ایک استاد کو کیسا ہونا چاہئے ؟
کیا ایسا کہ اس کا نام شاگردوں کے لیے خوف کی علامت بن جائے ، طلباء جس کا
سامنا کرنے سے گریز کریں اور جس کی صورت دیکھتے ہی کنی کترا کے گزر جائیں،
جس کے کلاس روم میں دیر سے آنے کی دعائیں کی جائیں اور جو زبان سے زیادہ
ڈنڈا استعمال کرنے کے حوالے سے مشہور ہو....یا ایسا کہ اس کی ذات میں اخلاص
وانسیت کا ایک نورانی پیکر نظر آئے ، جس سے کوئی بات دریافت کرتے ہوئے
شاگردوں کو کوئی گھبراہٹ محسوس نہ ہو، جس کے کلاس میں آنے کا طلباء انتظار
کریں اور جس کا اسلوبِ تعلیم ان کے ذوق وشوق میں مزید اضافہ کرے !
آئیے ،ایک مقدس واقعہ سے روشنی لیتے ہیں جو تفصیل سے کتبِ حدیث میں مذکور
ہے اور سورة البروج کی تفسیر کے ضمن میں کتبِ تفسیر کے اندر بھی ملاحظہ کیا
جاسکتا ہے ۔”قبل از اسلام کی بات ہے ۔ بت پرستوں کی ایک بستی میں ایک ظالم
بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کو جادو منتر اور سفلی عملیات میں بہت
دلچسپی تھی اور اسی دلچسپی کے سبب علاقہ کے ایک بڑے جادوگر کو اس کا خاص
قرب حاصل تھا۔یہ جادوگر جب بوڑھا ہوگیا اور موت کی چاپ قریب سنائی دینے لگی
تو اس نے بادشاہ سے درخواست کی کہ حضورِ عالی ! میری شاگردی کے لیے کسی
نوعمر بچہ کا انتخاب کردیجئے جس تک میں اپنی میراث اپنی زندگی میں ہی منتقل
کردوں اور وہ مستقبل میں میرا جانشین بن سکے ۔غوروفکر کے بعد قرعہ فال
”ثارم “ کے بیٹے عبداللہ کے حق میں نکلا۔ یہ انتخاب اس کے لیے اور اس کی
گھر والوں کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی ۔ وقت کا تعین ہوا اور ننھے عبداللہ
نے وقتِ مقررہ پر جادوگر کے طلسم کدہ میں حاضری دینا شروع کردی۔
روایات بتاتی ہیں کہ ثارم کے گھر اور جادوگر کے طلسم کدہ کے درمیان کچھ
فاصلہ تھااور راستے میں ایک جگہ ویرانہ آتا تھا۔اس ویرانہ میں عبداللہ کو
روزانہ ایک خیمہ دکھائی دیتا جس کے اندر ایک ”بزرگ اللہ والے “ عبادت
وریاضت میں مشغول ہوتے۔ کم سن عبداللہ کو اس کی ” اٹھک بیٹھک “ دیکھ کر بہت
حیرت ہوتی اور وہ روزانہ آتے جاتے دیر تک کھڑا ٹکی باندھے اس کے معمولات کو
دیکھتا رہتا۔ رفتہ رفتہ اس خدامست راہب کے بارہ میں اس کا طفلانہ تجسس
بڑھتا گیا اور بالآخر وہ ایک روز اس سے سلام دعا کرہی بیٹھا۔ ”اللہ والا“
اتنی شفقت سے پیش آیا کہ ننھا عبداللہ پہلے دن سے ہی اس کی باتوں اور اداؤں
میں کھو کر رہ گیا۔دنیا کی حقیقت اورعالم ِ ملکوت سے متعلق اُس کی باتیں اس
کے دل کو لگیں۔دوچار دن کی غیر رسمی ملاقات کے بعد اس نے باقاعدگی سے اس
”اللہ والے “ کے پاس بھی بیٹھ کر درس لینا شروع کردیا۔ اب یہ روزانہ، پہلے
کچھ وقت اس بزرگ کے پاس گزارتا اور پھر معمول کا سبق لینے کے لیے جادوگر
استاد کے پاس جاتا۔جادوگر استاد نے چنددن بعد محسوس کیا کہ یہ روزانہ تاخیر
سے آتا ہے اور دوسری طرف گھروالوں کوبھی اندازہ ہوا کہ آج کل استاد کے
ہاںسے اِس کی واپسی دیر سے ہوتی ہے ۔ اب یہ ہوتا کہ تاخیرکی وجہ سے پہلے
جادوگر اور پھر گھر والوں کی جانب سے اسے روزانہ مار پڑتی ، مگر اس اللہ
والے کی صحبت کا نجانے کیا اثر تھاکہ ننھا عبداللہ یہ سب کچھ اور اس کے
علاوہ بہت کچھ برداشت کرتا رہا۔ اس نے گھر والوں اور جادوگر استاد کی
آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کچھ حیلے اور حربے بھی اختیار کئے ،لیکن اس
بزرگ استاد کے دامن کو کسی طور چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔بعد میں یہی عبداللہ
اس پور ے علاقہ کے لیے ہدایت کی بادِ صبا ثابت ہوااور دعوت وعزیمت کی راہ
اختیار کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ بن کر تاریخ میں ثبت ہوگیا۔
میں نے جب بھی یہ واقعہ پڑھا تو دیر تک سوچتا رہا کہ کہنے کو وہ ”راہ بیٹھا
راہب “ بھی ایک استاد تھااور ہمارے معاشرہ کے اساتذہ بھی استاد ہی ہیں،
لیکن کیا وجہ ہے کہ اس ناتجربہ کار استاد کا شاگر د تو اس پر ایسا فریفتہ
ہواکہ اس کی شاگردی برقرار رکھنے کے لیے ماریں بھی برداشت کیں ،ہر قسم کے
خطرات بھی مول لیے اور دنیا کی ساری رنگینیوں کو ٹھکرادیا، جبکہ ہمارے بچوں
کی ” عید “ ہی اس دن ہوتی ہے کہ جس دن ”پڑھائی “ کی چھٹی ہوجائے ۔ خدا جانے
، اس پس ماندہ زمانہ کے ایک دنیا بے زار استاد کے پاس ایسا کونسا گُر اور
”جادو“ تھا! ہم جنہوں نے روزانہ بچوں کو استاد کے پاس جانے سے پہلے روتے
پیٹتے دیکھا ہو ، ان کے لیے تو اِس سوفی صد صحیح واقعہ پر یقین کرنا بھی
مشکل ہوجاتا ہے کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے !
کیا ہمارے معاشرہ کے اساتذہ کے لیے اس واقعہ میں عبرت اور موعظت کا کوئی
سامان ہے ؟ ہر چند روز گزرنے کے بعد کسی اسکول اور مکتب سے معصوم بچوں پر
جسمانی تشدد کی کوئی ایسی دل دو ز خبر موصول ہوتی ہے جو روح کو گھائل کرکے
رکھ دیتی ہے ۔ابھی چند دن پہلے پنجاب میں ایک پرائمری اسکول کے ٹیچر نے سات
آٹھ سال کے معصوم بچہ کے ہاتھ پر ڈنڈا برسابرسا کر اس کی انگلیاں توڑڈالیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق جب لوگوں نے لعن طعن کی تو اس نے جواب میں جو
فلسفہ ارشاد فرمایا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ اس کا کہناتھاکہ ”
استاد تو ایساکرتے ہی رہتے ہیں“کوئی اس سے پوچھے کہ ”میاں جی دانش! کیا
استاد معصوم بچوں کی انگلیاں توڑتے رہتے ہیں؟ کیا ان کا فرضِ منصبی یہی ہے
؟ کیا اسی کام کی وہ تنخواہ لیتے ہیں؟کیا اسی خدمت کے عوض وہ ”قوم کے
استاد“ کہلانا چاہتے ہیں؟“اس سے قبل یہ خبر بھی پنجاب ہی کے ایک مڈل اسکول
سے آئی تھی کہ وہاں کے استاد نے اپنے خوں خوار ڈنڈے کے ذریعہ سے ایک بے
گناہ بچہ کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ہمارے خیال میں قوم کے یہ استاد ، استاد کم اور
جلاد زیادہ ہیں۔ ان کو درس گاہوں کی زینت بنانے کی بجائے کسی جیل کا داروغہ
بنا دیجئے یا جسمانی ریمانڈ پانے والے ملزمان کی خدمت کے لیے رکھ لیجئے
۔امید ہے کہ وہ یہ فرائض زیادہ خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں گے ۔
مغربی تہذیب کے برعکس،اسلام بچوں کی تعلیم وتربیت کے ضمن میں جسمانی تادیب
کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا ، بلکہ بعض اوقات تو اس کو بروئے کار لانے کی
تلقین بھی کرتا ہے ۔ چنانچہ یہ حدیث مشہور ہے کہ جب بچہ 10 سال کا ہوجائے
اور پھر بھی نماز کی ادائیگی میں سستی سے کام لے تو اس کی جسمانی ڈانٹ ڈپٹ
کرو۔ اسی طرح ایک اور حدیث ہے ۔ حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ نبی نے مجھے دس
نصیحتیں ارشاد فرمائیں، جن میں ایک یہ ہے کہ اپنے اہل وعیال کی دینی تربیت
میں کوئی کسر نہ چھوڑو ،خواہ اس کے لیے تمہیں اپنی چھڑی کا خوف اور دبدبہ
ہی کیوں نہ پیدا کرنا پڑے (مفہومِ حدیث)۔مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے
جسمانی تادیب کی اجازت دے کر اساتذہ اور معلمین کو کھلی چھٹی نہیں د ے دی
کہ وہ کھل کھیلیں اور جو جی میں آئے ،معصوم بچوں کے ساتھ کرگزریں بلکہ اس
امر کو کئی قابلِ قدر حدود اور آداب کا پابند بنایا گیا ہے ۔مثلا یہ کہ
(۱)صرف بحالتِ مجبوری مارا جائے (۲)مارنے کے لیے کسی ایسی چیز کا استعمال
نہ کیا جائے کہ جس سے نشان پڑ جاتا ہو(۳)تین دفعہ سے زیادہ ایک وقت میں نہ
مارا جائے (۴)چہرہ پر ہرگز نہ مارا جائے (۵)مارتے ہوئے یہ امر ملحوظ رہے کہ
اس سے مقصود بچہ کی غفلت دور کرنا ہے ، اس کی فطری صلاحیت اور استعداد میں
اضافہ کرنا یا غصہ کی ہیجانی کیفیت کو تسکین دینا نہیں،وغیرہ وغیرہ۔
ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ کیا ہمارے ہاں ان آداب کا ذرہ برابر بھی
اہتمام کیا جاتا ہے ؟دکھ کی بات یہ ہے کہ جسمانی تشدد اور ڈنڈا کلچر کے
سونامی نے بلاامتیاز ہماری درس گاہوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے
(الاماشاءاللہ)اور اساتذہ کی اخلاقی تربیت کے لیے کوئی موثر آواز کہیں سے
بھی بلند نہیں ہورہی۔نہ منبرومحراب سے ،نہ بلندبانگ دعوے کرنے والے میڈیا
سے ۔ |