ٹائیلٹ

اخبار میں چھوٹی سی خبر تھی کہ یونیورسٹی آف سرگودھاکے کچھ اصحاب نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو کہا ہے کہ یونیورسٹی میں موجود لوگوں کے مقابلے میں یونیورسٹی میں ٹائیلٹ کی سہولت بہت کم ہے جس سے لوگوں کو بہت پریشانی ہوتی ہے، اس لئے انہوں نے وائس چانسلر سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سہولت کو بہتر کیا جائے اور یونیورسٹی کی حدودمیں کچھ اور ٹائیلٹ تعمیر کی جائیں تاکہ لوگوں کے لئے آسانی کا سامان ہو۔ ٹائیلٹ ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے۔ مگر بڑی عجیب بات ہے کہ ہم عمارتوں پر تو ہزاروں خرچ کرتے ہیں لیکن ٹائیلٹ کے لئے نہ تو معقول جگہ مہیا کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کی اچھی شکل و صورت بنانے کے لئے پیسے خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ دنیا سمجھتی ہے کہ ٹائیلٹ کا بالکل نہ ہونا یا معقول شکل میں نہ ہونا غربت سے جڑا ہے۔ کھلی جگہ کا ٹائیلٹ کے طور پر استعمال بہت سی بیماریوں کا باعث ہے جن میں ہیضہ سب سی اہم ہے، ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ ٹائیلٹ نہ ہونے کے سبب ہیضے سے مر جاتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ہر سال تیرہ لاکھ سے چالیس لاکھ تک ہیضے کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان میں سے اکیس ہزار سے چار لاکھ تک ہلاک ہو جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ڈائیلٹ کا نہ ہونا ہے۔کھلی جگہ کا استعمال بکٹیریا اور بہت سے جراثیم کے پھیلاؤکا باعث ہوتاہے۔جو انسانی جسم پر تیزی سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس لئے ایک صاف ستھری ٹائیلٹ ہر جگہ، چاہے وہ دفتر ہو یا گھر، ضروری ہے۔

اس وقت دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی یعنی ساڑھے چار ارب لوگوں کو ٹائیلٹ کی سہولت میسر نہیں۔جس کے نتیجے میں ہیضے سمیت بہت سی بیماریاں پھیلتی ہیں اور نتیجے میں دنیا میں روزانہ پانچ سال سے کم عمر کے 750 بچے مرتے ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگینائزیشن ہر سال نومبر میں ورلڈ ٹائیلٹ ڈے مناتی ہے اور اس دن لوگوں کوٹائیلٹ کی اہمیت اور اس کے نہ ہونے سے صحت پر ہونے والے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا نعرہ ہے’’کوئی رہ نہ جائے‘‘ ۔ اس نعرے کے تحت وہ عالمی سطح پر صاف پانی کی فراہمی اور ٹائیلٹ کی سہولت کے لئے اربوں روپے خرچ کرتے ہیں ۔ جوں جوں لوگوں کو شعور آ رہا ہے صاف پانی اور اچھی ٹائیلٹ کی ڈیمانڈبڑھتی جا رہی ہے۔دنیا بھر کی بہت سی تنظیمیں اس پر کام کر رہی ہیں۔لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ ٹائیلٹ فقط ٹائیلٹ نہیں ہوتی ،یہ آپ کی زندگی بچاتی ہے، آپ کو باعزت بناتی ہے اور زندگی بہتر کرنے پر مائل کرتی ہے۔

ٹاٹا بھارت کا ایک بہت بڑا انڈسٹریل گروپ ہے جو سوئی سے لے کر جہاز تک بناتا ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں ان کی سینکڑوں فیکٹریاں ہیں۔ٹاٹا کا چیف ایگزٹیو ایک فیکٹری کے دورے پر تھا۔وہاں ورکرز نے شکایت کی کہ ٹائیلٹس کے دو سیٹ بنے ہوئے ہیں۔ ایک افسران کے لئے اور دوسرا عام ملازمین کے لئے۔افسروں کے ٹائلٹس کی دیکھ بھال اور صفائی پوری طرح ہوتی ہے جب کہ ملازمین کے لئے جو ٹائلٹس ہیں وہ انتہائی گندے اور ان کی دیکھ بھال اور صفائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ٹاٹا نے ان سے وعدہ کیا کہ جیسے بھی ہو ان کا مسئلہ آج ہی حل ہو جائے گا۔ اس کے بعد انچارج کو بلایا گیا جس کے پاس افسروں کی شکائتاور بہانوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ٹاٹا نے کارپینٹر کو بلایا ۔ پتہ چلا کہ ٹائیلٹس کی تعداد تو ایک سی ہے صرف صفائی اور دیکھ بھال کا فرق ہے۔ افسروں کے لئے بنی ٹائیلٹ ہمہ و وقت صاف رکھی جاتی اور ان کی دیکھ بھال بھی پوری طرح ہوتی ہے ۔ عام لوگوں کے لئے بنی ٹائیلٹس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اس نے فوری حکم دیا کہ دونوں ٹائلٹس کے باہر لکھے دونوں بورڈز جن پر ’’افسران کے لئے‘‘ اور ’’ ملازمین کے لئے ‘‘لکھا ہے آپس میں بدل دئیے جائیں اور یہ عمل ہر ماہ دھرایا جائے۔ اس حکم کے بعد یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو گیا۔

میرا ایک دوست اپنے بچوں کے رشتے دیکھنے جاتا تو لڑکا یا لڑکی بڑے تیار ہو کر آتے مگر وہ انہیں نظر انداز سا کر دیتا۔ ماں باپ کے انداز کو جاننے کے بعد اس کی بیگم بہانے سے کچن کا چکر لگاتی اور وہ باتھ روم کا۔ مجھے بڑا عجیب لگا مگر اس کا موقف تھا کہ دیکھنے میں تو سب اچھے ہوتے ہیں اور ان کی زبانی ان کے بچے کمال ذہین۔لباس بھی موقع کے مطابق شاندار ہوتا ہے، لہجے میں عاجزی اور مٹھاس بھی خوب ہوتی ہے مگر ان کی اصلیت ان کے کچن کی بے ترتیبی اور گندے پن سے عیاں ہوتی ہے۔ ٹائیلٹ کی صفائی اور دیکھ بھال رہی سہی کسر پوری کر دیتی ہے یوں ان سے مزید بات کرنے سے پہلے مجھے ان کے رہن سہن کا اندازہ ہو جاتا۔ اس کے خیال میں بہت سے امیر بھی انتہائی غلیظ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جب کہ بہت سے درمیانے درجے کے لوگ بہت عمدہ نظم و ضبط کے ساتھ صاف ستھری اور اچھی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ یوں مجھے سلیقہ مند بچے یا بچی کی تلاش میں سہولت ہو جاتی ہے۔
دنیا بھر میں راہ چلتے عام لوگوں کو بھی پبلک مقامات پر حکومت کی طرف سے یہ سہولت مہیا کی جاتی ہے جس کا یہاں فقدان ہے۔ وہاں ہر پٹرول پمپ پر بھی ٹائیلٹس کا بہت صاف ستھراانتظام ہوتا ہے۔ ہم نے بھی کوشش کی تھی کہ ہر پٹرول پمپ پر ٹائیلٹ، وضو اور نماز کی سہولت ہو مگر چند پٹرول پمپوں کے علاوہ کوئی یہ سہولت دینے کو تیار نہیں۔ زیادہ تر پٹرول پمپوں پر موجود ٹائیلٹ اس قدر گندے ہیں کہ اس کے اندر جانا تو دور کی بات پاس سے بھی گزر جائیں تو عام آدمی پر بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔موٹر وے والوں نے اپنے قیام اور طعام والی جگہوں پر لوگوں کو ٹائیلٹ کی سہولت دی ہے۔ یہ ٹائیلٹس آئیڈیل تو نہیں مگر کافی پہتر ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کچھ اور بہتر ہو جائے تو اچھا ہے۔ایک دو جگہ پر وہاں پر موجود پٹرول پمپوں نے بھی وہاں صاف ستھرے ٹائیلٹس کا انتظام کیا ہے اور انہیں استعمال کرنے والوں سے وہ پچاس روپے فی فرد کے حساب سے وصول کرتے ہیں اور لوگ خوشی سے اتنے پیسے دیتے ہیں۔حکومت کو چائیے کہ اس انسانی بنیادی ضرورت کے لئے بڑے بڑے شاپنگ سنٹرز، بڑی کاروباری جگہوں اور پٹرول پمپس کو پابند کرے کہ وہ عوام کی سہولت کے لئے اچھی اور صاف ستھری ٹائلٹس بنائیں اور ان کی باقاعدہ چیکنگ بھی کی جائے۔ اس پر حکومت کا کچھ خرچ نہیں آئے گا مگر ایسے اقدامات حکومت کی ساکھ میں اضافے کا باعث ہوں گے۔

تنویر صادق

 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444212 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More