قارئن! پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’’یوم دفاع/شہداء
6ستمبرکی مناسبت سے ایک قابل ذکر پروگرام لیکرآگے بڑھ رہا ہے ۔جس میں خاصیت
یہ ہے کہ یوم دفاع و شہداء کے موقع پر شہدائے وطن کے مزارات پر حاضریاں دی
جائینگی ۔پھولوں کی چادریں چڑھانے کیعلاوہ فاتحہ پڑھی جائیگی ۔سبزہلالی
پرچم لہرائے جائینگے ۔اور شہیدوں کے گھروں تک جاکر اُنھیں پھول پیش کئے
جائینگے ۔یہ نئی روایت قائم ہورہی ہے ۔جسکا آغاز2019سے ہوا ہے۔تاہم گذشتہ
سال کورونا وائرس کیوجہ سے یوم دفاع پر سرگرمیاں مشکل تھیں۔ لیکن امسال یوم
پاکستان کی پریڈ بھی ہوئی ۔جس میں راقم بھی شریک ہوا ۔اور اب یوم دفاع کی
تقاریب بھی منعقد ہورہی ہیں۔مرکزی تقریب جی ایچ کیو میں منعقد ہوگی ۔جبکہ
ملک کے تمام بڑے شہروں /گریژنزکے تحت تقاریب کا انعقاد ہورہا ہے جن میں
مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ممتاز شخصیات ،اعلیٰ سرکاری افسران اور دفاع وطن
سے منسلک خواتین ،بچوں ،بزرگوں سولجرز،آفسیراور لواحقین شہدائے وطن شریک
ہونگے۔اس موقع پر اعلیٰ عسکری حکام لواحقین شہداء سے علیحدہ ملاقاتیں کرکے
اُنکو درپیش مسائل و مشکلات بارے معلومات بھی لیتے ہیں ۔اور شہداء گھرانوں
کو نہایت عزت و احترام کیساتھ تقاریب میں لایا جاتا ہے ۔تاکہ اُنھیں احساس
دلایا جاسکے کہ پاک فوج اور قوم اُنکے پیاروں کی قربانیوں کو نہیں بھولے
۔۔۔۔ یوں تو پاک فوج نے ہمیشہ مادر وطن کے شہیدوں کے حوالے سے سرگرم کردار
انجام دیا ہے ۔لیکن دفاع وطن کے مقدس فریضہ کی انجام دہی میں جب قربانیاں
بڑھ گئیں تو مناسب خیال کیا گیا کہ شہدائے وطن کی یاد کیلئے ایک دن مختص
کیاجائے چنانہ 2012میں پہلی بارمحدودپیمانے پر 30اپریل کویوم شہدائے
پاکستان کاآغٖازکیاگیا۔ بعدازاں 2013+14/15تک اسی دن تقریبات منعقد ہوتی
رہیں ۔پھرفیصلہ ہوا کہ ’’یوم دفاع اور شہداء اکھٹے منائے جائیں گے ۔اس طرح
اب 6ستمبرکو یوم دفاع و شہداء منایا جاتاہے۔نوعیت کے اعتبار سے مذوکرہ
سرگرمیوں نے اجتماعی قومی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں ۔تاہم بہتری کی
گنجائش تو ہمیشہ باقی رہتی ہے۔یوم دفاع و شہداء کے موقع پر لواحقین شہداء
کا مدعوکیا جانا ’’فوج اور لواحقین‘‘کا مل کرصرف شہیدوں کو خراج عقیدت پیش
کرنے کا ’’ذریعہ ‘‘رہے تو زیادہ مناسب ہوگا۔اس دن اگرمسائل ہی ڈسکس ہونگے
تو توجہ بھی بٹ جائیگی ۔فوج تو سارا سال شہیدوں سے متعلق معاملات پر اپنی
حدود میں تمام ممکنہ کام کرتی ہے ۔اور یوم دفاع و شہداء پراُنھی اُمور پر
شکایات آتی ہیں جو سول انتظامیہ کی ’’کاریگری‘‘سے حل نہیں ہورہے ہوتے۔لہذا
اس پہلو پرسول انتظامیہ کا کردار ذمہ دارانہ بنانے کی ضرورت ہے۔جس دن یہ
کام ہوگیا سمجھ لیں یوم دفاع و شہداء کاحقیقی مقصد پورا ہوجائیگا۔یعنی فوج
کی طرح سول حکومتی انتظامی سطع پر بھی ’’شہدائے وطن ‘‘کی تعظیم و تکریم
حقیقی معنوں میں ہونے لگے گی۔
قارئن! شہیدوں آزادکشمیر میں ریاستی حکام نے1948سے2012 تک کسی دَورحکومت
میں ’’شہداء گھرانوں‘‘سے باضابطہ طورپرکوئی رابطہ، واسطہ نہیں
رکھا۔اقتدارکا بے رحم کھیل جاری رہا۔ اگر’’ انتخابی سیاست ‘‘میں دفاع وطن
کی حقیقی معنوں میں اہمیت دی جاتی ۔تو ’’شہدائے وطن ‘‘کی قربانیوں کی عزت و
احترام کی روایت قائم ہوتی ۔۔۔۔ شہیدوں کے ناموں سے سرکاری تعلیمی ادارے
منسوب کئے جاتے ۔تاکہ ریاست کا ہربچہ سکول میں آویزاں شہید وطن کی
تصویردیکھتا اور شہید کی ابتدائی و عسکری زندگی کے حالات و شہادت تک موجود
تعارف سے روشناس ہوجاتا۔جس سے پاک فوج کیساتھ ایک اُنسیت پیدا ہوتی ۔ایک
جذبہ پروان چڑھتا۔شہیدوں کے گھرانوں/علاقوں میں ایسے پیکجزدئییئے جاتے ۔جن
سے بیوگان ،بچوں اور والدین کی معاشی خود کفاکت کیساتھ ساتھ بہترانداز میں
بچوں کی تعلیم و تربیت ہوتی ۔اس کیفیت سے ثابت یہ ہوا کہ ’’وہ جذبے‘‘ناپید
تھے ۔جو مادر وطن کے محافظوں کی عزت و وقار ،قدر دانی کی بنیاد و اساس بنتے
۔شہیدوں کی قربانیوں کی توصیف کی جاتی ۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔نتیجہ بھی سامنے
ہی ہے ۔بس ذرا آنکھوں پرپڑی حرص ولالچ ،خود فریبی کی پٹی اُتار کردیکھنے کی
ضرورت ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت ’’پاک فوج ‘‘کی تعریف و توصیف کی خطابت و
بیان بازی ’’کشمیربنے گا پاکستان‘‘کے نعرے طویل عرصہ جاری رہے ۔لیکن عملی
طورپر آزادکشمیرمیں فکری ونظریاتی انتشارانتہاؤں پر ہے۔ سب نے جزوی وقتی
ترجیحات پر کام کیا۔اس لئے ذمہ دارکون کون ہے ؟تعین کرنا مشکل ہے ۔یہاں
شہدائے وطن میڈیا سیل کی مثال دیکرآگے چلتے ہیں ۔فکری و نظریاتی سوچ و
نظریہ کے فروغ کیلئے پاک فوج کے شہیدوں کے ناموں سے سرکاری تعلیمی ادارے
منسوب کرانے کیلئے مادر وطن کے ایک جانباز(نائیک سید محمد حسین شاہ شہید)
کا گھرانہ ’’شہدائے وطن میڈیا سیل‘‘کے تحت ایک بڑا معرکہ سر کرسکتا ہے تو
یہی کام اگر بطور ریاست، بیس کیمپ یہی کام عشروں پہلے سے ہورہا ہوتا
۔۔۔’’نتائج مختلف نہ ہوتے ؟؟؟آزادکشمیرکے سرکاری تعلیمی ادارے’’ شہدائے
وطن‘‘کے ناموں سے منسوب کرنے کیلئے پُرزور تحریک کی گئی ۔جسکے نتیجہ میں
درجنوں تعلیمی اداے مادر وطن کے شہیدوں کے ناموں سے منسوب ہوئے ۔اس دوران
الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے’’اہداف ‘‘کے حصول کیلئے جس قدر تعاون کیا۔اُسکا
اعتراف کرنے کی روایت بھی ڈالی گئی اور پھر2014سے باوقار تقریبات کا انعقاد
کرکے شخصیات/ اخبارات سے اظہار تشکر کیساتھ شیلڈز ایوارڈدئیے گئے۔۔ ۔ ہرسال
یوم شہداء پر پاک فوج کی منعقد کردہ تقریبات میں اہم اُمور بارے نشاندہی کا
فریضہ بھی انجام دیا گیا۔۔۔ دفاع وطن کیلئے مامور مسلح افواج کیساتھ قوم کے
پیاروں کی خدمات و قربانیاں اور دعائیں بہت بڑے بڑے کرشمے دکھاتی ہیں
۔۔۔۔۔۔ اپنی خدمات کی بدولت آج شہدائے وطن میڈیا سیل اپنی پہچان رکھتا ہے
۔مسلح افواج پاکستان کی ساکھ اور وقار ،قربانیوں کی عزت و تکریم کیخلاف
خبیثانہ طرز عمل کی حوصلہ شکنی کیلئے پہلے سے زیادہ جذبے سے پیش قدمی جاری
رکھے ہوئے ہے ۔
ہمارا قومی مزاج بھی بڑا عجیب ہے۔ اجتماعی قومی مفادات کیلئے کسی ’’کردارکی
ستائش‘‘کرنے میں بُخل سے کام لیتے ہیں؟جس طرح ہم نے شہدائے وطن میڈیا سیل
اے کے زون کے تحت ’’ پاکستان و مسلح افواج کیخلاف پروپگنڈؤں کے مقابلہ‘‘
میں مختلف میڈیا پرسنز /نیوزپیپرز کے اشتراک سے مثبت رحجانات کو فروغ
دیاگیا۔اورگاہے بگائے حساس اداروں کیخلاف منظم کئے گئے احتجاج/پروپگنڈؤں کو
کاونٹرکیا گیا۔تو مثبت کردار و کاوشوں کی عزت کرنیکی روایت بھی ڈالی
۔چُنیدہ صحافتی اداروں /چُنیدہ شخصیات کی کی کاوشوں پرشہدائے وطن میڈیا سیل
کی جانب سے شیلڈزایوارڈزدینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔تاکہ مثبت کاوشوں کی
عزت کرنے کی روایت قائم ہو۔یہی کام ریاست کرتی تونتائج بھی سامنے
ہوتے۔شہداء ریاست کے ہیں ۔ریاست ہی اِنھیں سرکاری طور پر شہید قراردیتی ہے
۔تو شہیدوں کوقوم کی نئی نسل کے سامنے ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی ذمہ داری
بھیج ریاست کی ہی بنتی ہے ۔اگر دفاع سے کوئی رغبت و تعلق ہو۔دفاع کی اہمیت
و افادیت کا احساس ہوتو دفاع وطن کرتے ہوئے مختلف سرحدوں پر پہرہ دینے
والوں کی خدمات کو قدرکی نگاہ سے دیکھے جانے کا عملی اظہار بنتا ہے۔اور اس
دوران جان سے گزرنے والوں کی قربانیوں کی عزت کرنے کارحجان خود باور
کرادیتا ہے کہ ہم واقعی ایک خود دار ،غیرتمند قوم ہیں ۔اور اپنی جان و مال
عزت و آبرو اور آزادی کے محافظوں کی قدر کرنا جانتے ہیں ۔ ۔۔۔
موجودہ نظام حکومت میں پیچیدگیاں بھی اس قدر زیادہ ہیں کہ پچھلی حکومت میں
چیئرمین وزیراعظم معائینہ و عملددرآمد زاہد امین صاحب نے شہدائے وطن میڈیا
سیل کے اہداف کے سلسلہ میں سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے ’’آزادکشمیرکے اندر
یا ملک کے کسی بھی حصے سے آنیوالے شہیدوں کے تابوتوں کیساتھ سرکاری پروٹکول
دینے کا آرڈرجاری کروایا‘‘تاکہ انتظامیہ ادارے، اعلی سول قیادت یا کم سے کم
مقامی ممبر قانون سازاسمبلی ’’شہید وطن ‘‘کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے
ہمراہ شریک ہونے کا موقع پائیں۔لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔۔۔۔نیز شہدائے
وطن سے متعلق جن اُمور جو سول (حکومت)سائیڈ سے کام ہونا ہوتا ہے ۔وہ اب بھی
بدستورروایتی غفلت و لاپرواہی اور پُرفریب خط بازی کی نذر ہورہے ہیں۔۔۔
شہداء گھرانوں کے بچوں کیلئے سرکاری نوکریوں کیلئے ضابطوں میں ہرممکن لچک
کی تجویز دی گئی۔۔۔شہیدوں کے متعلقہ علاقوں میں سڑکوں ،واٹرسپلائی سمیت
دیگر اجتماعی مقاصد کے کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر انجام دینے کیلئے تجاویز
بھی سردخانہ میں چلی گئیں۔ ‘‘’’شہدائے وطن میڈیا سیل‘‘نے طویل اور صبرآزما
جدوجہد میں عملی طور پرثابت کیا کہ جس طرح مسلح افواج کوئی بھی شہادت نہیں
بھولتیں ۔اسی طرح قوم بھی ایسے کسی کردار کو نہیں بھول سکتی ۔جو پاک فوج کی
حقیقی عزت و تکریم ،وقار وشجاعت کے احترام میں اضافے کے اسباب پیدا کرے ۔
ہماری سیاسی حکومتی قیادت، مسلح افواج کی تعریف و توصیف میں کنجوسی نہیں
کرتی ۔بِلاشُبہ ہماری افواج واقعی قابل تعریف ہیں ۔لیکن یہ تعریف تقاضا
کرتی ہے کہ فوج کے شہیدوں کے معاملہ میں بھی ’’ثابت ‘‘کیا جائے ۔کہ قیادت
واقعی مادر وطن پرقربان ہونیوالوں کی عزت کرتی ہے ۔جسکا مناسب اظہار
’’شہدائے وطن کے ناموں سے سرکاری تعلیمی اداروں کی منسوبیت کا سلسلہ آگے
بڑھانے سے ہوگا‘‘تاکہ نئی نسل کو دفاع وطن کیلئے مسلح افواج کے کردار
اورشہدائے وطن کی قربانیوں سے متعلق معلوم ہو۔اور اُن میں پساہیوں جیسا
جذبہ پروان چڑھے ۔اسکے لئے سول و عسکری اطراف سے کوئی ایسی حکمت عملی
اختیار کرنیکی ضرورت ہے ۔جس کے بعد سول بیوروکریسی ،عسکری حکام کو ’’بہانے
بازی‘‘پرمبنی خط لکھ کرکسی معاملہ کوسردخانے میں نہ ڈال سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|