خواندگی کا عالمی دن (Day Literacy World ) ہر سال 8
ستمبر کو دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں منایا جاتا ہے۔اس کو منانے کا
اعلان یونیسکونے نومبر 1965 ء میں کیا تھا اور پھر یہ دن پہلی مرتبہ 1966ء
میں منایا گیا۔مقصد میں خواندگی کی اہمیت ،اس کے فوائد ،اقدامات کا جائزہ
لینا وغیرہ شامل ہے۔بنیادی حقوق کا قانون ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق
دیتا ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری بلکہ فرض ہے کہ وہ یہ حق مفت فراہم کرے۔
افسوس کہ پاکستان کا عام آدمی آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔مثلاََ
تعلیم صحت،انصاف وغیرہ آج پاکستان کو بنے 74سال سے زائد ہو چکے ہیں کتنی
بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارا نظام تعلیم کیا ہو ،زبان کون سی ہو،ابھی تک طے
نہیں ہو سکا اور اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ کو ئی بھی رہنما اس میں
مخلص نہیں ہے کیونکہ اس کی جدوجہد اس کے لیے نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر دور
حکومت میں، خواہ وہ جمہوری دور ہو یا آمریت کا دور، تعلیم کو عام کرنے کے
لیے، تعلیمی پالیسیاں بنائی اور یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ذریعہ تعلیم
انگریزی ہو، یا اردو، یا علاقائی زبانیں؟ ملک کی ترقی تب ممکن ہے جب ملک
میں شرح خواندگی میں اضافہ ہو جو کہ ملک میں ایک زبان وہ بھی قومی زبان
اردو ،ایک نصاب جو مذہب ،ماحول،حالات ،ضرورت ،کے مطابق ہو یہ خواب موجودہ
حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف کے ہوتے ہوئے پورادکھائی دے رہاہے تحریک
انصاف نے یکساں نصاب تعلیم کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے مرحلے پر ابتدائی تعلیم (پرائمری)
کے لیے ذریعہ تعلیم قومی زبان اردو قرار دیا گیا ہے، جبکہ درمیانے (مڈل) ،
ثانونی (میٹرک )اور اعلیٰ ثانونی (انٹرمیڈیٹ) کے لیے ذریعہ تعلیم کا معاملہ
بھی حل ہوجائے گا۔ دو سوسال سے انگریزی رٹنے کے باوجود پاکستانی انگریزی
زبان نہیں سیکھ سکا۔ بیس سال پہلے تک انگریزی مضمون چھٹی جماعت سے شروع
ہوتا تھا۔ انٹرمیڈیٹ تک سائنسی علوم بھی اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ اسی کی
دہائی میں میٹرک سے ہی سائنسی مضامین کی تعلیم انگریزی میں دی جانے لگی۔
شہباز شریف نے اچانک پنجاب میں پہلی جماعت سے انگریزی میڈم نافذ کرنے کا
اعلان کردیا۔ ان کی دیکھا دیکھی صوبہ کے پی کے نے بھی نظام تعلیم انگریزی
میں منتقل کردیا۔ کسی نے سوچا تک بھی نہیں کہ دیہی علاقوں میں انگریزی
پڑھانے کے لیے نہ اساتذہ میسر ہیں اور نہ طلبہ کا انگریزی پڑھنے کا رجحان
ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب اور کے پی کے میں80 فیصد بچے فیل ہوئے
پھر پنجاب اور کے پی کے حکومتوں نے اردومیڈیم اختیارکی۔ایک مثال دیتاہوں
ایک سرائیکی لڑکے کواستادکہتاپڑھاتے ہوئے ماررہاتھاتووہاں بیٹھے ایک استاد
نے پوچھاکیوں ماررہے ہوتواستادنے بتایاروز بتاتاہوں برنجل (بینگن)
مگریادکرکے نہیں آتالڑکے سے پوچھاتواس نے کہااستاجی سیدھاسیدھا’’وتاؤں‘‘
کیوں نہیں کہہ سکتے محترم قارئین یہ مثال نہیں ایک واقعہ ہے جس سے واضع
ہوتاہے کہ انگریزی ہماری زبان ہے ہی نہیں اورحکومت کوعلاقائی زبانوں
کااحترام کرتے ہوئے پرائمری تک مادری زبان میں پڑھانے کے احکامات دینے
چاہیں کچھ ممالک ورانکی ناخواندگی کی پرسنٹیج پر نظرڈالتے ہیں
:ناروے(100فیصد)مالدیپ(99.3فیصد) نیوزی لیند(99فیصد) شمالی کوریا(99فیصد)
جاپان(99فیصد) جنوبی کوریا(97.9فیصد)
پرتکال(فیصد95.2)فیصد)پیراگوئے(94فیصد) ہانگ کانگ(93.5فیصد) سری
لنکا(92.8فیصد) ملائشیاء(92.1فیصد) انڈونیشیا(90.4فیصد) عراق(78,2) بھارت
(72.2فیصد) بھوٹان(64.9فیصد) نیپال (64.7) پاکستان(40.2فیصد) پاکستان کی
شرح خواندگی 1951سے 2014تک کی ہے اس پر مزیدتوجہ دے کراب پاکستان کی
خواندگی 58%ہوگئی ہے پاکستان میں مردوں کی شرح خواندگی 71%جبکہ29%ہے ۔شہری
علاقوں میں شرح خواندگی74%جبکہ دیہی علاقوں میں 49فیصدپنجاب میں شرح
خواندگی 61.77%ہے جس میں مرد 40.77%خواتین26.53فیصدہے کتنے سوچنے کی بات ہے
پاکستان میں آج بھی 56لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔پاکستان کا تعلیمی نظام
نیشنل ایجوکیشن انفارمیشن سسٹم کے اعداد شمار2013-14کے مطابق 2,60200درس
گاہیں ہیں جس میں 42928801طلباء اور1598334اساتذہ ہیں ملک میں
69فیصددرسگاہوں کا63%سٹوڈنٹس کا51%اساتذہ پبلک سیکٹرکے زیرانتظام ہیں ۔ملکی
درسگاہوں میں 57فیصدلڑکے اور43فیصدلڑکیاں زیرتعلیم ہیں اس رپورٹ کے مطابق
پاکستان میں 2.7%سکولوں کی عمارت نہیں 36%بجلی سے محروم ہیں 30%کو پانی کی
سہولت میسرنہیں30%بیت الخلاء نہیں 55.27%کی چاردیواری نہیں 81.21%اداروں
کومرمت کی ضرورت ہے ۔ایک حیران کن بات ہے کہ دنیا کے 194ملکوں میں پاکستان
کا 180نمبرہے اور14ممالک ایسے ہیں جن سے پاکستان کی شرح خواندگی قدرے
بہترہے ہمارے ملک میں جب تک غربت اور بے روزگاری ختم نہیں ہوگی شرح خواندگی
میں اضافہ نہیں ہوسکتا اسی لیے ہمارے حکمرانوں کو چاہیے پہلے اساتذہ پرسختی
کم کرے ۔یکساں نصاب تعلیم کو رائج کرنے کے فیصلے کو ہر شعبہ زندگی نے
سہرایا ہے۔ قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنانا ایک انقلابی قدم ہے
اورتبدیلی مالک وزیراعظم عمران خان کی کامیابی کی پہلی اینٹ ثابت ہوگی۔ اگر
اعلیٰ تعلیم تک ذریعہ تعلیم قومی زبان اردو اختیار کی گئی تو اس کے دور رس
نتائج برآمد ہوں گے اور ہم بہت جلد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں
شامل ہو جائیں گے۔ ہماری پسماندگی کی اصل وجہ انگریزی ذریعہ تعلیم ہی ہے
کیونکہ رٹے لگا کر بچے ڈگریاں حاصل کرلیتے ہیں لیکن اس نصاب کا دس فیصد بھی
سمجھ نہیں پاتے۔ قومی زبان میں پڑھنے کے نتیجے میں انہیں جو تعلیم دی جائی
گئی وہ اسے جذب کرلیں گے۔ ہمیں انگریزی زبان پر فوکس کرنے کے بجائے ذریعہ
تعلیم اردو قرار دیتے ہوئے چینی، ترکی، فارسی ، عربی اور مقامی زبان میں
مہارت کے لیے ہر جامعہ میں انتظام کرنا چاہیے۔ محترم قارئین یاددلاتاچلوں
حکومتیں اپنی اعلیٰ کارکردگی کے اشتہارات تو خوب دکھاتی ہے لیکن خواندگی کا
حال جو ہے اس میں کوئی فرق نہیں ڈال سکی۔ غربت ہے جس میں اضافہ ہو رہا ہے
ملک کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔پاکستان میں ناخواندگی
اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے جتنی بتائی جاتی ہے۔اول ایک بہت بڑی تعداد سکول
میں داخلہ نہیں لیتے ،دوم اس سے زیادہ تعداد ان بچوں کی ہے جو اپنا تعلیمی
سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے یعنی ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ادھورا چھوڑنے کی بہت
سی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم غربت ہے،تیسراوہ جوایک سکول
چھوڑکردوسراپھرتیسراسکول بدلتے رہتے ہیں چوتھاکرونانے تعلیم کے دوسال ضائع
کردیئے جس وجہ سے کوئی بچوں کوپاس کرناپڑاجس کا آنے والے وقت میں خمازہ
بھگتناپڑے گا،اس وقت تک شرح خواندگی میں اضافہ ممکن نہیں جب تک ملک سے بے
روزگاری و غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاتا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک
میں اس وقت شرح خواندگی ستاون فیصد ہے۔ مردوں میں یہ شرح انہتر جبکہ خواتین
میں پینتالیس فیصد ہے۔وستر سالوں بعد قوم کو یہ خوش خبری سننے کو ملی ہے کہ
ملک میں طبقاتی نظام تعلیم کو بدل کر یکساں نظام تعلیم رائج کیا جارہا ہے۔
یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے ، جس پر وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف بجا
طور پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ تعلیم مقصد سے زیادہ تجارت بنا دی گئی ہے
اور غیر ملکی تعلیمی نیٹ ورک اضلاع کی سطح تک اپنی برانچیں قائم کرچکے ہیں۔
جو تعلیم کے نام پر اربوں روپے ماہانہ بٹورتے ہیں اور ہماری تہذیبی اقدار
کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں انتہائی
بنیادی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بچے ہی قوموں کا مستقبل ہیں۔ ان کی
تعلیم و تربیت اسی مقصد کے تحت کی جاتی ہے۔ اس پر قومیں بہت توجہ بھی دیتی
ہیں۔ لیکن آج کی تعلیم اور تعلیمی نظا م تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ہم پڑھے لکھے ان پڑھ پیدا کر رہے ہیں۔ ہم انسان کو ایک اچھا و ذمہ دارشہری
بنانے کے بجائے اسے کمائی کی مشین بنا رہے ہیں۔ ہم تعلیم کو تجارتی مقصد کے
تحت ہی دیکھتے ہیں۔ زیادہ تر یہی دیکھا جاتا ہے کہ کمائی کس شعبہ میں زیادہ
ہے۔ لاتعداد لوگ ایسے ہیں کہ جو پڑھے لکھے بے روزگاروں کو دیکھ کر بچوں کو
سکول جانے سے روک دیتے ہیں۔ یہ جواز بیان کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں گریجویٹ،
ماسٹرز ، ڈگریاں رکھتا ہے۔ ڈگریاں ہاتھ میں اٹھائے سڑکیں ماپ رہا ہے۔ نوکری
نہیں ملی۔ اس لئے پڑھائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وقت
ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بچے کوحوش سنبھالنے پر کسی ہنر یا کام پر لگا دیا
جائے۔یہ اس طبقہ کا تعلیم سے اظہار ناراضی ہے۔ غم و غصہ کا اظہار
ہے۔جوریاست کی ذمہ داری ہے اس لیے حکومت سے التماس ہے غربت بے روزگاری ختم
کرنے کے اقدامات کریں جس سے یقیناً شرح خواندگی کے 100فیصدنتائج حاصل ہونگے۔
حیرت ہے تعلیم وترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز اقراء سے ہوا تھا
|