ٹھرکی ہر کوئی ۔ حاجی کوئی کوئی

مینار پاکستان میں یوم آزادی کے موقع پر ٹک ٹاک سٹار لڑکی کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم اوربے غیرتی پر پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پربہت کچھ لکھا گیا، بہت کچھ بولا گیا اور شاید مستقبل قریب میں بھی بہت کچھ لکھا اور بولا جائے گا۔ میڈیا پر اس وقت دو طرح کی آراء سامنے آرہی ہیں۔ ایک طبقہ کے نزدیک اس ظلم و ستم کا شکار لڑکی اس واقعہ کی خود ذمہ دار ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ اسکے برعکس واقعہ کا ذمہ دار اس ہجوم میں شامل لڑکوں کو قرار دے رہے ہیں۔پہلا طبقہ جسکے مطابق ظلم کا شکار لڑکی اس واقعہ کی خود ذمہ دار ہے وہ اپنی اس سوچ کے پیچھے متعدد وجوہات بھی بیان کررہے ہیں، جیسا کہ لڑکی کو کس نے کہا تھا کہ وہ لڑکوں کو خود بلائے اور پھر انکے ہجوم میں جائے؟ جب لڑکی پوری دنیا کے سامنے ٹک ٹاک ویڈیوز میں چست لباس پہن کر کسی غیر محرم لڑکے کے ساتھ اوچھی حرکیتں کرتی ہوئی نظر آتی ہے تو اس بناء پر اس لڑکی کے لاکھوں فالووز بھی بن جاتے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ جب اس جیسی لڑکی عوام کے سامنے براہ راست سامنے آئے گی تو نوجوان لڑکے اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکیں گے۔ لڑکی پر تنقید کرنے والوں کے مطابق جب عورت گھر سے بے پردہ ہوکر باہر نکلے گی، لڑکوں کے ہجوم میں جائے گی جس سے لڑکوں کے جذبات کو قابو کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اور لبرل طبقہ جب عورت کی آزادی کی بات کرتا ہے تو آزادی ملنے کے بعد پھر رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس طرح کی عورتوں کیساتھ ایسا واقعہ ہوجانا کچھ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اسی طرح کی کچھ اور باتیں بھی کی جارہی ہیں جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، کہ یہ واقعہ ہے تو شاید قابل مذمت ہے مگر اس طرح کے واقعات کی تمام تر ذمہ داری اسی طرح کی لبرل عورتوں پر عائد ہوتی ہے۔جبکہ دوسری جانب اس واقعہ کی تمام تر ذمہ دار ی ٹک ٹاکر لڑکی پر ظلم کرنے والے لڑکوں پر عائد کی جارہی ہے۔ اس طبقہ کے مطابق پاکستان کی ہر عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جیسا چاہے لباس پہنے، جہاں جانا چاہے وہ جاسکتی ہے، اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی شخصی آزادی پر قدغن لگائے یا پھر اس طرح کا ظلم و ستم کرے۔یہ تو تھیں دو طرفہ آراء۔یہ بات طے شدہ ہے کہ ہر انسان کی اپنی سوچ ہوتی ہے اور کسی کی سوچ پر پابندیاں عائد نہیں کی جاسکتیں۔ بہرحال اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 26 (i) کے مطابق ”عام تفریح گاہوں یا جمع ہونے کی جگہوں میں جو صرف مذہبی اغراض کے لئے مختص نہ ہوں، آنے جانے کے لئے کسی شہری کے ساتھ محض نسل، مذہب، ذات، جنس سکونت یا مقام پیدائش کی بناء پر کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا“ اسی طرح آرٹیکل 26 (ii) میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ ” شق (i) میں مذکورہ کوئی امر عورتوں اور بچوں کے لئے کوئی خاص اہتمام کرنے میں مملکت کے مانع نہیں ہوگا یعنی عورتوں اور بچوں کے لئے ریاست پاکستان مزید خصوصی انتظامات بھی کرسکتی ہے“۔جن افراد کی سوچ یہ ہے کہ اس واقعہ کی ذمہ دار خود لڑکی، اسکا چست لباس، اوچھی حرکتیں وغیرہ وغیرہ ان افراد سے صرف چھوٹا سا سوال اگر کوئی عورت آپکو زنا کی دعوت دے اور آپ و ہ دعوت گناہ قبول کرلیں، اس حالت میں گناہگار کیا صرف عورت ہوگی یا پھر مرد اور عورت دونوں؟ ماضی قریب اور آئے روز چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی کے واقعات میں کیا ان چھوٹے چھوٹے نابالغ بچے بچیوں نے بھی چست لباس پہن رکھے تھے؟ کیا ان بچوں نے بھی کوئی عریانی و فحاشی والی ٹک ٹاک ویڈیوز بنا رکھی تھیں؟ کیا ان بچوں نے بھی اپنی دلفریب اداؤوں سے مردوں کو اپنی طرف مائل کیا تھا؟ کیا کم سن بچیوں سے زیادتی میں انکے لباس کا عمل دخل تھا؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم سن بچے بچیوں کیساتھ بعض اوقات تو انکے اپنے خونی رشتہ دارگناہ میں ملوث پائے گئے، ان بچے بچیوں کے ساتھ کبھی کسی سکول، گلی، محلہ، حتیٰ کہ مدرسہ میں بھی ظلم و بربریت کی گئی۔غیر جانبدارنہ تجزیہ کیا جائے تواس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں ہے کہ عریانی و فحاشی جیسے عوامل زنا جیسے کبیرہ گناہ سرزد ہونے کا باعث بنتے ہیں۔اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عورت کا بہترین اور محفوظ مقام اسکے ماں باپ اور شوہر کا گھر ہے، اسی طرح عورت اپنے بھائی، باپ، شوہر اور بیٹے کے ساتھ محفوظ ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ ہم میں اکثریت ایسی ہے جو اپنی ماں، بہن، بیٹی، بیوی اور تقدس والے رشتوں کے معاملے میں تو بہت حد تک سنجیدگی اور غیرت مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگرکسی دوسرے کی بہن، بیٹی اور دیگر تقدس والے رشتوں کوگندی، بیہودہ اور بے غیرتی والی نظروں سے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ ہم میں سے مردوں کی اکثریت راہ چلتی عورت کا سر سے پاؤں تک بے غیرتی والی آنکھوں سے ایکسرے اور بعض تو الٹراساؤنڈ بھی کرتے ہیں؟حد تو یہ ہے کہ عبایا اور برقعہ پہنی عورتوں کو بھی اپنی گندی نظروں کا شکار کرتے ہیں۔ کیا ہم میں اکثریت ٹھرک پن کی انتہا کی بلندیوں تک نہیں پہنچی ہوئی؟پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت اس وقت دنیا کے مشہور و معروف پورن سٹارز کی دیوانی نظر آتی ہے۔وہ نوجوان تو اللہ کا ولی ہی ہوگا جو سستے ترین انٹرنیٹ کے باوجود کسی پورن سٹار کو نہ جانتا ہو۔ ابھی یہ تحریر لکھ ہی رہا تھا تو میڈیا پر گردش کرتی یہ خبر یں دیکھیں کہ سوات میں اک بھائی نے اپنی سگی بہن کو زیادتی کا نشانہ بنا دیا۔اور صوابی میں اچھی خاصی عمر والے شخص نے کم سن بچے کے ساتھ بدفعلی کردی۔اک اور خبر کے مطابق ٹھٹھہ میں اک عورت کو قبر سے نکال کر اسکے ساتھ بدفعلی کی گئی۔سوشل میڈیا پر وائرل اک اور ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یوم آزادی ہی کے دن کچھ اوباش لڑکے چنگ چی رکشہ میں بیٹھی لڑکی کا تعاقب کرتے ہیں، ان میں سے اک بے غیرت لڑکا چلتے رکشے میں بیٹھی ہوئی لڑکی کو بوسہ دیتا ہے۔اس طرح کے ہر معاملہ میں لڑکیوں ہی کو قصور وار قرار دینے والوں سے اک چھوٹا سا سوال، کیا کوئی شخص یہ پسند کرے گا کہ خدانخواستہ انکی بہن، بیٹی کیساتھ راہ چلتے کوئی بے غیرت مرد اسطرح کی اوچھی حرکت کرے؟ درحقیقت بے غیرتی اور حیوانیت باپردہ عورت اور ٹائٹ جینز پہنی ہوئی عورت، کم سن بچی اور کم عمر لڑکے کے درمیان تفریق نہیں کرتی اور نہ ہی محرم اور نا محرم رشتوں کی پرواہ کرتی ہے۔کیا اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم صرف عورت ہی کے لئے ہے؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے مذہب اسلام میں مر د اور عورت دونوں کو گناہ سے بچنے کی تعلیمات دی گئی ہیں۔ اس وقت پاکستانی معاشرے کا حال تو اب ایسا ہوچکا ہے کہ ”ٹھرکی ہر کوئی۔حاجی کوئی کوئی “۔پنجابی کی اک ضرب المثل ہے کہ ”حاجی ا وھو ای اے جیندا ہجے تیکر دا نیئں لگیا“ یعنی ہمارے معاشرے میں حاجی(نیک پاک) وہی ہے کہ جس کو بے غیرتی، گناہ کا موقع نہ مل سکا۔ اللہ کریم ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور ہم سب مسلمان مردوں اور عورتوں کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین ثم آمین


 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 115903 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.