس وقت حل ہو گا جب پاکستان میں رائج مغربی سرمایہ
دارانہ نظام کو ہر جگہ سے کرید کر مٹا نہ دیا جائے اور اس کی جگہ پر ہر
شعبے مثلاً سیاست، معاشرت، معیشت، عدالت اور تعلیم میں مکمل طور پر اسلام
کا نفاذ نہ کر دیا جائے۔یوں ایک ایسے پاکیزہ معاشرے کی تشکیل ہو سکے گی جو
پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہو گا۔
|