|
|
گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان میں عورت مارچ کے حوالے سے
کچھ نعرے شدید ترین تنقید کی زد میں رہے۔ مگر اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا
کہ جس طرح عورت مارچ کے نعروں کی گونج ہمارے معاشرے میں مثبت اور منفی
ردعمل کے ساتھ وائرل ہوئے اسی طرح عورتوں کے خلاف ظلم اور زیادتی کے واقعات
میں بھی اضافہ ہوا - |
|
لوگوں نے عورت مارچ کے نعروں کو شدید ترین تنقید کا
نشانہ بنایا مثال کے طور پر اپنا کھانا خود گرم کرو جیسے نعرے اس کا پس
منظر جانے بغیر اس لیے تنقید کا نشانہ بنائے گئے کہ ان کے پس منظر کو جاننے
کی کوشش ہی نہیں کی گئی- اگر عورت مارچ میں یہ نعرہ لگایا گیا تو اس کے
پیچھے یہ واقعہ تھا کہ ایک شوہر نے اپنی بیوی کو صرف اسی لیے قتل کر دیا کہ
اس نے اس کو کھانا گرم کر کے نہیں دیا تھا۔ اس کے جواب میں کچھ لوگوں کا یہ
کہنا تھا کہ اگر وہ عورت اپنے شوہر کو کھانا گرم کر کے دے دیتی تو شائد آج
زندہ ہوتی- |
|
معاشرے کا منفی رجحان مرد کے ہر عمل کی ایک توجیح تراش
رہا ہے جب کہ عورت کو اپنے اس زہریلے رویے سے ہر حوالے سے قصور وار قرار
دے رہا ہے- وکٹم بلینمنگ یا متاثرہ فرد پر الزامات نے ظالم کو مظلوم اور
مظلوم کو ظالم قرار دے دیا ہے- اس سبب گزشتہ کچھ دنوں میں ایسے واقعات
سامنے آئے جنہوں نے پوری قوم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایسے ہی کچھ
واقعات کے بارے میں بتائيں گے- |
|
نور مقدم کیس |
نور مقدم کیس ایک ہائی پروفائل کیس ہے جس میں ایک جانب
سابقہ سفارتکار کی بیٹی ہے تو دوسری جانب ایک بڑے بزنس مین کا بیٹا۔ اس کیس
میں نور مقدم کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس کے ساتھ اس کے
ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی- اس کے بعد قتل کرنے کے بعد اس کے سر کو تن سے
جدا کر دیا گیا۔ اس سفاکیت کے جواب میں بعض لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ نور
مقدم ظاہر جعفر کے گھر تنہا کیوں گئی۔ اور ظاہر جعفر نے جو بھی کیا اس میں
بنیادی طور پر غلطی نور مقدم ہی کی تھی- یہاں تک کہ ایک صحافی عمران ریاض
نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نور مقدم نے اسلامی قوانین کا خیال نہیں رکھا جس
کی وجہ سے اس کے ساتھ یہ سلوک ہوا مگر یہ سب کہتے ہوئے عمران ریاض صاحب یہ
بھول گئے کہ اس طرح وہ ظاہر جعفر کے گھناؤنے جرم پر پردہ ڈالنے کی ایسی
کوشش کر رہے ہیں جو معاشرے میں بہت سارے ظاہر جعفر پیدا کرنے کا باعث بن
سکتے ہیں- |
|
|
لاہور موٹر وے کیس
|
لاہور موٹر وے کیس میں ایک عورت کو اس کے بچوں کے سامنے
زیادتی کا نشانہ بنیا گیا اور لوٹا گیا مگر اس حوالے سے بھی لوگوں نے تنقید
کا نشانہ اسی عورت کو بنایا- یہاں تک کہ سی سی پی او لاہور تک نے اسی عورت
پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رات کے اس پہر تنہا عورت کو سفر نہیں کرنا چاہیے
تھا- جب کہ ان افراد کے لیے ان کے پاس کوئی الزام نہ تھا جنہوں نے ایک تنہا
عورت کو دیکھ کر اس کی مدد کرنے کے بجائے اپنی شہوت کی پیاس بجھائی۔ اس طرح
کے رویے معاشرے میں موجود حیوانوں کو سبق سکھانے کے بجائے ان کے جرم کی
توجیحات پیش کر کے بہت سارے اور افراد کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جو کہ
انسانوں کے لباس میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں- |
|
|
مینار پاکستان کیس |
مینار پاکستان پر یوم آزادی کے دن ایک ہجوم کی جانب سے
عائشہ اکرم کے کپڑے پھاڑ دینا۔ اس کو فٹ بال کی طرح ہوا میں اچھالنا، اس کے
جسم کے نازک حصوں کو چھونے کی کوشش میں اس کو زخمی کرنا ایک ایسا جرم ہے جس
نے انسانیت کی تذلیل کر کے رکھ دی۔ مرد تو عورت کا محافظ ہوتا ہے جب کہ
یہاں پر 400 مردوں میں لطف لینے والے تو سارے تھے تحفظ دینے والا ایک بھی
نہ تھا- جس پر لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ عائشہ ایک ٹک ٹاکر تھی اس وجہ
سے اس کے ساتھ جو بھی ہوا اچھا ہوا۔ ایک غلط واقعے کو سپورٹ کرنے میں لوگ
اس حد تک گر گئے کہ انہوں نے ایک غلط عمل کو صحیح قرار دے دیا مگر
بدقسمتی سے اس معاشرے میں چھ سال کی بچی جس کو ٹک ٹاک کے معنی تک نہیں پتہ
ہوتے اس کو بھی زیادتی کا نشانہ بنیا جا رہا ہے یہاں تک کہ معروف اداکارہ
عفت عمر کی ایک پوسٹ کے مطابق بکری کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور اس کو بھی
زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ کیا ہر بات کی توجیح پیش کرنے والے معاشرے کے
ٹھیکیدار بتائيں گے کہ بکری کا کیا قصور تھا؟ |
|