شوقؔ بہرائچی اہل علم و دانش کی نظر میں

سیدریاست حسین رضوی شوقؔ بہرائچی ایک ایسے شاعر تھے جن کا انتقال آدھی صدی پہلے ہو ا تھا لیکن آج بھی لوگوں کے ذہن میں ان کے اشعار اوردلوں میں ان کی عزت محفوظ ہے۔ڈاکٹر کلیم قیصر ؔکا ایک شعر ہے:
وہ شاعری جو میرؔ کو روٹی نہ دے سکی

دولت کما رہے ہیں اُسی شاعری سے ہم
شوقؔ بہرائچی میرؔ کے قبیل کے ہی شاعر تھے کیونکہ انہیں بھی آ سانی سے روٹی نہیں ملی۔مالی اعتبار سے جتنا یہ پریشان ہوتے رہے، ان کے کلام میں بلاغت نکھار اور طنزکی دھار تیز ہوتی رہی۔سماجی برائیوں سے لوگوں کو، مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے آگاہ کرتے رہے،مزاح کے ساتھ سیاسی داؤ پیچ کی عکاسی کرتے رہے، سرکاری دفاتر میں پھیلی بد عنوانیوں اور عملہ کی من مانیوں پر کاری ضرب لگاتے رہے، انھوں نے پنڈت گووند بلبھ پنت جی کو بھی نہیں چھوڑا تھااور مندرجہ ذیل فی البدیہہ قطعہ الہ آباد کے ایک مشاعرے میں پڑھ دیا:
سارے رشیوں کے رشی سنتوں کے سنت آئے ہیں
گھوس خوروں کے اکھاڑے کے مہنت آئے ہیں
چھوڑ کر ’گومتی‘، ’گنگا‘ میں لگانے ڈبکی
آج سنتے ہیں کہ ’پریاگ‘ میں ’پنت‘ آئے ہیں
بزرگ شاعر ،ادیب اور کامیاب نقاد محترم قمرؔگونڈوی نے شکوہ آباد کے ایک مشاعرے سے متعلق ایک واقعہ اور ایک مندرجہ ذیل قطعہ سنایاجو واقعہ کی ترجمانی کرتا ہے اور فی البدیہہ ہونے کا دعوہ بھی کرتا ہے ؂
پان بیڑی ،چائے ، سگریٹ کا انہیں کب ہوش ہے
سب کے سب مصروف رہتے ہیں خدا کی یاد میں
توبہ کر زاہد! یہاں بیت الخلا کا ذکر کیا
اولیاء اﷲ بستے ہیں شکوہ آباد میں
شوقؔ بہرائچی کی شاعری صرف ہنسنے ہنسانے کے لیے بے معنی اور پھوہڑ الفاظ کی شاعری نہیں ہے ان کی شاعر ی کے سلسلے میں میں اپنی ناقص رائے ظاہر کروں بہتر یہ ہوگا کچھ دانشوروں کے خیالات جو شوقؔ بہرائچی کے بارے میں رقم کیے گئے ہیں، انہیں ملاحظہ فرما لیں:
پروفیسر سید طاہرمحمودصاحب:
ان کی طنز نگاری تو نہایت اعلیٰ پایہ کی تھی، ساتھ اہل قانون کے ساتھ کام کر کے تجربہ کے باعث اپنے کلام میں قانونی اسطلاحات کا دلچسپ استعمال بھی کرتے تھے۔موصوف کے دو مصرعے:
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
اور
بے زر کا کوئی بہنوئی نہیں زردار کے لاکھوں سالے ہیں
آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں لیکن ان کے خالق سے واقفیت رکھنے والے یقینا کم ہی ہوں گے۔2001میں اپنی کتاب ’’جرأت رندانہ‘‘ میں شامل ان سے متعلق ایک مضمون میں ہم نے عرض کیا تھا’’دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھنے والا اور طنز و ظرافت کے نشتر سے معاشرتی امراض کی تشخیص کرنے والا یہ بے مثال فنکار گمنامی کے اندھیروں میں گم ہے، اردو کا کوئی جیالا ان کے فن کو زندہ کر اردو والوں سے اس کا خاطر خواہ تعارف کرا سکے تو یہ ادب کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔
ملک کے گوشہ گوشہ میں ہر قسم کی بد عنوانیوں کے بڑھتے ہوے سیلاب پر نظر ڈالئے۔ کھیل کے بین الاقوامی مقابلے منعقد کرنے والا محکمہ ہو یا کوئی اور سرکاری شعبہ،-2جی اسپیکٹرم ہویا کوئی اور منصوبہ، جہاں دیکھواہم قومی ذمہ داریوں کے حاملین لاکھوں کروڑوں کی رقوم شیر مادر کرتے نظر آتے ہیں۔ جناب شوقؔ نے شرعی قانون کے ایک خاص اصطلاح کا سہارا لے کران حالات کی یوں پیشین گوئی کی تھی:
یہاں ہرچیز اب میراث اپنی سمجھی جاتی ہے
یہاں جو وقف ہوتا ہے علی الاولاد ہوتا ہے
اس ملک گیر لعنت سے اب حکومت اور عوامی زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ بچا ہو اور ملک کے دستور کی دفعات اور روز بروز بننے والے نئے قوانین سبھی اس پر لگام لگانے میں ناکام ہیں۔یعنی بقول شوقؔ:
بنے تو سیکڑوں آئین لیکن
کسی آئین میں کچھ دم نہیں ہے
ڈاکٹر اعجاز حسین:
موجودہ دور کے مزاح نگاروں میں شوقؔ بہرائچی کے کارنامے قابل قدر ہیں ان کے یہاں مزاح میں سنجیدگی بھی ہے اور اندازِ بیان میں فنکاری بھی ہے، وہ سپاٹ پن جو خالص ظرافت کا طرۂ امتیاز ہے ، ان کے یہاں پیچ و خم سے گزر کر صرف آڑے ترچھے خطوط ہی نہیں بناتا بلکہ ان کی ظرافت میں ایک خاص سیاسی اور سماجی شعور اور سنجیدگی ملتی ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب زندگی اور زندگی کے مسائل کا شدید احساس شاعر کے رگ دِل پر نشتر زنی کرنے لگے۔ جب دل پر نشتر زنی ہوتی ہے تو ہنسنے میں بھی تیکھے پن کا شدید احساس ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اشفاق محمد خاں صاحب:
نظیر ؔ اکبر آبادی نے اپنی تمام نظموں میں پہلی بارانسانی زندگی اور ماحول کے بیشتر شعبوں کی عوامی زبان میں بڑی خوبصورتی سے عکاسی کی ہے۔ شوقؔ کے’ طوفان‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے یہ احساس ہوا کہ شوقؔ نے بھی چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، آدمی کی مخفی گوشوں اور معمولی ہرکات و سکنات کا اظہار اپنی موثر اور دلکش مزاحیہ انداز میں اس طرح سے کیا ہے کہ عصر حاضر میں مزاح نگاری کی سطح پر شوقؔ کا ثانی کسی دوسرے فنکار کو مشکل ہی سے کہا جا سکتا ہے۔ یعنی شوقـؔ اپنے کلام کا بلاغت نظام سے انسانوں کی الگ الگ کارکردگیوں(Activities)کا جائزہ اس طرح سے لیا ہے کہ ان کی کمزوریوں پر زیر لب تبسم کے ساتھ ساتھ اصلاحی جز بے کا شعور بھی بیدار ہو سکے۔لہذا ہم شوقؔ کے موضوعات کودیگر تمام مزاح نگاروں سے الگ ایک منفرد اظہار کا درجہ دینے پر مجبور ہیں شاید اس انفرادیت کا احساس خود شوقؔ کو بھی تھا تب ہی تو فر ماگئے کہ ؂
مر کر بھی جہاں میں لوگوں کو اے شوقؔ ہنساتا جاؤں کا
دنیا سے اگر میں اُٹھ بھی گیا، موجود مرا دیوان تو ہے
شوقؔ صاحب نے اپنے تمام دیوان میں رند و محتسب، زاہدو واعظ سے خفگی کا اظہار بے پناہ کیا ہے۔ شاید ہی کوئی نظم ایسی ہو جس میں ان بزرگوں پر چھینٹا نہ کسا گیا ہو۔ اردو شاعری میں بیشترشعرا نے شیخ و برہمن کے مضوع پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن شوقؔـ نے اپنے مزاحیہ انداز کے ذریعے ان بزرگوں کے بارے میں مزاح کا کمال دکھایا ہے۔ معلوم نہیں شوقؔ صاحب زاہد و واعظ وغیرہ سے کیوں اس قدر خفا تھے؟ ہر اچھے شاعر کے کلام میں دو اشعار ضرور اچھے ہوتے ہیں لیکن شوقؔ کے کلام میں ہر نظم اور غزل میں کم سے کم تین اشعار دلچسپی کا باعث ضرور ہوتے ہیں۔ کلام فحش الفاظ، بیہودہ گوئی یا غیر اخلاقی زبان و بیان سے قطعاً مبّرا ہے۔
جہاں تک شوقؔ کے انداز بیان اور زبان کا تعلق ہے اس سلسلہ میں بھی ان کا مرتبہ کسی نظم گو شاعر سے کم نہیں۔ نہایت سادہ زبان استعمال کرتے ہیں، سادگی میں پر کاری بھی ہے وہ اس طرح کہ تمام کلام مقامی(Localise)زبان میں ہے یعنی روز مرہ، محاورے اور ضرب الامثال سب ایسے ہیں گویا وہ اپنے قصبے کے محلوں، گلی کوچوں اور بازاروں کے درمیان اپنے ہی لوگوں کی اپنی زبان سنا رہے ہوں۔ اس طرح سے ان کے یہاں عوامی سطح پر الفاظ اور محاورات کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جس کی اک علٰحدہ سے لغت ترتیب دی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں انگریزی الفاظ کابرجستہ اور شگفتہ ردیف و قوافی کے طور پر جس قدر رواں دواں انداز میں کیا ہے شوقؔ کے علاوہ شاید ہی کہیں اور ملے۔
احمد ابراھیم علوی:
گوگل کی اطلاع کے مطابق ایک شعر کو ۶۵ہزار ایک سو لوگ استعمال کر چکے ہیں اس کے خالق کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ شعرحضرت شوقؔ بہرائچی کا ہے ؂
بربادیٔ گلشن کی خاطر بس ایک ہی الّو کافی تھا
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
شوقؔ بہرائچی ایک سنجیدہ مزاحیہ شاعر تھے محض ہنسنا ہنسانا ان کا مقصد کبھی نہیں رہا۔ الٹی سیدھی باتیں کہہ کر ہنسنا ہنسانا بھی ان کا شیوہ نہیں رہا۔ ان کا مقصدتو تلخ حقیقتوں کو اجاگر کر کے خود کو ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرنا ہوتا تھا۔ان کے بعض بعض اشعار قہقہ مار کر ہنسنے پر مجبور کرتے ہیں تو کتنے ہی سنجیدگی سے غور کر کے زیر لب مسکرا کر داد تحسین کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔
جناب قطب اﷲ صاحب:
اردوزبان و ادب میں طنز و مزاح کی حیثیت کھانے میں نمک کی طرح ہے اگر نمک کا مزہ بگڑ جائے یا نمک کی آمیزش میں کوئی غلطی ہو جائے تو پورا دسترخوان بیکار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ادب سے اگرطنز و مزاح کو نکال دیا جائے تو یقینا ہم دکھ اور غم کے بھاری بھرکم بوجھ کے نیچے ایسے دب جائیں گے کہ پھرسر اُٹھانا مشکل ہو جائے۔طنز مزاح عرصہ سے علاحدہ ایک صنف بن چکی ہے لیکن یوں دیکھا جائے تو بادی النظر میں کوئی بھی بڑا چھوٹا ایسا شاعر نہیں ملے گا جس نے کچھ نہ کچھ طنز یہ و ظریفانہ کلام نہ کہا ہو۔ بلکہ بڑے شعرا ء میں اقبالؔکا ظریفانہ کلام بھی انتہائی اعلی پایہ کا ہے۔
شوقؔ اپنے عہد کے وہ نمائندہ شاعر ہیں جنہوں نے سماج کے کھردرے پن اور زندگی کی ناہواریوں کو طنز و مزاح کے پیرایہ میں نمایاں کیا ہے۔ وہ بڑی فنکاری کے ساتھ زندگی کے سپاٹ پن کو بھی بہت چٹپٹا اور ظریفانہ رنگ چڑھا کر بڑا دلچسپ بنا دیتے ہیں۔ انھوں نے زندگی کے نشیب و فراز کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ ان سے ہمکنار بھی ہوئے ہیں۔ ان کے حصہ میں کامیابیاں اور محرومیاں و بد نصیبیاں دونوں آئی ہیں، لیکن دونوں سے وہ اس طرح پیش آتے ہیں کہ انہیں آپ بیتی نہ بنا کر ظرافت کا ملمع سجا کر جگ بیتی بنا دیا ہے۔
منہ کے بل در جاناں پر گرا غش کھا کر
ضعف نے میرے بتایا مجھے سجدہ کرنا
انہوں نے اپنے گرد و پیش سے جو استفادہ کیا ہے وہی ان کے کلام کی جان ہے اسی لیے وہ اپنے شعریات میں اردو کے خالص سادہ اور عام بول چال کے الفاظ پرو دیتے ہیں۔ وہ زبان میں تصنع کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔ وہ موجودہ عہد کی موقع پرست سیاست پربھی زبردست کچوکے لگاتے ہیں نیز مفاد پرست سیاست دانوں کی بڑی بھیانک تصویر دکھاتے ہیں۔
شیخ و برہمن دونوں ہیں برحق دونوں کا ہر کام مناسب
بیچ لیں فوراً دیر و حرم بھی پائیں کہیں گر دام مناسب
ان کا کلام سادہ ہے، وہ خالص لکھنوی زبان کے شاعر ہیں اور اردو کے وہ محاورے اور ترکیب جو شہر نگاراں سے نکل کر اددھ کے قصبات میں پہونچے تھے اور جنہیں آج کی اس تیزرفتار آندھی و طوفان کے دور میں بچا کر رکھا گیا ہے۔اس زبان کا شوقؔ نے استعمال کیا ہے وہ بہت آسان اور چھوٹی بحروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے ان کے یہاں طویل بحروں کے بھی اشعار ہیں لیکن اس میں بھی وہ اپنے زبان کے کرافٹ کے فنکاری سے اس طرح بھاری پن کو ہلکا اور آسان بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔
جناب عبدالقدوس قادری صاحب:
اردو شاعری میں طنز و مزاح کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اگر اردو شاعری میں سے طنز و مزاحیہ شاعری کو الگ کر دیا جائے تو پھر اردو شاعری کی حالت کچھ ایسی ہو کررہ جائے گی کہ بغیر نمک مرچ کا سالن یا بغیر شکر کی چائے۔
جب کبھی طنز و مزاح کے شعرء کا ذکر ہوگا تو راجہ مہدی علی خاں، اکبرؔ الہ آبادی، جھنجھٹؔ لکھنوی، احمقؔ پھپھوندوی، سید محمد جعفریؔ، شوکتؔ تھانوی، شہبازؔ امروہوی اور سب سے بڑھ کر حضرت دلاورؔ فگار کا نام ضرور آئے گا اور بلا مبالغہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دلاور کی حیثیت اور صلاحیت کا دوسرا شاعر ہم کو طنزیہ اور مزاحیہ شاعری میں زرا مشکل سے ملے گا۔ طنز و مزاح میں ایک نام اور ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتا ہے اور ان کا نام سید ریاست حسین اور تخلص شوقؔ بہرائچی ہے۔
شوقؔبہرائچی نے (اپنے دیوان ’طوفان‘میں ) طنز و مزاح میں تو اپنے جلوے بکھیرے ہیں اس کے علاوہ مذہبی شاعری بھی کی ہے۔نعتیہ قصیدے اور حضرت علی نیز امام حسینؑ کی شان میں بھی بہترین اشعار لکھے ہیں۔ میں ذاتی طور پر شعروں کے انتخاب سے ڈرتا ہوں کیونکہ اکثر یہ باعث رسوائی ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود شوقؔ کے کلام کی ایک جھلک آپ کو ضرور دکھانا چاہتا ہوں:
زرا نعتیہ قصیدے کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
مدثر بن کے آئے ہیں مزمل بن کے آئے ہیں
وہ کل آیات قرآنی کا حاصل بے کے آئے ہیں
شعاع مہر حسن ماہ کامل بن کے آئے ہیں
وہ سینے سے لگا لینے کے قابل بن کے آئے ہیں
اسی طرح اب زرا کچھ مزاحہیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
جب پاکستان میں فیروز خاں نونؔ وزیر اعظم ہوئے تو شوقؔ نے لکھا تھا ؂
نون کے دور میں یہ تاریکی
’آفٹر نون‘ جانے کیا ہوگا
ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی پر شوقؔ کا طنز ملاحظہ فرمائیں:
عدالت کو بھی اب لبھانے لگی ہے
مسماۃ رشوت کی اٹھتی جوانی
مولانا محمد شفقت علی کاوشؔ شوکتی:
شوقؔ بہرائچی نے اپنی ادبی سرگرمیوں کے لئے اول اول غزل کے روایتی اسلوب کا انتخاب کیا،لیکن جلد ہی انہوں نے اس روایتی پیرایہ میں طنز و مزاح کی چاشنی بھی شامل کرلی اور پھر مزاحیہ شاعری کوہی پوری طرح اپنا میدان بنالیا ۔ اپنے انوکھے اندازِ بیان،مخصوص طرزِ ادا ،بھر پور نشتریت اور منفرد لب و لہجہ کے باعث اردو کی مزاحیہ شاعری میں شوقؔ بہرائچی نے خود کو بہت جلدزندہ جاوید کر لیا ۔
راقم کی حقیر نظر میں اکبر ؔکے بعد مزا حیہ شاعری کے میدان میں تاریخی و ادبی حیثیت سے دوسرا ممتاز و معروف نام بجا طور پرشوق ؔبہرائچی کا لیا جاسکتا ہے۔اکبرؔ الہٰ آبادی کی وفات (۱۹۲۱؁ء)کے بعدچار دہائیوں تک کے سیاسی و سماجی حالات کی بھرپور و مکمل ترجمانی اگر کسی شاعر کے یہاں پائی جاتی ہے، تو وہ بجا طور پر شوقؔ بہرائچی (وفات ۱۹۶۳) ہی ہیں۔
بہر حال اکبرؔ اکبر ہیں اور شوقؔ شوقؔ ہیں ۔ مزاح کی یکسانیت کے باوجود مواد و موضوعات کے لحاظ سے دونوں میں بہت واضح فرق نظر آتا ہے۔اکبرؔ الہ آبادی نے اپنی فنکاری کے لیے بالعموم نظم کی ہیئت کو پسند کیا ہے، جبکہ شوق ؔبہرائچی نے اپنے کلام میں غزل کی تمام رعنائیوں اور بانکپن کو باقی رکھتے ہوئے اس کے روایتی ڈھانچہ کو نبھانے کی پوری کوشش کی ہے۔اکبرؔ الہ آبادی مشرقیت کے ایک داعی و مبلغ،قوم کے ایک مصلح اور مغربی یلغار کے بالمقابل ایک شدید ترین مزاحم کی شکل میں سامنے آتے ہیں،جبکہ شوقؔ بہرائچی طنز و مزاح کی اصل حیثیت کو کسی داعی و مبلغ کا لبادہ اوڑھے اور اپنی شاعری کو کسی مخصوص فکر کا ترجمان بنائے بغیر علی حالہ قائم رکھتے ہیں۔
شوق ؔصاحب کی خوبی یہ ہے کہ مزاح کے باوجود ان کے کلام میں غزل کا لب و لہجہ مجروح نہیں ہوتا ہے اور بعض اوقات ان کے پہلے مصرعہ سے یہ قیاس کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اس روایتی اسلوب و انداز کے ساتھ شاعر طنز و مزاح کارنگ آخر کیسے پیدا کریگا۔ بر سبیل تذکرہ یہاں یہ ذکر مناسب ہو گا کہ شہنشاہ تغزل جگر ؔمرادآبادی بھی شوق بہرائچی کی فنکاری اور فن عروض وغیرہ میں ان کی پختگی کے معترف تھے اور اپنی مجلسوں میں اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ شوقؔبہرائچی کی شاعری نقائص سے پاک ہے۔

 

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.