ماہِ اگست کے آغاز کے ساتھ ہی یومِ آ زادی، قومی تہوار،
تاریخی دن کوپوری حب الوطنی سے منانے کا جذبہ جنم لینے لگتا ہے۔ ہر سال کی
طر ح اس بار بھی راقم الحروف بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنی رہائش گاہ کو
جھنڈ یوں اور قومی پرچموں سے سجانے میں مصروف تھا تا کہ اپنے آباو اجداد کو
خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔قومی ہیروز اورقومی رہنماؤں کو سلام پیش کر کے
زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا جا سکے۔وطنِ عزیز سے محبت و عقید ت کا اظہا رکر
کے ہم یہ ثابت کر دیں کہ ہم محب ِوطن ہیں۔پاکستان سے محبت کرنا فرض ہے اور
ہم اپنے فرض کی ادائیگی احسن طریقے سے انجام دینے میں مشغول تھے کہ ہماری
آنکھوں کے سامنے کچھ دھندلے سے چہرے آن کھڑے ہوئے اور پوچھنے لگے کہ ا ے
وطن کے پرستارو!تم کیا سمجھتے ہو کہ ان جھنڈیوں کو لگانے اور پرچموں کو
لہرانے سے تم نے اپنا فر ض پو را کر لیا ہے؟؟؟۔ جس مقصد کے لیے یہ دن حاصل
کیا تھا، اس کے تقاضے پو رے کر لیے ہیں؟؟؟۔ذرا پیچھے مڑ کر کتاب ماضی کی
ورق گردانی کریں۔ آپ کو کتنے ہولناک واقعات نظر آئیں گے کہ اس دن کو حاصل
کرنے کے لیے کتنی ما ؤں کی ہری بھری گود یں اجڑیں؟؟؟کتنے ہی وہ بوڑھے
والدین تھے جن کے سامنے ان کے کڑ یل جوان بیٹے تلواروں کی زد میں آ کرجام
شہادت نوش کر گئے؟؟؟یہ دن کسی نے پلیٹ میں رکھ کرنہیں دیا تھا۔قربانیوں کی
ایک طویل داستان ہے جس پر پاکستان کی عمارت قائم ہوئی۔ کیا تم ان بہنوں کو
شمار کر سکتے ہو جن کے سر سے آ نچل اتار لیے گئے؟؟؟کیا ان معصوم بچوں کی
گنتی کر پا ؤ گے جن کی آ ہ و بقاء کی صدا ؤں میں ان کے سرسے شفقت کے سا ئے
چھین کر یتیمی کی تپتی دھو پ میں کھڑا کر دیا گیا؟؟؟کسی کا سہا گ اجڑا، تو
کسی کی جنت چھن گئی ہر طرف قتل و غارت کا بازار گر م تھا۔خون کی ہو لی
کھیلی جا رہی تھی انتقام کی آ گ میں اس دن کو حاصل کر نے والوں کو بے دردی
سے بھسم کیا جا رہا تھا۔اس ظلم وبربریت کے با وجود ہر طرف ایک ہی نعرہ
تھا’’لے کے رہیں گے پاکستان۔بن کے رہے گا پاکستان‘‘۔ ان کی عظیم قربانیوں
کے نتیجے میں پاکستان تو بن گیا مگر اے پاکستا نیو! آ پ نے کیا کیا؟؟؟ان کی
قر با نیوں کومنوں مٹی تلے دفن کر دیا۔ایک،خدا،ایک رسول، ایک قرآن، اور ایک
قبلہ کے نام پر بننے والے پاکستان میں آ پ نے جگہ جگہ ڈ یڑھ انچ کی مسجد
تعمیر کر کے قو م کو فر و عی و فر قہ وارانہ گروہ بندیوں میں تقسیم کر کے
بھائی کو بھائی سے لڑانے والاوہ سلسلہ شرو ع کیا جو آ ج تک تھمنے کا نام ہی
نہیں لیتا۔ مساجد ہوں یاامام بارگاہ، مقدس مقامات ہوں یا مزارات دینی
اجتمات ہوں یا مذہبی رسومات فرقہ واریت کی آ ڑمیں آناً فاناً سینکڑوں افراد
کو لقمہ اجل بنا دیا جاتا ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ گو لیوں سے چھلنی ہونے
والا یا بم دھماکے کی نذر ہو نے والا بھی مسلمان اور ظلم و بربریت کی
داستان کو رقم کر نے والا بھی کلمہ گو۔۔۔۔کسے شہید کہا جا ئے؟ اور کس پر دا
ئرہ ایما ن سے خارج ہو نے کا فتو یٰ صادر کیا جا ئے؟۔اسلا می فلا حی معا شی
مملکت کے قیام کی خا طر اپنا تن من دھن قربان کر نے والوں کی روح سے غدا ری
کر تے ہو ئے آ پ نے ایسا سو دی نظا م قائم کیا کہ امیر دو لت کی تجوریاں
بھرنے میں مصروف ہے۔جب کہ غر یب دو وقت کی رو ٹی کو تر س رہا ہے۔امیر کی دو
لت میں دن رات اضا فہ ہو رہا ہے اور غریب پیٹ کی آ گ بجھانے کے لیے در در
کی ٹھوکریں کھانے کے لیے مجبور ہے ۔بے روزگاری عروج پر ہے۔ جبکہ مہنگائی
کاجن آئے روز انسانی جانوں کو نگل رہا ہے۔ عدل وانصاف کی بنیاد پرقا ئم ہو
نے وا لے اس وطن عز یز میں جو سب سے زیادہ چیز نا پید ہے وہ ہے انصاف۔جو
ڈھو نڈ نے سے ملتا ہے نہ ایوان اقتدار کی زنجیر کو ہلا نے سے ملتا ہے۔
زندگی بھر کی جمع پو نجی لٹا کر ملتا ہے نہ ایوان عد ل کا طواف کر نے سے
ملتا ہے۔اور نہ ہی ار باب بست و کشاد کے سا منے گڑگڑ انے سے ملتا ہے۔انصاف
ملتاہے تو کیسے؟؟؟انصا ف کے حصول کے مجو زہ طر یقہ کار سے کو ن وا قف نہیں
ہے۔انصاف کے حصول کے لیے زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔کبھی
حوا کی بیٹی انصاف نہ ملنے پر پھندے سے جھول جاتی ہے اور کبھی اپنے اوپر
پٹرول چھڑک کر اپنا خاتمہ کر لیتی ہے۔انصاف نہیں ملتا تو پھر لوگوں کو
قانون ہاتھوں میں لینا پڑتاہے اور پھر وہ جب ایسا کرتے ہیں تو آپ ان کو
مجرم کہتے ہو۔ اندھا قانو ن کسی کے لیے قہرثابت ہو تا ہے تو کسی کے ہاتھ
میں آتے ہی مو م بن جاتا ہے۔ تین سورو پے کی چو ری کر نے والا پابند سلاسل
اور کر وڑوں ار بو ں کی بد عنوا نیوں کے ریکا رڈ قا ئم کر نے والا اقتدار
کے جھولے جھولنے میں مصروف۔ کیا اس لیے حاصل کیا تھا پاکستان؟؟؟جتنا کوئی
بڑا مجرم ہے وہ اتنی ہی بڑی کرسی پر برجمان ہے۔ کیا اسے کہتے ہیں عدل و
انصاف؟؟؟ قا ئداعظم محمد علی جنا ح کے قو ل کام، کام، اور کام، کی یو ں
دھجیا ں بکھیری جا رہی ہیں کہ دفاتر میں جب تک قا ئد کی تصو یر وا لے نیلے
پیلے سبز سر خ نو ٹو ں کی سلا می نہ دی جا ئے۔ تو کو ئی اپنے ہا تھ کو حر
کت میں لا نے کو تیا ر نہیں۔ ہر طر ف رشوت کا با زا ر گر م ہے۔ رزق حلا ل
عین عبادت ہے ایک بے ضرر اور غیر مو ثر قول بن کر رہ گیا ہے چادر اور چار
دیواری کا تحفظ وہ جذ بہ تھا۔جس نے مسلما نو ں کو کٹ مرنے پر تیار کیا
اورانھوں نے اپنے خون کی ندیاں بہا کر آپ کو ایک آ زاد خطے کا تحفہ دیا مگر
آ ج اپنے ہی آ زا دملک میں حوا کی بیٹی غیر محفوظ ہے۔روز لٹتی ہے روز مرتی
ہے۔ روز آ ہو بکاہ کرتی ہے۔بین کرتی ہے۔ تحفظ کے لیے سسکیاں بھرتی ہے۔ مگر
کو ئی محمد بن قا سم جنم نہیں لیتا اور حوا کی بیٹی کی بے بس آ نکھوں سے
بہنے وا لے آ نسو زمین میں جذ ب ہو جا تے ہیں۔ہر طرف بے حیا ئی کے کلچر نے
پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ فلا حی مملکت کا خواب دیکھ کر اپنی آ نے وا لی نسلوں کو
محفو ظ مستقبل دینے کے لیے بہنوں نے بھا ئیو ں کی، وا لدین نے او لاد کی
اور او لاد نے وا لدین کی قر با نی دی۔ مگر یہاں تو ہر طرف مہنگائی اور بے
رو ز گا ری نظر آ رہی ہے زندگی کی سا نسوں کی ڈور کو جاری رکھنا مشکل ہی
نہیں نا ممکن دکھا ئی دیتا ہے۔ سیا ست، خد مت اور انقلا ب کے نام پر چند
مخصوص گروہ اور خا ندان عوام کو سبز با غ دکھا کر ملکی خزانے کو یوں لوٹ
رہے ہیں کہ شیطا ن بھی یہ سو چنے پر مجبور ہو جا تا ہے کہ یہ تو میرے بھی
باپ نکلے ہیں۔ بے شک ایک دن ان چوروں، ڈاکووّں، راہزنوں، لٹیروں،بے حسوں،
ضمیر فروشوں،ظالموں اور معا شی استحکا م کے قا تلوں نے اسی زمین میں خا لی
ہا تھ دفن ہو نا ہے۔ان کے جسموں پر اسی طرح منوں مٹی ڈالی جا نی ہے جس طر ح
غریب کی تد فین ہو تی ہے مگر یہ لالچی ذ ہینت کے حامل اور حوس و دو لت کے
نشے میں مد ہوش دن رات ملکی وسا ئل پر ڈاکا زنی میں مصروف ہیں۔ اے پاکستا ن
کے با سیو! اگر آ پ کے ہا ں جرأت و بہادری کی داستا نیں رقم کرنے والی غیور
فو ج نہ ہو تو یہ ظا لم آ پ کو ایک دن میں اغیار کے ہا تھوں فروخت کر دیں۔
اقتدار کی میو ز یکل چیئر میں شریک یہ ضمیر فروشی کے سو داگر اﷲ سے تو نہیں
ڈرتے مگر پاک فو ج سے ضرور خوف زدہ ہیں ورنہ ان کی آ نکھوں پر دو لت جمع کر
نے کی ہو س کی وہ پٹی بندھی ہے۔کہ انہیں دو لت کے علا وہ کچھ اور دکھا ئی
دیتا ہی نہیں ہے۔ سو ال یہ ہے ان کو اقتدار کی کر سی پر بیٹھا نے وا لے کو
ن ہیں؟؟؟ ان کو ایوا ن اقتدار تک پہنچنے کے لیے اپنا کندھا کو ن فرا ہم
کرتا ہے؟؟؟۔۔۔ آپ۔۔۔ جی ہاں! آپ! تو پھر ان حا لات کے ذمہ دار آپ بھی ہیں۔
آئیے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کہ کیا آپ اپنے اسلاف کے نظریات
و خیا لا ت اور ارشادات و فرمودات سے رو گر دانی نہیں کر رہے ہو؟؟؟ کیا آپ
اپنے آباوّ اجداد کی عظیم قربا نیوں کو پس پشت نہیں ڈال رہے ہو؟؟؟کیا آپ
شہداء کی ارواح سے نا انصافی کا ارتکاب نہیں کر رہے ہو؟؟؟ جن عظیم مقا صد
کے حصول کے لیے پاکستان کے قیام کے لیے لاکھوں جانیں قربا ن کی گئیں۔
کیا ان کے جذ بہ شہادت کو فر مو ش نہیں کیا جا رہا ہے؟؟؟آ پکی طرف سے جھنڈ
یا ں لگا نے، قو می پر چم لہرا نے، جشن آ زا دی کی تقریبات کا انعقاد کر
انے، نیوز چینلز اور اخبارات کے لیے بیانات جاری کرانے،اخبارات میں خصوصی
ایڈ یشن کا اہتمام کرانے، اور نیوز جینلز پر خصوصی پرو گرام چلا نے سے کیا
تحریک پاکستان کے شہداء کی ارواح کو سکون مل پا ئے گا؟؟؟
میرے پاس تو ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں۔ کیا آپ جواب دے سکتے ہیں؟؟؟ بنت
عابد نامی کسی شاعرہ نے کیا
خوب نقشہ کھینچا ہے
جشن آزادی سنا جب میں نے
دل رو دیا زا ر و زار آنسو خون کے
آئی کہیں سے پکار یہ
ارے کون سی آزادی
ارے کون سا جشن
کرب سے ہوا جگر میرا
چھلنی چھلنی بار بار
دیکھا جب میں نے
اپنے جوانوں کو
چیخ اٹھا شدت غم سے
ماتھوں پر باندھے پٹیاں ہری
گالوں پر چاند اور ستارہ رنگے
زباں پہ الاپتے نغمے۔۔
جا رہے ہیں جابجا
آواز آئی کہیں سے
کیا یہ ہیں اقبال کے شاہین۔
کیا یہ ہے قائد کا پاکستان..
لاشوں کے ڈھیروں کو اٹھتے
معصوم چیخوں کو سنتے
ماؤں کی گودیں اجڑتے
بہنوں کے سہاگ سلگتے
بیٹیوں کی حرمتیں لٹتے
دیکھتے تو ہو تم شاہینو
مگر کچھ کرتے کیوں نہیں
کیا یہ ہے اقبال کا خواب
کیا یہ ہے قائد کا پاکستان
تم تو کہو گے ہے ہی بے حس ہوں میں
تمھاری خوشیوں میں شریک نہیں میں
جشن مناتی نہیں تمھارے سنگ بنت عابد
تم سے فقط یہی چاہتی ہوں میں
میرے اجڑے گلشن کی مہک لوٹا لاو
میری ارض پاک کی چہک لوٹا لاو
سنو اے شاہینو
مجھ کو وحشت آتی ہے
مجھ کو خوف محسوس ہوتا ہے
میری ارض پاک کا رنگ تو پاک تھا
یہ سرخ رنگ اس میں ملایا کس نے
میری تم سے اک ہی التجا ہے اے شاہینو!
اس پاک سر زمین کو
ناپاک کرنے والو ں کو
اس پاک سرزمین کو
سرخ کفن پہنانے والو ں کو
ڈھونڈ لاؤ۔۔۔
میری ارض پاک کو
پاک کر دو پاک کر دو
کیونکہ ہر لمحہ ہر لحظہ
یہ ارض پاک اک ہی سوال کرتی ہے
جس کا جواب تم کو دینا ہو گا
کیا میں آزاد ہوں
کیا میں آزاد ہوں
|