آج جوکتاب زیر تبصرہ ہے اس کا نام مقالات ِ شریف ہے۔
پروفیسر میں محمد شریف نے علامہ شیخ محمد اقبالؒ کے ساتھ کیمبرج یونیورسٹی
میں فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کر کے ۱۹۱۷ء کو وطن لاہور واپس
آئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور نے فلسفہ میں لیکچر شپ پیشکش کی۔عثمانیہ یونیورسٹی
حیدر آباد نے اورایم اے او کالج علی گڑھ سے بھی انہیں فلسفے کی پروفیسر شپ
پیش کی گئیں۔ علامہ اقبالؒ کے مشورہ سے ایم اے او کالج علی گڑھ کی پیش کش
قبول کر لی اور میاں محمد شریف ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک علی گڑھ یونیورسٹی میں
فلسفے کے پروفیسر کی خدمات انجام دیتے رہے۔
پروفیسر میاں محمد شریف نے کتاب ’’مقالات شریف‘‘ میں علامہ شیخ محمد اقبالؒ
فلسفی شاعر کے مقالات پر فلسفیانہ سیر حاصل تجزیہ کیاہے۔یہ پروفیسر میاں
محمد شریف کے علمی مضامین کا مجموعہ ہے جو زیادہ تر مجلہ اقبال لاہور ثقافت
لاہور اور کچھ دوسرے رسائل میں شائع ہوئے۔ بزم اقبال لاہورنے ان مضامین کے
مسودہ کا نام ’’فلسفیہ مباحث‘‘ تجویز کیا تھا۔ مگرمسودہ میں کافی غلطیاں
اورتکرار تھی۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اعزازی سیکرٹیری بزم اقبال لاہور
بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے مارچ ۱۹۹۴ء میں بزم اقبال لاہور کا نظام
سنبھالا تو یہ کتاب کمپوزنگ کے مرحلے میں متن کی کئی الجھنوں کا شکار تھی۔
چناچہ مسودے کی از سر نوتفیح وتہذیب کرنی پڑی۔ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار
فرماتے ہیں ’’میری توجہ اس کتاب کے عنوان کی طرف گئی جو میرے نذدیک اس
مجموعہ مضامین کے لیے موزوں نہیں تھا۔ اس مقصد کی خاطر میں نے چند دوستوں
سے مشورہ کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر شکور احسن پروفیسر میں محمد شریف کے حقیقی
بھانجے ہیں،نے اس کتاب کا عنوان’’ مقالاتِ شریف‘‘ تجویز کیا اور سب دوستوں
نے اس کی تاہید کی۔ چناچہ نام بدل دیا گیا‘‘ پروفیسرمیاں محمد شریف پاکستان
کے ہی نہیں برعظیم جنوبی ایشیا کے ایک بڑے فلسفی اور قابل احترام شخصیت کے
مالک تھا۔اس کتاب میں جسٹس ڈاکٹر ایس۔اے رحمن سابق چیف جسٹس پاکستان کی ایک
تحریر کو دیباچہ بنایا گیا۔جسٹس مسٹر۔ ایس۔ رحمٰن فرماتے ہیں۔’’ علی گڑھ
مسلم یونیورسٹی کے علمی اور انتظامی حلقوں میں میاں صاحب ایک بزرگ محترم کی
حیثیت رکھتے تھے۔ ۱۹۱۷ء سے علی گڑھ یونیورسٹی کی خدمت کر رہے تھے۔ تقسیم کے
بعد وہ آبائی وطن لاہور تشریف لے آئے۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہوراور بزم
اقبال لاہور کے سہ ماہی رسالہ اقبال کے مدیر اعلی کے فرائض دیے۔ وہ فلسفی
اور ادیب تھے۔میاں صاحب نے ۱۹۵۴ء میں فلاسافیکل کانگریس کی بنیاد ڈالی‘‘
جہاں تک اس کتاب کا معاملہ ہے اس کتاب میں افکار اقبال ،مسلمانوں کی علمی
میراث،عمرانیت ،فلسفہ تعلیم،فلسفہ مباحث، اور فلسفہ اقتصاد پر مشتمل ہے۔ ان
عنوانات کے آگے کئی ذیلی عنوان ہیں ۔ مصنف لکھتے ہیں اقبال ؒ کی تحریروں کے
تین دور ہیں ۔ ان تین ادوار میں اقبالؒ نے اپنا فلسفہ یا نظریہ کے تحت جو
کچھ سمجھا اسے اس آخری دور جو ۱۹۲۳ء سے ۱۹۳۸ء تک بڑی سرعت کے ساتھ آٹھ
تصانیف میں سمو دیا۔ فن کے متعلق اقبالؒ کے نذدیک ایسی موسیقی جس میں
خیالات،احساسات، جذبات اور قوت ارادی کی کار فرمائی موجود نہ ہو آتش افسردہ
ہے۔ اس کو اقبالؒ اپنے متعد اشعار سے ثابت کرتے ہیں۔ویسے تو پوری کتاب
اقبالؒ کے اشعار سے بھری پڑی ہے ۔چند ذیل میں پیش خدمت ہیں۔
نغمہ می باید جنوں پروردہ
آتشی در خون دل حل کردہ
اقبال پھرکہتے ہیں:۔
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
مصنف لکھتے ہیں اقبال بلاشبہ ایک طباع انسان تھے اور ان کا شمار دنیا کے
عظیم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ اقبال اسلام کو از سرے نوتازگی دینے اور
مسلمانوں کو ابطال کی ایک عظیم الشان قوم بنانے کی خواہش ستانے لگی۔برگسان
نے اپنا فلسفہ نیات حسین نیچر میں لکھا۔ اقبال نے بہتر شعر کی اعلیٰ ترین
صورت میں اظہار کیا۔مثلاً اقبال کہتے ہیں :۔
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن نہ رات
اس کتاب میں مصنف نے ڈاکٹر سنہاکی کتابiqbal message as a poet پر دلچسب
تبصرہ بھی کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں اقبال یقیناً شاعر اسلام ہیں لیکن
انہوں نے ہند و،سکھ اور یورپ کے دانشوروں کے بارے میں جتنی نظمیں لکھی ہیں،
اتنی کبھی کسی ہندو یا یورپی شاعر نے عالم اسلام کے بارے نہیں لکھیں۔ اقبال
کی نظموں کے عنوان یہ ہیں:۔رام، سوامی رام تیرتھ،عارف ہندی،بھتری ہری،نانک،
ترانہ ہندی،صدائے درد،نیا شوالہ،قومی گیت،شیکسپیئر،لاک،کانٹ،ہیگل،شوپہنار،
کامتے،نپولن،گوئنے، براؤننگ، قیصر ولیم، برگساں، ٹالسٹائے،لینن، نشطے، آئن
اسٹائن اور مسولینی غیرہ۔راقم کے نذدیک جس اقبال نے دنیا کے اتنے دانشورں
کو پڑھ کر ان پرنظمیں لکھی ہیں اس کے علم کاموازنہ کرنا مشکل ہے۔مصنف
لکھتاہے اقبال نے دنیا کے سامنے ملت اسلامہ کو ایسے انداز میں پیش کیا کہ
اس کے پیرو ایسے سماجی نظام کے علمبرادر تھے جومرتبے ، رنگ و نسل اور ذات
پات کی تفریق کو مٹا کر فراخ دلانہ انسانی سربلندی اثبات خودی کے لیے بے
غرضی اور ایثار کی حوصلہ افزائی کرتاے۔ یہ اوصاف مغربی معاشرہ میں موجود
نہیں ہیں۔
کتاب کے صفحہ نمبر ۱۷۳ سے ۳۶۶ تک میاں محمد شریف کی مختلف مقالات ہیں جو
مجلہ اقبال لاہور ، ثقافت اسلامیہ لاہور اور دوسرے رسالوں میں شائع ہوتے
رہے۔ مصنف نے اپنے فلسفیانہ مباحث کو تقویت پہنچانے کے لیے کئی شاعروں کے
شعر بھی کوٹ کیے ہیں۔ اس مقالات میں زمدگی کے ہر شعبہ پر فلسفیاہ بحث کرکے
اس کا حل تلاش کیا گیا۔ مسلمان کی زندگیوں کو سنوارنے کی کوشش کی گئی۔
مغربی فلسفہ سے حاصل اچھی چیزوں کولیا گیا۔ اسلامی فلسفہ کی شریع کی گئی
ہے۔ کہیں کہیں اقبال کی تعلیمات کو بھی سامنے رکھا گیا۔ اسلام کے آفاقی
نظریات کی فلسفیانہ تشریع کی گئی۔ کتاب اقبالیات میں ایک گراں قدر اضافہ ہے
جو ہماری لائبریری کا حصہ بنی۔ہمیں اقبال۔قائد ۔مودودی فکری فورم کو آگے
بڑھانے کے لیے غذا مہیا کرے گی۔ ان شاء اﷲ۔
|