سوچ بدلے گی تو بدلے گا معاشرہ۔

پچھلے دنوں ٹی وی فیسبک بلکہ ہر قسم کے ذرائع ابلاغ پر ایک ہی خبر گردش کر رہی ہے اور آپ سب بھی اس خبر سے واقف ہوں گے ۔ چودہ اگست ٢٠٢١ مینارِ پاکستان کے زیر سایہ کیا ہوا۔ میں زیادہ کچھ نہیں جانتا بس یہ ہی کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک بیمار معاشرے کی نشانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے بعد اور بہت ساری وڈیوز اور خبیریں آئیں کہ ایک لڑکی کی لاش کو قبر سے نکال کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ پھر ایک رکشہ میں سرعام لڑکی کے ساتھ بے حرمتی۔ اور آئے دن ایسے بے شمار واقعات ہو رہے ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے۔ ایک اخبار کے مطابق پیچھلے آٹھ ماہ میں تقریبا آٹھ ہزار کے قریب ریپ کے کیسز درج ہوئے ہیں ۔ جن میں پندرہ سو کے قریب بچوں کے کیسز ہیں۔ کیا یہ تھا ہمارا معاشرہ جو قائد اعظم نے ہمارے لئے حاصل کیا تھا ۔ کیا ایسے معاشرے کا خواب اقبال نے دیکھا تھا۔

کیا ہم اتنے حوس پرست ہو چکے ہیں ۔ کہ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ یا پھر ہم جانور بن چکے ہیں۔ جبکہ ہمیں اشرف المخلوقات بنایا گیا تھا ۔ ان دونوں ٹویٹر پہ کچھ نے یہ بھی کہا کہ گوشت سڑک پر پڑا ہو گا تو کتا تو منہ مارے گا۔ کیا ہم سب کتے سے آگے چلے گئے ہیں۔ ہمارے اردو ادب کے بڑے نامور لکھاری سعادت حیسن منٹو جہنں زیادہ تر لوگ اچھا نہیں سمجھتے کیونکہ وہ ہمارے معاشرے کا کڑوا سچ سامنے لاتے ہیں لکتھے ہیں ‘‘ہم عورت اسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو باقی ہمارے لیے کوئی عورت نہیں ہوتی بس گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں ۔ جن کی ہوس زدہ نظرہمیشہ گوشت پر ٹکی رہتی ہے“۔ باکل صیح فریا یا ہمارے معاشرے کے٩٩ فیصد لوگ باکل ایسا ہی کرتے ہیں اور عورت کو اسی نظریے سے دیکھتے ہیں۔

کیوں ہم اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت نہیں کررہے کیوں ہم انھیں آزادی کے نام پر بگاڑ رہے ہیں کیوں ہم اپنے بچوں کی ہر معاملے میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ جہاں صروت ہو چھڑی کی وہا ں چھڑی کا استعمال کریں اور جہاں ضرورت ہو پیار کی وہاں پیار کریں۔ ہمیں اپنے بچوں کو وقت دینے کی ضرورت ہے اگر ہم اپنے بچوں کے ساتھ ہر روز کچھ وقت گزارتے ہیں تو ہمارے بچے ہمیں اپنے مسائیل سے آگاہ کریں گے۔ وہ ہمیں اپنی پرشنیاں اپنی خوشیاں بتائے گے تو ہمارا معاشرہ ہمارا نوجوان زہنی طور پر تندرست ہو گا۔ لیکن اگر ہم صرف پیسہ کمانے میں مصروف رہے گے تو بس پیسہ ہی کمائے سکون نہیں۔

ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ نہیں کہنا کہ تم کیسے جوان ہو تم سے یہ نہیں ہوتا وہ نہیں ہم جب جوان تھے ہم تو سب کچھ کر لیتے تھے ۔جس دور میں سے ہم گزر رہے ہیں ہمیں اپنے نوجوان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آیا میرے موجودہ معاشرے کا نوجوان چاہتا کیا ہے۔پہلے دور میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا تھا جو اب کے جوان کے ساتھ ہوتا ہے پہلے نہ پڑھائی کی ٹینشن نہ سوشل میڈیا کا دباو۔ آج کے نوجوان کو بہت سی مشکلا ت کا سامنا ہے اور وہ ذہنی سکون چاہتا ہے۔ اس لئے ہم سب کو کرنا یہ ہے کہ ہم اپنے جوان کو سمجھے اور اس سے یہ مت کہے کہ تم نے بڑے ہو کر یہ کرنا ہے تم نے بڑے ہو کر بہت امیر بننا ہے بہت پیسے کمانے ہیں بلکہ یہ کہے کہ تم نے بیٹا خوش رہنا ہے عورت کو انسان سمجھنا ہے عورت کی عزت کرنی ہے لڑائی نہیں بلکہ معاف کر نا ہے غصہ نہیں پیار کرنا ہے برداشت کرنا ہے۔ نماز پڑھنی ہے ۔ بڑوں کا احترام کرنا ہے چھوٹوں سے پیار کرنا ہے اور سب سے بڑی بات اپنے نوجوان کو بتانے کی ضرورت ہے کہ خود سے پیار کرنا ہے لیکن یہ سب تب ہی ہوگا جب ہم سب ملکر یہ کرئے گے ۔ جب ہر گھر میں گھر کے بڑے کرئے گئے تو بچے جوان بڑوں سے سیکھے گئے ۔ کیونکہ بچے وہ نہیں کرتے جو ان سے کہا جائے بچے وہ کرتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں۔ ہمارے نوجوان آج زیادہ تر نشہ کا شکا ر کیوں ہیں کیونکہ وہ سکون چاہتے ہیں اور نشہ ذہن کو سن کر دیتا ہے اور وہ سکون دیتاہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو موبائل فون بھی وقت سے پہلے ہی ان کے ہاتھ میں تھاما دیےہیں۔ اورہمارے نوجوان انٹرنیٹ سے غیر اخلاقی تصاویر اور وڈیوز دیکھ کر اپنے نفس کو قابق نہیں رکھ پاتے اور بے شمار جرائم کا شکا ر ہو جاتے ہیں ۔ اس لئے جیسے ہی بچہ یا بچی بلغ ہو اس کا نکا ح کر دینا اچھے اور تندرست معاشرے کی نشانی ہے ۔
آئیں سب مل کر اپنے معاشرے کی تندرستی کے لئے اپنے گھر کے بچوں اور بچیوں پر توجہ دیے۔ ان کو وقت دے ان کی تربیت کریں ان کی سوچ بدلے کیونکہ سوچ بدلے گی تو بدلے گا معاشرہ۔
 

Istfan Alwan
About the Author: Istfan Alwan Read More Articles by Istfan Alwan: 10 Articles with 7867 views

"JUST REMEMBER ME"
.. View More