جشن آزادی اور دیگر تقریبات پر قومی پرچم اور جھنڈیوں کے
احترام کے سلسلے میں چند احتیاطی تدابیر،جن پر عمل کرنے سے جہاں قومی پرچم
کے وقار و احترام اور اسکی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگا، وہاں ملک اور قوم
بھی سر بلند و شاداں ہوگی۔
تاریخی اعتبار سے پا کستانی قوم کی وابستگی اور بنیادی نقوش کا تعلق اس
پرچم سے ہے، جو 30دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں اس موقعہ پر لہرایا گیا تھا․
ــ جب وہاں برصغیر کی مختلف تنطیموں کے قائدین کاایک نمائندہ اجتماع ہوا
تھا۔
جس کے نتیجے میں مسلمانان ہند کی اولین سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ
تشکیل پائی تھی۔
ڈھاکہ میں جو پرچم استعمال کیا گیا، اسکا رنگ سبز اور درمیان میں ستارہ
وہلال تھا۔
قیام پاکستان سے قبل پاکستان کی نامزد نمائندہ وآئین ساز اسمبلی کے اجلاس
منعقدہ 11 اگست 1947 ء، کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم
نواب زادہ خان لیاقت علی خان نے قومی پرچم باضابطہ طور پر منظوری کیلئے پیش
کرتے ہوئے فرمایا،
جناب والا۔۔ یہ کسی ایک پارٹی یا طبقے کا پرچم نہیں،،،،،،،
یہ پاکستانی قوم کا پرچم ہے۔
کسی بھی قوم کا پرچم محض ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہوتا۔
اس کی خصوصیت اس کے کپڑے میں نہیں بلکہ ان اصولوں پر ہوتی ہے،جن کا یہ حامل
ہے۔
میں بلا خوف کہہ سکتا ہوں کہ،
پاکستانی پرچم اپنے وفاداروں اور اطاعت گزاروں کی آزادی،خودمختاری اور
مساوات کا ہمیشہ پاسبان رہیگا۔
یہ پرچم ہر پاکستانی شہری کے جائز حقوق کا تاقیامت تحفظ کرے گا۔ ان شاء اﷲ
۔
پاکستانی پرچم کا ڈیزائن امیر الدین قدوائی نے تیار کیا تھا۔ جس کی منظوری
قائد اعظم محمد علی جناح نے دی تھی۔
جبکہ بابائے قوم کے حکم پر اس کی سلائی کا اعز از ماسٹر الطاف حسین کو حاصل
ہوا۔ جنہیں قائد اعظم اور دیگر اکابرین ` تصاویر امیرالدین قدوائی اور
ماسٹر الطاف حسین
تحریک پاکستان کے
کپڑے، سوٹ اور شیروانی وغیرہ سینے اور بابائے قوم پر قاتلانہ حملے کے بعد
ان کا ذاتی محافظ ہونے کا شرف پہلے ہی حاصل تھا ۔
یاد رکھئے۔۔
پرچم کا 25 فیصد حصہ سفید رنگ اقلیتیوں، جبکہ75 فیصدحصہ سبز رنگ مسلم
اکثریت کو ظاہر کرتا ہے۔
سبز رنگ کے درمیان میں چاند، ترقی کا مظہراور پنچ گوشہ ستارہ روشنی اور علم
کی نمائندگی کرتا ہے۔
قومی ترانے میں اسے پرچم ستارہ و ہلال کہا گیا ہے ۔
عمارتوں پر جو قومی پرچم لہرایا جاتا ہے، اسکی لمبائی 6فٹ اور چوڑائی4فٹ
ہوتی ہے۔
کار وغیرہ پر لہرائے جانے والے پرچم کا سائز 8/12 ہوتا ہے
جشن ازادی کے موقعہ پر بچے شوق سے گھروں پر قومی پرچم لہراتے اور پاکستانی
جھنڈیوں سے سجاتے ہیں۔ تاہم جب تقریبات ختم ہو جائیں تواس پرچم کو لپیٹ کر
احتیاط سے کہیں سنبھال کر رکھ لیا جائے،اور اسی طرح جھنڈیاں بھی اتار کر
محفوظ کر لی جائیں۔
گلیوں اور بازاروں میں بھی عوام کا یہی عمل ہونا چاہئے ،غیر ذمہ داری کی
وجہ سے عام طور پر جھنڈیاں پیروں تلے روندھی جاتی ہیں،جو قومی توہین کے
مترادف ہیں۔
بہتر ہے کہ جشن کی تقریبات ختم ہوتے ہی انہیں بھی اتار لیا جائے۔
قومی پرچم اور جھنڈیاں تیار کرتے وقت اس کے کپڑے اور کاغذ کے معیار اور
سائز75/25 کو مدنظر رکھا جائے۔
قومی سبز رنگ کے علاوہ اسے کسی اور رنگ میں نا چھاپا جائے۔اس کے حقیقی
ڈیزائن اور سائزکو بھی مدنظر رکھا جائے۔
عام طور پر قومی پرچم یا جھنڈیوں پر لوگ اپنے ہیروز کی تصاویر چھاپ دیتے
ہیں، یہ امر قومی پرچم کی توہین کے زمرے میں اتا ہے ،نیزقومی پرچم یا
جھنڈیوں پرکچھ اور لکھا یا چھاپا نا جائے۔
شہری انتظامیہ بینرز اور جھنڈیوں کے میعار، تحفظ اور تقدس کی ذمہ دار ہے۔
لیکن خصوصی عملے کے ذریعہ یہ کام فوری طور پر ہونا چاہئیے تاکہ اس دوران
بارش، آندھی یا تیز ہوا سے ٹوٹ کر سڑک پر نا گریں۔ختم شد
|