کیا آپ پنجاب حکومت کے ماتحت کسی ایسے ادارے کو
جانتے ہیں جس کو ملنے والی ادائیگیوں میں گزشتہ چھ برس سے ایک روپے کا
اضافہ نہیں ہوا؟ آئیے ہم آپ کواِس حیرت کدے میں لے چلیں، جہاں کامیابیاں،
خدمت اورا ستحصال یکجا ہیں۔ اس ادارے کا قیام تین دہائیاں قبل وجود میں
آچکا تھا، پندرہ برس قبل چوہدری پرویز الٰہی کے وزارتِ علیا کے دور میں اِس
کو نئی زندگی بخشی گئی تھی، تب سے پنجاب میں بچہ بچہ پنجاب ایجوکیشن
فاؤنڈیشن کے نام سے واقف ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر اﷲ بخش ملک کی نگرانی میں اس
سکیم کا آغاز صرف دس سکولوں سے ہوا، وہ نجی سکول جن کی فیس معمولی تھی، وہ
فاؤنڈیشن نے اپنے ذمے لئے اور تین سو روپے فی بچہ فیس پر سکولوں کا اپنے
ساتھ الحاق کر لیا۔پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ تعداد بڑھنے لگی، بچوں
کی تعلیمی حالت اور سکول کی عمارت کا جائزہ لیا جاتا اور سکول کا الحاق کر
لیا جاتا۔ بڑھتے بڑھتے اب یہ تعداد بارہ ہزار ہے، اور چھبیس لاکھ بچے اِن
سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اسی دوران حکومت بھی تبدیل ہوئی مگراِس حیران کن
کامیابی کے پیشِ نظر نئی حکومت نے بھی پروگرام نہ صرف جاری رکھا بلکہ پانچ
سال پہلے چار ہزار سے زائد ایسے سرکاری پرائمری سکول بھی ’پیف‘ کے حوالے کر
دیئے گئے، جو سرکاری خزانے پر بوجھ بن رہے تھے، پیف پارٹنرز نے یہ سکول بھی
اس کامیابی سے چلائے کہ سب حیران رہ گئے۔ اِن الحاق شدہ سکولوں کی سخت
نگرانی کا مربوط نظام قائم ہے، تمام بچے آن لائن ہیں اور سب کے بے فارم
موجود ہیں، سال میں ایک مرتبہ امتحان لیا جاتا ہے، جس پر سکول کے الحاق کا
دارومدار ہوتا ہے۔
موجودہ حکومت نے بھی ترقی اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والے اس حیرت کدے
کی سرگرمیوں کو جاری رکھا، مگر پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ صوبائی وزیر تعلیم نے
اس میں بھر پور مداخلت شروع کی اور واضح اعلان کیا کہ ’’۔۔میں روزِ اوّل سے
ہی اس ادارے کے بارے میں مشکوک تھا کہ یہاں فراڈ ہے۔۔۔‘‘۔ یوں انہوں نے
سکولوں کو ملنے والی ادائیگیاں نصف کردیں، کہ ہم تحقیق کریں گے، جتنا کچھ
درست ہوا، اس کی ادائیگی ہو جائے گی۔ یہ سلسلہ سال کے قریب جاری رہا، اوپر
سے ظالم کرونا نے اپنے مکروہ پَر پھیلا دیئے، نصف کے علاوہ بھی مختلف باتوں
کو جواز بنا کر کٹوتیاں ہوتی رہیں۔ آخر کار تحقیقات سے کرپشن ثابت نہ ہو
سکی، بقایا جات ملنے لگے ، تب تک بہت سے بچے کرونا وغیرہ کی وجہ سے سکول
چھوڑ چکے تھے، یا جن کے بے فارم نہیں تھے، وہ بھی شمار نہ ہوئے، اس فارمولے
کے تحت پورے بقایا جات نہ مل سکے۔ بجائے اس کے کہ کرپشن کا الزام لگانے پر
معذرت کی جاتی اوراس ادارے میں مزید بہتری لائی جاتی، نئی نئی رکاوٹیں
ڈالنا شروع کر دی گئیں۔
یہ یاد دہانی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پیف میں فی بچہ اخراجات سرکاری
سکولوں کے بچوں سے اڑھائی تین گُنا کم ہیں، رزلٹ اور بچوں کو دی جانے والی
سہولتیں نسبتاً بہتر ہیں، مگر حکومت نے تین سال سے حیلے بہانوں سے پیف
پارٹنرز کا گلا گھونٹ رکھا ہے، اب تو سانس لینی دشوار ہو رہی ہے۔ گز شتہ
سالوں میں داخلہ کے لئے مناسب وقت دیا جاتا تھا، پھر پچھلے سال کی تعداد
پوری کرنے کی اجازت دی جاتی تھی، مگر اس سال پہلے داخلے کے لئے دس دن دیئے
گئے، بعد میں کچھ روز اضافہ تو کر دیا گیا، مگر داخلے کی حد مقرر کردی کہ
جتنے بچے نرسری میں تھے پارٹنر اسی قدر داخل کر نے کے مجاز ہیں۔ جبکہ
معروضی حالات کی وجہ سے بھی اور معمول میں بھی بچے ڈراپ آؤٹ ہوتے ہیں۔ اب
نئی داخلہ پالیسی کے بعد تمام سکولوں میں بیس سے چالیس فیصد بچے کم ہوئے
ہیں، اُن میں کم از کم دس فیصد بچے تعلیم سے محروم و مایوس ہو کر ورکشاپوں،
چھوٹے ہوٹلوں اور محنت مزدوری کے دیگر کاموں پر چلے گئے ہیں، کچھ بے ہنر رہ
کر معاشرے کا ناسور بھی بن سکتے ہیں۔ داخلوں کے روکنے اور محدود کرنے کا
واضح مطلب سرکاری سکولوں میں داخلوں کو بہتر بنانا ہے، انصاف ایوننگ سکولوں
کو بھی حکومت کامیاب کرنا چاہتی ہے، جو کہ ایک ناکام خواہش کے علاوہ کچھ
بھی نہیں۔ پیف کے سامنے بند باندھ کے کچھ داخلے تو ہتھیائے جاسکتے ہیں، مگر
اس سے بہت سے بچے ضائع بھی ہو جائیں گے۔
سرکاری پرائمری سکول آغاز میں پیف کے حوالے کئے گئے تھے، بعد میں ان کے لئے
’’پِیما‘‘ کے نام سے ایک الگ ادارہ بنا دیا گیا، یہ سکول چل رہے ہیں، مگر
ادارہ جمود کا شکار ہے، ان سکولوں کو لاوارث قرار دینا بھی بے جا نہ ہوگا،
ان کی کٹوتیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، تین چار ماہ سے پے منٹس نہیں
ملیں۔ اوپر سے ’پیف‘ ا ور’ پیما‘ کے خاتمے کے بارے میں آئے روز افواہوں کا
بازار بھی گرم رہتا ہے، کوئی کہتا ہے ان کو بند کرنے کے انتظامات مکمل کر
لئے گئے ہیں، کسی کا قول ہے کہ سمری سیکریٹری ایجوکیشن کے پاس جا چکی ہے۔
جب حالات بھی نہایت ناسازگار ہوں تو افواہوں پر یقین کرتے ہی بنتی ہے۔ اگر
حکومت واقعی مخلص ہے، اور اِن کار آمد اور کامیاب ترین اداروں کے پروگرام
جاری رکھنا چاہتی ہے، تو فوری طور پر تین کام کرنا ہوں گے، اوّل؛ پیف سے
الحاق شدہ سکولوں میں کم سے کم گزشتہ برس والی تعداد کے مطابق داخلے کرنے
دیئے جائیں۔دوم؛ چھ برس سے رُکی پے منٹ میں فی الفور اضافہ کیا جائے، اور
اسے سالانہ بنیادوں پر جاری رکھا جائے۔ سوم؛ تین چار ماہ تک پے منٹ روک کر
معاشی قتل کا سلسلہ روکا جائے، ہر ماہ کے پہلے ہفتے پے منٹ پارٹنرز کو ملنا
اُن کا حق ہے۔ سکول مالکان، اساتذہ ، والدین اور سکولوں سے وابستہ دیگر بے
شمار لوگ بے حد کرب کا شکار ہیں، مہنگائی کے عالم میں شدید مالی مشکلات نے
گھیر رکھا ہے۔ ادھار پروعدہ خلافیاں اور چولہے ٹھنڈے ہونے والے محاورے عملی
صورت اختیار کر چکے ہیں۔ تعلیم کو اوّلین ترجیح دینے والی حکومت خود تعلیم
کا گلا دبانے پر آمادہ ہے۔
|