نوشاد عادل کی ڈربہ کالونی اور ہم

ویسے تو میرے آل ٹائم فیورٹ مصنف جناب اشتیاق احمد ؒ اوربانی جاسوسی ادب جناب ابنِ صفی صاحب ہیں ۔ جن کے ناول کا ایک بڑا ذخیرہ میرے پاس موجود ہے ۔ بلاشبہ ان کے ناول ز اور کرداروں میں کچھ ایسی خوبی ہے جو پڑھنے والے کو بے اختیار دیوانہ کر دیتی ہے اور وہ ان کرداروں کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے ۔ خیر انکے کرداروں کا ذکر پھر کبھی ۔ اس کے علاوہ محمود خاور سمیت کئی مصنفین کے ناول ز پڑھے اور پسند کئے ۔ ایک ناول تھا جس میں عمرو عیار واپس زندہ ہوکر اس صدی میں آتا ہے اور اسکا سابقہ ایک چچا سے پڑھتا ہے وہ بھی دلچسپ اور قہقہ آور ناول تھا ۔ وہ ناول پڑھتے ہوئے میں اتنی زور زور سے ہنس رہا تھا کہ میری دادی پریشان ہوگئیں کہ کہیں میرا کوئی اسکرو ڈھیلا تو نہیں ہوگیا ۔
ایک دن کی بات ہے شاید 2008 کے وسط یا اواخر کی ۔۔ ٹاور پہ ایک بک اسٹال ہے جناب حامد انکل کا ، انکی دکان پہ کھڑا نونہال وغیرہ ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک کتاب نظر آئی جس پہ لکھا تھا ٭ #ڈربہ #کالونی اور مصنف کا نام #نوشاد #عادل لکھا تھا ۔ اور ناول کے نام کے اوپر نوٹ لکھا تھا کہ
" کمزور پیٹ والے حضرات ناول اپنی ذمہ داری پہ پڑھیں "
سچی بتاؤں تو اس وقت یہ بات سر کے اوپر سے گزر گئی ۔ ناول کچھ مزاحیہ لگا تو قیمت پوچھی تو حامد انکل نے کہا دس روپے البتہ کتاب کے اندر اس کی قیمت 40 روپے لکھی تھی ۔۔ میں نے جھٹ سے خرید لیا ۔
گھر آکر ناول کے شروع میں اشتیاق احمد کے ناول والی میٹھی وارننگ پڑھ کر پتا لگ گیا کہ اشتیاق احمد کے فین کا ناول ہے تو معیاری ہی ہوگا ۔ خیر عرض ناشر پڑھنے کے بعد جناب مصنف نوشاد بھائی عادل صاحب کی " فضول باتیں " پڑھی ۔
اس کے بعد جناب ابنِ آس محمد صاحب کی " بچوں سے باتیں " پڑھ کر خوشی ہوئی کہ چلو ایک اور جانا پہچانا نام سامنے آیا ۔
ناول کا خلاصہ آخر میں کرتا ہوں پہلے ذرا ناول ز کے سائیڈ ایفیکٹ بتادوں ۔ ہوا یہ کہ ناول پڑھتے پڑھتے اتنا ہنسا ہوں کہ دادی نے گھبرا کر امی وغیرہ سب کو جمع کر دیا کہ دیکھو کتابیں پڑھ پڑھ کر یہ آخر پاگل ہو ہی گیا ۔ خیر بڑی مشکل سے میں نے انکو یقین دلایا کہ میں صحیح الدماغ ہوں اور آئیندہ سو سال تک پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے کے لئے فیورٹ ہوں ۔ ناول پڑھنے کے بعد میں اسے دوسرے دن سدایا اکیڈمی لے گیا ۔ اس وقت میں وہاں جاب کرتا تھا ۔ اور وہاں میرے ساتھ ایک اور دوست کام کرتا تھا جس کا نام یاسین علی واڈہ تھا ۔ وہ بھی مزاحیہ کتابوں کا شوقین تھا ۔ ہاں تو جناب وہ کتاب اس کو دی ۔ اس سے کوئی اور لے گیا ۔ اس طرح وہ پہلی کاپی غائب ہوگئی ۔ اور یاسین کا بھی وہی حال ہوا جو میرا ہوا تھا ۔ ایک بار ہمارےبیچ ایک بہت بڑا جھگڑا ہوا تھا جو اس ناول کے ایک ڈائیلاگ
"آئے یہ لے !! " کی وجہ سے ختم ہوگیا ۔ اب یہ جملہ میں نے کہا یا اس نے ۔ یہ نہیں بتاؤں گا میں ۔
اس کی ایک اور کاپی خرید کر آیا وہ اویس احمد کو دی ۔ اویس بھی میرا دوست اور کتابی کیڑا تھا ۔ اس سے بھی وہ کاپی فارورڈ ہوتے ہوتے غائب ہوگئی ، پھر طیب کو ایک کاپی دی وہ بھی ۔ ایسے کرتے کرتے انکل حامد کی دکان پہ کوئی آٹھ دس کاپیاں موجود تھی اس ناول کی ۔ وہ سب میں نے خرید لیں وقفے وقفے سے ۔
ناول کے کرداروں کا آٹھ سال پہلے مجھ پہ جو اثر ہوا اس کا معمولی مظاہرہ گروپ والے گزشتہ دنوں دیکھ ہی چکے ہیں ۔ میں نے اپنی ورک پلیس کا نام ڈربہ کالونی رکھ دیا تھا اپنی ڈائری میں اور وہاں موجود تمام افراد کو ڈربہ کالونی کے کرداروں کا کوئی نہ کوئی نام دے ان کا ذکر اس نام سے کرتا تھا اپنی ڈائری میں ۔ اس کے علاوہ ایک اور کریز تھا کہ اس ناول پہ ایک مزاحیہ مووی بناؤں ۔ اس کے لئے ایک بندے سے بات بھی کرلی مگر وہ سبزبات چینل بلوچستان اور بلوچی زبان میں بنانا چاہ رہا تھا اس لئے بات آگے نہ بڑھی ۔ یہ ناول آج تک میں نے کئی بار پڑھا ہے ۔ اور اس سیریز کے اور ناول ز بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی اسی کوشش میں مجھے نٹ کھٹ کے کچھ رسالے ملے اس میں قسط وار آتی تھی یہ سیریز ۔ اسی شمارے میں نوشاد عادل صاحب کا انٹرویو بھی پڑھا ۔ اب سوچ رہا ہوں کہ اردو کانفرنس میں کسی طرح سے نوشاد بھائی عادل صاحب کو بلا کر ان سے دعوت کھائی جائے ۔ بھائی خالد محمود کا بہت شکر گزار ہوں کہ وہ نوشاد بھائی کی تحاریر کی پی ڈٰی ایف فائل ز تیار کر رہے ہیں ۔ ان سے گزارش ہے کہ کوئی اور لنک استعمال کریں اردو بک ز والا لنک بہت بیزار کرتا ہے ۔ یہ ہوگئی ہماری روداد اب کچھ تذکرہ ناول کا ۔
#ڈربہ کالونی ایک بستی ہے ۔ جہاں دنیا بھر عجیب و غریب ، منحوس ، بدشکل نمونے انسانی شکل میں رہتے ہیں ۔ وہاں کے کردار دراصل ہمارے اپنے گرد و نواع سے لئے گئے ہیں ۔
سخن اکبر آبادی نام کا ایک نہایت پنوتی اور ہڈحرام انسان نما مخلوق جس کو معروف ادیب بننے اور اپنے فین سے گلے ملنے کا شوق ہوتا ہے وہ بیچارہ نوکری کے چکر میں حکیم مکھی چوس جیسے درندے کے چنگل میں پھنس جاتا ہے ، حالانکہ اسے قصائی بھنگی وغیرہ اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کرتے ہیں مگر اس کی مت ماری جاتی ہے اس لئے وہ ایک دن صبح صبح نئی قمیض کے ساتھ اماں کی پھولدار شلوار پہن کر حکیم صاحب کو انٹرویو دینے پہنچ جاتا ہے ۔ وہاں حکیم صاحب اپنے مطب کے باہر مانگنے والے خواجہ سراؤں سے الجھ رہے ہوتے ہیں ، پہلے پہل تو وہ سخن کو بھی انہی کا ساتھی سمجھ بیٹھتے ہیں مگر حقیقت واضح ہونے پہ اپنی ہی شکل پہ لعنت بھیج کر لعنت کی بے عزتی کرتے ہیں ۔۔۔ چونکہ ہیجڑے حکیم کی جان کے دشمن ہو رہے ہوتے ہیں اس لئے سخن تمام خواجہ سرا بھائیوں سے مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر ہیجڑے اسے اپنی بچھڑی ہوئی فہمیدہ قرار دے کر اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر سخن اسے جھڑک کر بھاگ آتا ہے البتہ ایک ہیجڑا زیبو حکیم کو آئے یہ لے ! کہ کر زوردار ٹھمکا مار کر چِڑا تا ہے اور ساتھ میں تالی بھی پیٹتا ہے ۔ یہاں سے بیچارہ سخن حکیم کے پاس پھنس جاتا ہے حکیم اسے اسکی اوقات کے مطابق گدھوں کی طرح کام کرواتا ہے مگر ایک پیسہ نہیں دیتا ۔
دوسرا سین اسٹارٹ ہوتا ہے بھاری بھرکم ابو سے ۔ ابو دراصل چوہدری بشیر کا کالا سا سالا ہوتا ہے جو جہاز کی دم کے ساتھ لٹک کر سعودی عرب چلا جاتا ہے چوہدری بشیر کو پوری امید ہوتی ہے کہ وہ ہاتھ کٹوا کر ہی واپس آئے گا مگر ابو سعودی عرب میں موجود امریکیوں کو چرس بیچ بیچ کر ڈھیروں ڈالر کما کر لایا ہوتا ہے اور اب وہ ان پیسوں سے ڈربہ کالونی میں ڈبو کھولنا چاہتا ہے جس کا نام ہوتا ہے ابو کا ڈبو ۔
ابو کے ڈبو کے افتتاح والے دن کالونی کے مزید معززین و خوارین کی منہ دکھائی ہوتی ہے ۔ ان میں
٭ ایکسٹو
٭ چچا چراندی فالتو فنڈ میں ،
٭ شرفو کونسلر
٭ انگریز انکل
٭ چوہدری بشیر
٭ للو
٭ پنجو
٭ گلابی عرف دلابی
٭ یامین بھوسی ٹکڑے والا
٭ مجو قصائی
٭ نجمو سبزی والا
٭ جمال گھوٹا
٭ جمال گھوٹے کا گدھا عالی جناب کولمبس
٭ خالو خلیفہ
٭ اجمیری بینڈ والے استاد دلارے
٭ استاد دلارے شاگرد رشید چپٹا
٭ استاد دلارے کا سابقہ شاگرد بابو باؤلا
٭ ڈاکٹر دینو کاکا ایم بی بی ایس
٭ کمپاؤنڈر بھائی بھلکر
٭ اور زیبو ہیجڑا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
ہاں تو جناب افتتاح والے دن بڑے ہنگامے ہوتے ہیں آخر میں بریانی کی دیگ کا افتتاح کرتے ہوئے ڈربہ کالونی کی معزز شخصیت جناب شرفو کونسلر کوپن شدید زخمی ہو کر اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھتے ہیں جن کو انکی اوقات کے مطابق گدھا گاڑی پہ ڈال کر ڈاکٹر دینو کاکا ایم بی بی ایس کے کلینک لے جایا جاتا ہے ۔ جہاں بھائی بھلکر تو شرفو کی ٹانگ کا کباڑا کر دیتے ہیں مگر لڈو کھیلتے ہوئے ڈاکٹر دینو کاکا اور چاچا چراندی میں تصادم ہوجاتا ہے اور وہ دونوں سر پہ چوٹ کے سبب بے ہوش ہوجاتے ہیں ۔
اب انٹری ہوتی ہے کوہ قاف سے تازہ تازہ تشریف لائے جنات کی ۔ جنات مجو قصائی اور نجمو سبزی والے کو ڈرا کر بے ہوش کر کے لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں مگر انکی جیب سے صرف انڈین اداکاراؤں کی تصاویر اور نسوار ہی ملتی ہے چنانچہ جن خود ایک ایک روپیہ دونوں کی جیب میں رکھ کر بھاگ جاتے ہیں ۔ دوسرے دن کونسلر صاحب کی آفس میں دونوں غازی اپنے کارنامے نمک مرچ لگا کر ڈربہ کالونی واسیوں کو ڈراتے ہیں ۔ پھر تو معمول بن جاتا ہے کہ ہر دو تین دن بعد کوئی نہ کوئی گھر جن لوٹ کر چلے جاتے ۔ اگر چور ڈکیٹ کا معاملہ ہوتا تو کالونی والے ہمت کرلیتے مگر جن بھوتوں سے پوری کالونی ڈرتی تھی ۔ ایک رات تو غضب ہی ہوگیا بیچارہ ابو اپنے ڈبو پہ تین چرسیوں کے ساتھ ڈبو کھیل رہا تھا کہ اچانک وہاں تین جن آگئے پہلے تو انہوں نے مفت میں ڈبو کھیلا پھر ان سب کو لوٹ کر چلتے بنے بس ایک چرسی اپنے گٹکے کی بدولت بچ گیا۔ ان خراب حالات میں ایک چاچا چراندی ہی تھی جو بستی کو بچا سکتے تھے مگر افسوس وہ بیچارے ایک حادثے کے سبب پاگل ہوکر کالونی والوں کی ہڈیاں توڑنے جوڑنے لگے تھے ۔ ان کا سب سے پہلا نشانہ استاد دلارے بنے تھے ۔ بہرحال یہاں ایک خفیہ مشن کی ذمہ داری ابو اور جمال گھوٹا کو سونپی گئی ۔ یہ مشن جمال گھوٹے کے لئے اتنا مبارک ثابت ہوا کہ اسکے بھائی نما جانور گدھا اسی دن صاحبِ اولاد بن گیا ۔
وہاں للو پنجو کو انکے باس ٭ #ایکسٹو کی طرف سے ایک خفیہ مشن ملتا ہے ۔ خفیہ مشن کی راہ میں لگ کر للو پنجو ایک انتہائی خطرناک گینگسٹر
اچھے بھائی کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور اچھے بھائی کی سب سے بڑی اچھائی تو یہی ہوتی ہے کہ وہ پچھلے ساڑھے چار مہینے سے ایک ہی سوٹ پہن کر گھوم رہے ہوتے ہیں ۔ اچھے بھائی کی قید میں للو پنجو پہ وہ ظلم ہوئے کہ آپ اسرائیلی مظالم بھول جائیں گے ۔ ادھر قسمت کا مارا ایک جن رات کو اچانک گلابی کا چہرہ دیکھ لیتا ہے اور اتنی زور سے چیخ مار کر بھاگتا ہے کہ کوہ قاف میں اس کا شہنشاہِ جنات بھی دو دن تک ڈر کے مارے اپنے بستر کے نیچے سے نہیں نکلتا ۔
یہاں سخن میاں اپنے پیسے حلال کرتے کرتے ایک دن چھٹی کے بعد ایک بدبودار جگہ پناہ لیتا ہے اور اس کے بعد گمشدہ ہوجاتا ہے ۔ گمشدگی کے بعد آپ کو سخن کا ایک نیا پہلو بھی دیکھنے کو ملے گا ۔ اور وہاں حکیم مکھی چوس ایک تو سخن سے بے زار ہوتے ہیں اوپر سے انکی جان کا دشمن زیبو ہیجڑا آئے دن انکی آئے یہ لے !!! آئے یہ لے !! کا تحفہ نواز کر بھاگ جاتا ہے ۔ بالآخر حکیم بھی اسے ٹھمکا شکن جواب دینے پہ مجبور ہوجاتا ہے ۔
اس کہانی میں آگے بہت کچھ ہے مگر وہ بتانے کا مطلب یہ ہوگا کہ سارا سسپنس کرکرا ہوگیا ۔ اس لئے اس کو رہنے ہی دیں ویسے مجھے لگتا ہے جنہوں نے ڈربہ کالونی نہیں پڑھی انکے لئے اتنا ہی کافی ہے انکے شوقِ آتش کو بھڑکانے کے لئے ۔
(یہ ناول غالبا 2004 یا اس کے بعد لکھا گیا تھا ۔ یہ مکمل ناول تھا ۔ تقریبا 215 صفحات کا ۔ اسکے علاوہ نوشاد عادل اسی سیریز کی کہانیاں ماہنامہ نٹ کھٹ میں ہی لکھا کرتے تھے ۔ نوشاد عادل نے سنجیدہ اور معاشرتی تحریریں بھی لکھی ہیں ۔ مگر مجھے ان کا ڈربہ کالونی والا روپ ہی اچھا لگتا ہے ۔ ویسے ڈربہ کالونی کا ایک کردار مجھے من و عن نوشاد بھائی جیسا ہی لگتا ہے ۔ وہ کون ہے یہ میں نہیں بتاؤنگا ۔
ہاں نوشاد بھائی کھڈہ مارکیٹ کے فالودے والے کا فالودہ بطور رشوت کھلائیں تو انکو ضرور کان میں بتاؤنگا ۔۔ فالتوفنڈ میں !!
فراز علی حیدری

 

Faraz Ali Hydree
About the Author: Faraz Ali Hydree Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.