چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) کی گزشتہ 100 سالوں کی
تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ پارٹی کو ہمیشہ چینی عوام
کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی مارکسسٹ حکمران جماعت
کے لیے تمام تر مشکلات پر قابو پانے اور آگے بڑھنے کے لیے طاقت کا ایک
لازوال ذریعہ ہے۔ایک سو برس قبل تقریباً 50 ارکان کے ساتھ شروع ہونے والے
سفر میں آج 95 ملین سے زائد ارکان شامل ہیں ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ
زبردست بین الاقوامی اثر و رسوخ کے ساتھ سی پی سی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی
جماعت بن چکی ہے۔
سی پی سی کی قیادت میں چین ایک غریب اور پسماندہ ملک سے آج ایک متحرک اور
خوشحال معیشت میں تبدیل ہو چکا ہے۔آج کا چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت
کہلاتا ہے ، اور لوگوں کی زندگیوں میں بھی نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔چینی
صدر شی جن پھنگ ، جو سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں ،
اُن کے نزدیک عوام ہی پارٹی کی کارکردگی کو پرکھنے کے "اعلیٰ اور حتمی منصف"
ہیں۔
دنیا بھر میں رائے عامہ اور عوامی اعتماد کی مانیٹرنگ سے وابستہ معروف
عالمی ادارے "ایڈلمین ٹرسٹ بیرومیٹر" کے سال 2020 میں کیے گئے ایک سروے سے
پتہ چلتا ہے کہ چینی عوام کی اپنی حکومت پر اعتماد کی شرح 95 فیصد ہے جو کہ
دوسرے ممالک کے سروے نتائج سے کہیں زیادہ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ کی
ہارورڈ یونیورسٹی نے بھی اسی طرح کے نتائج کا انکشاف کیا ہے۔اب سوال یہی
پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کے بل بوتے پر سی پی سی نے 1.4 بلین
چینی عوام کی زبردست حمایت حاصل کی ہے۔حقائق کے تناظر میں سی پی سی کے لیے
عوام کی حمایت کی بنیادی وجوہات میں پارٹی کی چینی عوام کی فلاح و بہبود کے
لیے لگن اور اُس کا عوام دوست گورننس کا فلسفہ ہے جس میں لوگوں کو اولین
ترجیح حاصل ہے۔
سی پی سی کے نزدیک عوام ہی پارٹی کی اساس ، پارٹی کا وجود اور پارٹی کی
طاقت کا ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت عوام کے مفادات کے لیے کام کرتی
ہے اور اس کے اپنے کوئی زاتی مفادات نہیں ہیں۔ سی پی سی نے اپنے قیام کے
روز اول ہی سے چینی عوام کے لیے خوشحالی کی جستجو اور چینی قوم کی عظیم
نشاتہ الثانیہ کو اپنا اصل مقصد اور مشن قرار دیا اور آج ایک سو سال بعد
ہمیں اس عوام دوست نظریے کے ثمرات چین کی ترقی کی صورت میں جابجا نظر آتے
ہیں۔
سی پی سی نے اپنی پوری تاریخ میں ہمیشہ لوگوں کی فلاح و بہبود کو اولین
مقام پر رکھا ہے اور اسی نظریے سے جڑے رہتے ہوئے آج بھی پارٹی ارکان عوام
کے مفادات کے لیے اپنی جانوں سمیت سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔اعداد
و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ عوامی جمہوریہ کے قیام کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے
1921 سے 1949 تک 3.7 ملین ارکان نے اپنی جانیں قربان کیں جبکہ اس کے علاوہ
بے شمار گمنام ہیروز بھی ہیں۔موجودہ دور کی ہی بات کی جائے تو چین نےوبائی
صورتحال سے نمٹنے اور غربت کے خاتمے کے لیے وسیع پیمانے پر شروع کردہ مہم
میں عوام کو سب سے مقدم رکھا ہے اور اپنی عوام دوستی کو ٹھوس اقدامات کے
ذریعے دنیا کے سامنے ثابت کیا ہے۔تباہ کن وبا کا سامنا کرتے ہوئے سی پی سی
نے قلیل مدتی معاشی بدحالی اور عارضی بندش کی قیمت پر لوگوں کی زندگی اور
صحت کے تحفظ کو اولین ترجیح دی۔چینی قیادت نے واضح کر دیا کہ معاشی نقصان
کو تو برداشت کر لیا جائے گا مگر عوام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔اس
ضمن میں عوامی سلامتی کے لیے ہر وہ کام کیا گیا جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا
جائے گا۔سی پی سی کے اراکین نے وبا کے خلاف جنگ میں ہر اول دستے کے طور پر
کام کیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 39 ملین سے زائد سی پی سی کارکنان نے
انسداد وبا کے لیے فرنٹ لائن پر فرائض سرانجام دیے اور ان میں سے تقریباً
400 نے اپنی جانیں عوامی تحفظ کے لیے نچھاور کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی
عوام دل و جان سے اپنی حکومت اور پارٹی سے لگاو رکھتے ہیں کیونکہ اُن کے
نزدیک یہی وہ مخلص قیادت ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھ سکتی ہے
اور چینی عوام کے مفادات و حقوق کے تحفظ کی ضامن بن سکتی ہے۔ |