#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالنمل ، اٰیت 54 تا 59
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لوطا اذ
قال لقومهٖ
اتاتون الفاحشة
وانتم تبصرون 54
ائنکم لتاتون الرجال
شھوة من دون النساء
بل انتم قوم تجھلون 55
فماکان جواب قومهٖ الّا ان
قالوااخرجوااٰل لوط من قریتکم
انھم اناس یتطھرون 56 فانجینٰه
واھله الّاامراته قدرنھا من الغٰبرین 57
وامطرنا علیھم مطرا فساء مطرالمنذرین 58
قل الحمد للہ وسلٰم علٰی عبادہ الذین اصطفٰی اٰللہ
خیراما یشرکون 59
اے ھمارے رسُول ! اہلِ فکر کی یاد دھانی کے لیۓ قومِ لُوط کی وہ کہانی ایک
بار پھر سنادیں کہ جب لُوط نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ھے
کہ تُم مردوں کے ساتھ اپنی مردانہ شھوت رانی کا جو بُرا عمل کر رھے ہو اُس
کے بُرے نتائج کو جاننے کے باوجُود بھی تُم اپنی جہالت کے باعث اپنی جنسی
اشتہا کے لیۓ مَردوں سے مُسلسل التفات اور عورتوں سے مُسلسل عدمِ التفات
برت رھے ہو مگر اُس قوم کے پاس اُن کے اِس سوال کا اِس کے سوا کوئی جواب
نہیں تھا کہ لُوط اور اِس کے پاک باز ساتھیوں کو ھماری مردانہ محبت کی اِس
بستی سے نکال دیا جاۓ جو ھماری خواہش کی اِس بَھنگ میں اپنی پارسائی کے
رَنگ ڈالتے رہتے ہیں اور پھر اُن کے اِس بُرے عمل کا یہ بُرا اَنجام ہواکہ
اللہ نے لُوط کی بیوی کے سوا لُوط کے تمام ساتھیوں کو تو بچا لیا لیکن اُن
کی قوم کے تمام بدکار مردوں پر پَتھروں کی بارش کرکے اُن کو ہلاک کردیا ،
اِس عذاب کی آمد سے اگرچہ اُن لوگوں کو بھی آگاہ کردیا گیا تھا جو اِس مرض
میں مُبتلا تھے لیکن اُن لوگوں نے لُوط کی یہ نصیحت سُن کر اپنی وہ بدعملی
نہیں چھوڑی تھی جس بدعملی میں وہ مُبتلا تھے اِس لیۓ وہ سارے کے سارے لوگ
اپنے اِس بُرے کام کے اُس بُرے اَنجام کو پُہنچ گۓ جو اَنجام اُس کام کا
ایک مَنطقی نتیجہ تھا اور اے ھمارے رسُول ! اَب آپ اپنے زمانے کے ہر ایک
انسان کو یہ بات بھی بتادیں کہ ماضی کی یہ قدیم داستان اور اِس طرح کی ہر
ایک قدیم داستان جو قُرآن نے بیان کی ھے وہ اِس بات کی شھادت دیتی ھے کہ
اللہ کے اِس عالَم میں اَچھے کام کا اَنجام ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ اَچھا ھے
اور بُرے کام کا اَنجام ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ بُرا ھے اور انسان کو اَن
دونوں کاموں کے ترک اور اختیار کی قُدرت بھی دی گئی ھے لہٰذا تُم خود ہی یہ
فیصلہ کر لو کہ اللہ کا قانُون اَعلٰی ھے یا اُس کے اُن شریکوں کا فسُون
اَعلٰی ھے جو تُم نے خود ہی گھڑے ہوۓ ہیں اور یہ فیصلہ بھی تُم خود ہی کرلو
کہ تُم نے کیا کام کرنا ھے اور یومِ حساب آنے کے موقعے پر کس کام کے کس
اَنجام کا سامنا کرنا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کے جن سترہ مقامات پر لُوط و قومِ لُوط کا یہ قصہ بیان کیا گیا
ھے اُن سترہ مقامات میں سے یہ گیارھواں مقام ھے جہاں پر اِس وقت یہ قصہ
بیان کیا جا رہا ھے ، قُرآنِ کریم میں بار بار بیان کیا جانے والا یہ قصہ
جس بدترین عمل کے جن بدترین نتائج کی نشان دہی کرتا ھے وہ بدترین نتائج صرف
ایک مُسلم قوم کے ایک مُسلمان فرد کے لیۓ ہی بدترین نہیں ہیں بلکہ رُوۓ
زمین کے ہر ایک انسان کے لیۓ بدترین ہیں لیکن مُسلم معاشرے پر مُسلمانوں کے
جن جاہل روایت پرستوں نے اپنا جو غیر قُرآنی روایتی اسلام مُسلط کیا ہوا ھے
اُس نام نہاد اسلام کے نام نہاد پیروکار ویسے تو چھینکنے اور کھانسنے کے
عمل پر بھی اسلام کا نام لیتے اور اسلام کے اَندھا دُھند حوالے دیتے ہیں
لیکن وہ اِس بات پر ایک لَمحے کے لیۓ بھی غور کرنے کے لیۓ تیار نہیں ہوتے
کہ اللہ تعالٰی نے آخر اپنی اِس عظیم کتاب میں ایک قدیم قوم کے ایک قدیم
قصے کا بار بار کیوں ذکر کیا ھے ، سُوۓ اتفاق یہ ھے کہ جس نام نہاد اسلامی
معاشرے میں ھم جی رھے ہیں اور جس نام نہاد اسلامی معاشرے میں ھماری آنے
والی تمام نسلوں نے جینا ھے اُس اسلامی معاشرے میں جنس کو سمجھنا یا
سمجھانا تو خیر ایک بہت ہی دُور اَز کار بات ھے اُس اسلامی معاشرے میں تو
جنس کا نام لینا بھی ایک ناقابلِ معافی جُرم ھے اور مزید سُوۓ اتفاق یہ ھے
کہ دُنیا کی جن مُتمدن اَقوام میں جنسی تعلیم کے نام پر جو جنسی تعلیم دی
جاتی ھے وہ بھی بند گوشت کو بُھوکے کُتے کے آگے کھول کر رکھنے کا ایک ایسا
بیہُودہ عمل ھے کہ اُس تعلیم کے حاصل کرنے والے مُعلّم و مُتعلّم اُس
تعلیمی درسگاہ سے باہر نکلتے ہی علمی جنس کے علمی راستے پر چلنے بجاۓ عملی
جنس کے اُسی عملی راستے پر چل نکلتے ہیں جس سے جان چُھڑانے کے لیۓ اُنہوں
نے یہ درسگاہ قائم کی ہوتی ھے اِس لیۓ نتیجے کے لحاظ سے انسان کو اِن جنسی
درسگاہوں سے کوئی فائدہ پُہنچنے کے بجاۓ مُسلسل نقصان ہی پُہنچ رہا ھے جس
کی وجہ یہ ھے کہ انسانی وجُود اپنی ساخت کے اعتبار سے جنسی احساس کا ایک
ایسا سمندر ھے جس سمندر سے ہر لَمحہ و ہر آن جنسی احساس کی وہ موجیں اُچھل
اُچھل کر باہر آرہی ہوتی ہیں جن کا ہر قطرہِ جنس دُوسرے قطرہِ جنس ملنے کے
لیۓ بیتاب ہوکر زبانِ حال سے کہہ رہا ہوتا ھے کہ ؏
اپنے احساس سے چُھوکر مُجھے صندل کر دے
میں کہ صدیوں سے اَدھورا ہوں مُکمل کر دے
یہی وجہ ھے کہ اُن جنسی درسگاہوں سے جنسی تعلیم حاصل کر کے باہر آنے والے
مُعلّم و مُتعلم اُن درسگاہوں سے باہر آتے ہی جنس کی جنسی تعلیم و تفہیم کے
دائرے میں رہنے کے بجاۓ جنس کی اُس عملی لذت کے راستے پر چل پڑتے ہیں جو
اُن کا ایک مَن چاہا راستہ ہوتا ھے کیونکہ جنس کی یہ تعلیم اُن کو تَکمیلِ
جنس کی قابلِ عمل معلومات سے آراستہ کر کے جنس کے اُسی اَندھے راستے پر چلا
دیتی ھے جو راستہ انسان کے بصری دیدوں کو تاریک اور احساس کے دیدوں کو روشن
کردیتا ھے اِس لیۓ لازم ھے کہ انسان اَحوالِ جنس اور اعمال جنس سے پہلے اُن
اَسبابِ جنس کا جائزہ لے جو اِس جنسی بے راہ روی کی نرسری لگاتے ہیں اور
اِس کے رنگین و سنگین گُل بوٹوں کو پروان چڑھاتے ہیں ، ھم نے انسانی جسم
میں لہریں مارتے ہوۓ جس جنسی سمندر کا ذکر کیا ھے عُلماۓ نفسیات و جنسیات
کے نزدیک اُس جنسی سمندر سے احساسِ جنس کے باہر نکلنے کے سات جنسی دھارے
ہوتے ہیں جو جنسی دھارے اُن سات راستوں سے نکل کر استلذاذ بالنفس و استلذاذ
بالجنس اور استلذاذ بالغیرِ جنس کے تین دریاؤں میں داخل ہو جاتے ہیں اور
اِن تین دریاؤں میں سے استلذاذ بالغیر کا ایک دریا ہی پیداواری زمین کی طرف
جاتا ھے ، دُوسرے دونوں دریا غیر پیداواری زمین کی طرف بہتے چلے جاتے ہیں
لیکن انسان کے پاس اِس بات کا اختیار ہوتا ھے کہ وہ اِن دریاؤں کا اپنی
مرضی کے مطابق رُخ موڑ سکے اور چونکہ انسان کا مقصدِ حیات ہی حیات کی تکمیل
ھے اِس لیۓ اُس کو اُس کے خالق نے حُکم دیا ھے کہ وہ جنس کے پیداواری دریا
سے جنسی فائدہ اُٹھاۓ اور دُوسرے دو دریاؤں کو علم و تفریح اور اِن جیسے
دُوسرے اُن اَن گنت راستوں پر چلاۓ جن سے اُس کی رُوح کی تزیین اور اُس کے
جسم کی تکمیل ہوتی رھے لیکن یہ کام کوئی مُعلّم یا کوئی تعلیمی ادارہ اِس
لیۓ نہیں کرسکتا کہ وہ فرد اور وہ ادارہ بذات خود اُسی جنسی طوفان کے اُسی
بہاؤ میں بہہ رہا ہوتا ھے جس میں ہر ڈوبنے والا ایک تنکے کا سہارا لینے پر
مجبور ہوتا ھے اِس لیۓ تربیتِ اَولاد کا یہ کام صرف وہ والدین ہی کر سکتے
ہیں جن والدین میں سے نرینہ اَولاد کی تربیت کی ذمہ داری باپ قبول کرتا ھے
اور زرینہ اَولاد کی تربیت کی ذمہ داری ماں قبول کرتی ھے ، جب تک علمِ
جنسیات و نفسیات کی یہ مطلوبہ تعلیم والدین شادی سے پہلے حاصل نہیں کریں گے
اور جب تک شادی کے بعد وہ اپنی نرینہ و زرینہ اَولاد کی بذاتِ خود تعلیم و
تربیت نہیں کری گے تب تک جنسی بے راہ روی کے یہ کُھلے ہوۓ راستے بند نہیں
ہوں گے ، لُوط علیہ السلام اُس قوم کے وہی رُوحانی باپ اور رُوحانی مُعلّم
تھے جن کو اللہ تعالٰی نے اُس قوم میں اُس وقت مامُور کیا تھا جس وقت اُس
معاشرے کے اُن نوجوانوں کے حقیقی والدین اِس تعلیم سے محروم تھے اور اُن کی
ایک پُوری نسل اِس بے راہ روی کا شکار ہوچکی تھی اور لُوط علیہ السلام کی
بیوی بھی چونکہ اپنے شوہر کی تعلیمات کے بجاۓ اپنی قوم کے نظریات کی حامی
تھی اِس لیۓ لُوط علیہ السلام کی اُس اصلاحی تحریک کے وہ مُثبت نتائج برآمد
نہیں ہوۓ تھے جن مُثبت نتائج کے لیۓ وہ اُس قوم میں مامُور کیۓ گۓ تھے اور
جن مُثبت نتائج کے برآمد کرنے کی اُنہو ں نے اپنے مُثبت عمل سے پُوری کوشش
بھی کی تھی !!
|