'بال چور‘ پرندوں کا نشانہ اکثر وہ ممالیہ جانور بنتے ہیں جو... پرندے جانوروں کے بال کیوں چراتے ہیں؟

image
 
پرندے اپنے گھونسلے بنانے کے لیے جانوروں کے صرف گرے ہوئے بال ہی نہیں بلکہ جانوروں کے مردہ جسموں سے بھی بال جمع کرتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق پرندے عام طور پر زندہ جانوروں کے جسموں سے بال اکھاڑ کر چوری بھی کر لیتے ہیں۔
 
نئی تحقیق حیاتیاتی ماہرین کی اب تک کی اس سوچ کی نفی کرتی ہے کہ پرندے شاید اپنے گھونسلے بنانے کے لیے یا تو زمین پر گرے ہوئے حیوانی بال اور چھوٹے چھوٹے پر جمع کر لیتے تھے یا پھر اس کام کے لیے وہ مردہ جانوروں کی تلاش میں رہتے تھے۔
 
پرندوں کی کئی قسموں کے سماجی اور نفسیاتی رویوں کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کی اس ریسرچ کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ جب بدلتے موسموں میں نئے گھونسلے بنانے کا وقت آتا ہے، تو چند انواع کے پرندے تو اپنے رویوں میں کچھ عرصے کے لیے بالکل بےجھجھک ہو جاتے ہیں۔ اس کا سبب ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے 'گھر‘ زیادہ سے زیادہ نرم اور آرام دہ مادوں سے بنے ہونا چاہییں۔
 
بہترین 'تعمیراتی ساز و سامان‘
ماہرین کے مطابق اپنے 'گھروں‘ کے لیے 'تعمیراتی ساز و سامان‘ کے طور پر ان پرندوں کو اکثر ممالیہ جانوروں کے بالوں کی تلاش ہوتی ہے۔ یہ مخصوص جستجو بھی ایک باقاعدہ منطق کے تحت کی جاتی ہے۔
 
 
اس لیے کہ ایسے بالوں کی نقل و حمل بہت آسان ہوتی ہے، ان کے تقریباﹰ دھاگے کی طرح لچک دار ہونے کے باعث انہیں گھونسلوں کی تعمیر میں حسب خواہش اور حسب ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے اور وہ حدت کے ضیاع کو روکتے ہوئے پرندوں کے نومولود بچوں کی جسمانی حفاظت میں معاون بھی ہوتے ہیں۔
 
کچھ عرصہ پہلے تک جو بات غیر واضح تھی، وہ یہ تھی کہ ایسے پرندے اپنے گھونسلوں کی تعمیر کے لیے بال کہاں سے لاتے ہیں۔ کئی ماہرین کا خیال یہ تھا کہ یہ پرندے ایسے گرے ہوئے بال زیادہ تر زمین سے جمع کرتے ہوں گے یا مرے ہوئے جانوروں کے جسموں سے اٹھا لاتے ہوں گے۔ لیکن پتہ یہ چلا کہ پرندوں کی کئی قسمیں ایسے بال مختلف ممالیہ جانوروں کے جسموں سے باقاعدہ اکھاڑ کر جمع کرتی ہیں۔
 
امریکی اورنیتھالوجسٹ کے مشاہدات
امریکا کی الینوئے یونیورسٹی کے پرندوں سے متعلق حیاتیاتی علوم کے ایک ماہر (اورنیتھالوجسٹ) ہینری پولاک نے ایک دن دیکھا کہ بندر سے ملتے جلتے رَیکُون نامی ایک ممالیہ جانور کو کھانا کھاتے ہوئے ایک ایسی چڑیا تنگ کر رہی تھی، جو بار بار اس کی کھال پر چونچ مار کر اس کے بال کھینچ رہی تھی۔
 
اس پر ہینری پولاک سوچنے لگے کہ وہ چڑیا ایسا کیوں کر رہی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ پرندوں کی اپنے گھونسلے بنانے سے متعلق نفسیات کا باقاعدہ سائنسی مطالعہ کیا جائے۔
 
پھر ہینری پولاک اور ان کے ساتھیوں کی ایک پوری ٹیم نے قدرتی ماحول میں مختلف پرندوں اور یوٹیوب پر ایسے پرندوں کے بےشمار ویڈیو کلپس کا مطالعہ کیا۔ پتہ یہ چلا کہ بہت سے پرندوں میں اپنے بچوں کو دودھ پلانے والے زندہ جانوروں کی کھال سے بال چرانے کا عمل بہت عام ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ ایسے 'بال چور‘ پرندوں کا نشانہ اکثر وہ ممالیہ جانور بنتے ہیں، جن کی کھال اور اس پر بال خاص طور پر نرم اور آرام دہ ہوتے ہیں، جیسے مثلاﹰ کسی لومڑی کے۔
 
 
ایک نئی اصطلاح
ہینری پولاک اور ان کے ساتھیوں کی ریسرچ کے بعد بریٹ وٹنی نامی ایک اور معروف اورنیتھالوجسٹ نے بھی پرندوں کے ایسے ہی رویوں کا باقاعدہ مطالعہ کیا۔ اس دوران یہ بھی طے ہو گیا کہ کئی پرندے خاص طور پر لمبے نرم بالوں والے کتوں کے بال چرانے کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔
 
گزشتہ برس ڈچ سائنسدانوں کی طرف سے کی گئی تحقیق سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اگر کتوں کے بالوں میں جوئیں پڑی ہوں، تو پرندے ان کے بال چرانا پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسی صورت میں ان بالوں کو لگی جوئیں اور دیگر طفیلی جرثومے پرندوں اور ان کے بچوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
 
اس کے علاوہ کئی پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو مرغیوں اور بطخوں وغیرہ کے پروں اور بھیڑ بکریوں کے نرم بالوں کو چرانا پسند کرتے ہیں۔
 
اس ریسرچ کا ایک سائنسی نتئیجہ یہ بھی نکلا کہ ماہرین نے 'بال چور‘ پرندوں کے اس رویے کے لیے ایک باقاعدہ اصطلاح بھی ایجاد کر لی ہے، جو 'کلَیپٹوتریچی‘ (Kleptotrichie) کہلاتی ہے۔ یہ اصطلاح یونانی زبان کے دو الفاظ کا مرکب ہے: kléptein کے معنی چوری کرنا اور تریچی thrix سے نکلا ہے، جس کے معنی بال ہیں۔
 
Partner Content: DW Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: