سنا رہے ہیں عنا دل نوید آزادی
منا رہا ہے چمن آج عید آزادی
ہمارے سامنے ہے روز و شب کا آئینہ
غضب کی فرد عمل ہے غضب کا آئینہ
آج ملک بھر میں یوم آزادی منایا جا رہا ہے۔ہر طرف خوشیاں ہیں،جلسے ہیں،جلوس
ہیں،جھنڈے ہیں،چراغاں ہے،نعرے ہیں ،تقریریں ہیں۔لیکن میں آزادی کے ان نام
نہاد متوالوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اے آزادی کا جشن منانے والو! کیا تم
جانتے بھی ہو کہ اس آزاد ی کے حصول کے لیے کتنی ماؤں کے لختِ جگر کٹ
گئے،کتنی عصمتیں کٹ گئیں،خون کے کتنے دریا بہ گئے،آرزوؤں کے کتنے محل جل
گئے۔اے آزادی کے شادیانوں پرتھرکنے والو! کیا تم جانتے بھی ہو کہ آزادی کیا
ہے....؟ کیا آزادی یہ ہے کہ جو چاہیں کھائیں،جو چاہیں پییں،جیسے چاہے زندگی
گزاریں؟کیا آزادی یہ ہے کہ ہم پردے کو ختم کرکے آزادی کے نام پر مخلوط
محافل منعقد کروائیں،ناچیں گائیں اور اودھم مچائیں؟کیا آزادی یہ ہے کہ ہم
سود کو حلال کر دیں؟کیا آزادی ہی ہے کہ ہم جس کا چاہیں گلا کاٹ دیں،جس کی
چاہیں عزت لوٹ لیں،جس کا چاہیں حق دبا لیں؟ کیا یہی وہ آزادی ہے جس کا خواب
علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟ نہیں!ہر گز نہیں۔اگر آزادی اسی کا نام ہے تو یہ
آزادی تو ہمیں ہندوستان میں بھی حاصل تھی۔پھر کیوں ہم نے لاکھوں بچے یتیم
کروائے،کیوں ہم نے بہنوں کی عصمتیں لٹوائیں ۔آخر کیوں؟ ..... ارے ہم نے تو
آزادی اس لیے حاصل کی تھی کہ ہم انسانوں کی غلامی سے آزاد ہو جائیں اور صرف
اﷲ کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں۔لیکن ذرا رک کر سوچیے کہ کیا یہ
مقصد پورا ہو گیا ،کیا ہم واقعی آزاد ہو چکے ہیں؟ اگر ہم تصورات کی دنیا سے
نکل کر حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں تو بڑی تلخ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔صورتحال یہ ہے کہ ہم ظاہری طور پر تو آج آزاد ہو چکے ہیں لیکن ہمارے ذہن
ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ہم ذہنی طور انگریز کے غلام بن
چکے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے پر فخر کرتے ہیں۔اسی کا وبال ہے کہ آج
یہ ملک قرضے کے بوجھ تلے دبا ہو ا ہے اور اس بوجھ میں روز بروز اضافہ ہو
رہا ہے۔اور ہم بیٹھے معاشی تنگی کا رونا رو رہے ہیں۔ان سب کا حل یہی ہے کہ
ہم انسانوں کی غلامی طوق اتار کرایک ربِّ ذوالجلال کی غلامی کا طوق گردن
میں سجالیں۔اگر ہم نے ایسا کر لیا تو پھر کامیابی ہمارے قدم چومے گی اورہم
حقیقی معنوں میں آزاد کہلائیں گے........۔
|