|
|
گزشتہ کچھ سالوں سے معصوم بچوں کے خلاف جنسی جرائم اور
اس کے بعد ان کو قتل کر دینے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے ميں آیا
ہے- اکثر لوگ اس کا سارا الزام انٹرنیٹ اور موبائل فون کو قرار دے رہے ہیں
جس نے فحاشی کو بہت بڑھا دیا ہے جس کے سبب ایسے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے- |
|
مگر 1999 میں لاہور میں سو بچوں کو بدفعلی کے بعد قتل کر
کے ان کی لاشوں کو تیزاب بھرے ڈرم میں ڈال کر ٹھکانے لگانے والے جاوید
اقبال کے دور میں تو نہ انٹرنیٹ تھا اور نہ ہی موبائل فون- اس کے باوجود اس
نے تقریبا دو سال کے عرصے میں سو بچوں کو بے رحمی سے اپنی ہوس کا نشانہ
بنایا اور قتل بھی کیا- |
|
اس واقعے کے حوالے سے حالیہ دنوں میں خبریں ایک بار پھر
سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں اور جاوید اقبال کی کہانی ایک بار پھر زبان
زدعام ہو رہی ہے۔ اس کہانی کے چھپے ہوئے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے معروف
صحافی خاور نعیم ہاشمی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا- |
|
ان کا کہنا تھا کہ 2000 میں ان کو اپنے دفتر میں بذریعہ
ڈاک ایک لفافہ موصول ہوا جس میں پاسپورٹ سائز 100 بچوں کی تصاویر اور ایک
چھوٹا سا خط تھا جس میں جاوید اقبال نے یہ لکھا تھا کہ وہ اب تک100 بچوں کو
قتل کر چکا ہے جس کی تصاویر اس لفافے میں موجود ہیں اور اب وہ اپنے جرم کا
نہ صرف اعتراف کرنا چاہتا ہے بلکہ اس بات کا خواہشمند ہے کہ اس کی کہانی
منظر عام پر لائی جائے- |
|
|
|
خاور نعیم کا کہنا تھا کہ خط پر ایک فون نمبر بھی درج
تھا جس پر رابطہ کرنے پر ان کی بات جاوید اقبال سے ہوئی اور انہوں نے اس کو
اپنے دفتر ہی میں بلا لیا جہاں وہ اپنے دو دوسرے ساتھیوں کے ساتھ پہنچا۔ ان
ساتھیوں کی عمریں تیرہ سے چودہ سالوں کے درمیان تھی اور ان بچوں نے جاوید
اقبال سے اپنی جان بخشوا لی تھی اور اس کے جرائم میں اس کے مددگار بننے کا
وعدہ کر لیا تھا- |
|
خاور نعیم نے یہ بھی بتایا کہ جاوید اقبال نے پولیس کو
گرفتاری نہ دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کو ڈر ہے کہ پولیس اس کو
مقابلے میں ہلاک کر دے گی اور اس طرح اس کی کہانی منظر عام پر آنے سے رہ
جائے گی- اس وجہ سے اس نے گرفتاری دینے کے لیے خاور نعیم کا انتخاب کیا
تاکہ میڈیا اس کی کہانی عام لوگوں تک پہنچا سکے- |
|
جاوید اقبال سے اس حوالے سے مزید بتایا کہ اس کا شکار عام طور پر وہ لڑکے
ہوتے تھے جو کہ اپنے گھروں سے بھاگے ہوتے تھے اور وہ ان کو داتا دربار، بس
اسٹیشن یا ریلوے اسٹیشن سے بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا- |
|
اس کے بعد گھر لے جانے کے بعد ان بچوں کو اچھا کھانا کھلاتا تھا ، سینما
میں فلم دکھاتا ان کی تصویر بنواتا اور ان کو نئے جوتے خرید کر دیتا تھا
اور ان کے پرانے جوتے اپنے پاس بطور نشانی محفوظ کر لیتا تھا- اس کے بعد
رات کے وقت میں اس بچے کے ساتھ بد فعلی کرتا اور صبح سے قبل اس بچے کو قتل
کر کے اس کی لاش کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ان کو تیزاب سے بھرے ڈرم میں
ڈال دیتا جہاں لاشیں خود ہی گل کر ختم ہو جاتی تھیں اور وہ ان کو گٹر میں
بہا دیتا تھا- |
|
قتل کی وجہ بتاتے ہوئے جاوید اقبال نے خاور نعیم کو یہ بھی بتایا کہ وہ یہ
سب کچھ اس ظلم کے بدلے میں کرتا تھا جو اس کے ساتھ اس کے بچپن میں روا رکھا
گیا تھا۔ اس موقع پر کرائم رپورٹر کی مدد سے جب انہوں نے جاوید اقبال کی
جامہ تلاشی لی تو اس کے پورے جسم پر 500 کی تعداد میں نیند کی گولیاں چپکی
ہوئی تھیں جو اس نے اس نظریے سے چپکائی تھیں کہ اگر پولیس گرفتاری کے بعد
اس پر تشدد کرنے کی کوشش کرے تو اس تشدد سے بچنے کے لیے وہ خودکشی کر لے- |
|
خاور نعیم صاحب کا یہ کہنا تھا کہ ان کے دفتر میں جاوید اقبال کی موجودگی
کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور کچھ ہی دیر میں ان کے دفتر کو
پولیس نے گھیرے میں لے لیا- مگر اسی اثنا میں ان کو ملٹری انٹلی جنس کے
کرنل وائن صاحب کی کال موصول ہوئی جس میں ان کا کہنا تھا کہ جاوید اقبال کے
جرم کی سنگینی کے پیش نظر اس کی گرفتاری پولیس کے بجائے آرمی کرے گی اور اس
طرح جاوید اقبال کی گرفتاری عمل پزیر ہوئی- |
|
تاہم آرمی نے ابتدائی تفتیش کے بعد اس کو پولیس کے حوالے کر دیا تاکہ اس کے
اوپر باقاعدہ مقدمہ چلایا جا سکے اور اس کے بعد جاوید اقبال کو سو مرتبہ
سزائے موت اور اس کے ایک ساتھی کو 98 مرتبہ سزائے موت کا حکم دیا گیا ۔
عدالت کے حکم کے مطابق جاوید اقبال کی لاش کے سو ٹکڑے کر کے اس کو تیزاب
میں تحلیل کرنے کا بھی حکم جاری کیا گیا- |
|
مگر اس نوبت کے آنے سے پہلے ہی جاوید اقبال اور اس کے ساتھی نے جیل ہی میں
خود کشی کر لی تھی۔ |
|
|
|
جاوید اقبال کی کہانی کے دوبارہ مشہور ہونے
کے اسباب |
حالیہ دنوں میں مشہور اداکار یاسر حسین کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل
ہو رہی ہے جس میں انہوں نے جاوید اقبال کا روپ دھار رکھا ہے یہ تصویر
درحقیقت جاوید اقبال پر بننے والی فلم ان ٹولڈ اسٹوری آف اے سیریل کلر سے
لی گئی ہے جس میں یاسر حسین مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں- اس فلم کی کہانی
اور ہدایت کاری ابو علیحہ نے کی ہے ابھی یہ فلم تکمیل کے مرحلے میں ہے اور
امید ہے کہ شائقین کے سامنے جلد پیش کر دی جائے گی- |