پاکستان کے معاشرے پے ایک نظر

قوموں کے اندر جب بہت بڑے واقعات ہوں تو ان کا اثر صدیوں تک رہتا ہے اس خطے کا سب سے بڑا واقعہ مذہبی نفرت کا پیدا ہونا تھا اور اسی نفرت کے سبب اس خطے کے لوگوں نے اپنے گھر چھوڑے وہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا بحرحال! معاشرہ انسانوں سے بنتا ہے اور انسانوں کا بدلتا رویہ معاشرے کو تبدیل کر دیتا ہے اس خطے میں جہاں ہم رہتے ہیں جہاں آج پاکستان قائم ہے، 1947 کے بعد اس خطے میں بڑی تبدیلی آئی کیونکہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اس خطے میں ہوئی تھی۔ 1947 کے بعد حالات بلکل بدل گئےجو لوگ یہاں صدیوں سے آباد تھے انہوں نے اپنے گھر چھوڑے اتنی بڑی تعداد میں ہجرت ہونے کی وجہ سے خطے میں خطرناک حالات پیدا ہو گئے ۔ کسی بھی معاشرے میں جب اتنے سارے لوگ ہجرت کرکہ آباد ہوجائیں اور مقامی لوگ چلے جائیں تو معاشرہ تبدیل ہوجاتا ہے ظاہر ہے کہ پاکستان میں پہلے جو لوگ آباد تھے ان کا معاشرہ ان کی سوچ الگ تھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس خطے میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد تھے 1947 کے بعد اس خطے میں اکثریت مسلمانوں کی ہوگئی۔اور باقی مذاہب کے لوگوں کی آبادی میں اچانک بہت کمی آ گئی ایک حقیقت ہے کہ وہ کرڑوں لوگ جو ہندوستان سے پاکستان آئے تھے ان کی اکثریت میں مذہبی جذبات زیادہ پائے جاتے تھے اور ان لوگوں کا سیاسی پارٹی کی طرف سے یہ ذہن بنا دیا دیا گیا تھا کہ پاکستان مدینہ کی طرز پے بنایا جائے گا وہ مسلمان بھائی جو ہندوستان سے آئے تھے اوہ اپنے اندر ایک مذہبی جذبہ ساتھ لائے تھے، جو مسلمان ہندوستان سے ہجرت کر کہ آئے تھے ان کا یہاں کے مسلمانوں سے الگ کلچر تھا۔ پاکستان میں 1947 سے پہلے کا معاشرہ اور کلچربہت مختلف تھا جو کہ پاکستان بننے کے بعد ایک دم سے تبدیل ہوگیا ۔ ( میرا مقصد کسی خاص کمیونٹی کو ٹارگٹ کرنا نہیں ہے ، آج ہم سب پاکستانی ہیں ، میرا مقصد پاکستان کے معاشرے پے بات کرنا ہے اور تاریخی طور پر اس خطے میں مسلمانوں کی ہجرت نے پاکستانی معاشرے میں اہم تبدیل رونما کی، پاکستان کے معاشرے پے بات کی جائے اور ہجرت کا ذکر نا کیا جائے تو بات مکمل نہیں ہو سکے گی)۔ 1930 کے بعد یہاں کہ حالات تبدیل ہونا شروع ہوگئے اور معاشرہ تبدیل ہوتا گیا محبت کی جگہ نفرت آگئی ، انسان کی خوبی کو مذہب کی آنکھ سے دیکھنا شروع کر دیا گیا انسان چاہے کتنا بھی اچھا ہو یا برا پر مذہبی شناخت نے اس کی تقدیر کا فیصلا کرنا تھا اور یہ آگ اتنی بڑھک گئی کہ جو کہ آج بھی قائم ہے۔ 2 کروڑ لوگوں نے ہجرت کی جس میں سے 20 سے 50 لاکھ لوگ یا تو مارے گئے یا بے گھر ہوئے اور اس میں بہت ساری خواتین کے ساتھ زیادتی بھی گئی ، لوگوں کو لوٹ لیا گیا لاکھوں افراد جو بے قصور تھے جن کا مقصد محض اپنی عزت بچانا تھا ان کے ساتھ ظلم کیا گیا، اور یہ ظلم دونوں اطراف سے ہوتا چلا گیا۔ انسانی تاریخ میں جہاں یہ ہجرت سب سے بڑی ہجرت تھی وہاں یہ بھی ایک تاریخ ہے کہ اتنی تعداد میں پہلے کبھی اتنے لوگ بے گھر نہیں ہوئے۔ برصغیر پاک و ہند میں ہونے والے اس عظیم بحران نے نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں اس مذہبی فرق اور تعصب نے معاشرے کو ہمیشہ کے لیئے بدل دیا ہے اس کی وجہ سے لوگوں کا مجموعی رویہ ہمیشہ کے لئے بدل گیا ،یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ہجرت پر امن بھی ممکن ہو سکتی تھی پر ایسا نہیں کیا گیا بحرحال! برصغیر پاک و ہند میں 1930 سے 1947 تک ایسے واقعات ہوئے جس نے اس خطے کی تہذیب کو بری طرح متاثر کیا معاشرے کا اتنی جلدی تبدیل ہونا بہت بڑی تباہی لاتا ہے۔ پاک و ہند کے معاشرے کو ان واقعات نے بہت بدل دیا ہے۔ آج بھی پاک و ہند میں بہت سارے مسائل کا اصل سبب وہی واقعات ہیں جو 1930 سے 1947 کے بیچ میں ہوئے تھے جس میں سوائے نفرت اور انتقام کی آگ کے سوا کچھ نہیں تھا پاکستان میں آج بھی ماضی کے واقعات کا اثر موجود ہے اور معاشرے کے اندر بہت بڑی اصلاح کی ضرورت ہے۔

پاکستان نے اپنی آزادی کے بعد بہت سارے مسائل کا سامنا کیا یہاں کا معاشرہ ایک بہت بڑی تبدیلی سے گذر رہا تھا لوگوں کے اندر مختلف قسم کی بیچنی تھی معاشرے میں افراتفری کا غلبہ تھا اس وقت نوجوانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ کم پڑ گیا تھا کیونکہ خطے کی سیاست نے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کیا ہوا تھا۔ پاکستان کیونکہ نیا نیا بنا تھا تو ہر ادارے میں افراتفری تھی اور غیر یقینی کی صورتحال پائی جاتی تھی سیاسی لیڈر بھی بہت سارے دوسرے مسئلوں میں الجھے ہوئے تھے اور شعور اور تعلیم کے بارے میں سنجدیگی کم ہی تھی۔ اگر ہم 1947 سے 1960 تک دیکھیں تو پاکستان میں سیاسی میدان میں اتنی افراتفری رہی کہ نوجوانوں کی تعلیم کی طرف کم ہی توجہ رہی۔1947 سے پہلے جو مذہبی جنون پایا جاتا تھا وہ پاکستان بننے کے بعد بھی اسی طرح لوگوں کے اندر جاری رہا اور پھر سیاستدانوں نے بھی اس جنون کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور کافی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اکثریت لوگوں کی مغربی اور سائنسی تعلیم حاصل کرنے کو برا سمجھتی تھی جبکہ دنیا اس طرف ہی جارہی تھی پر پاکستان میں نوجوان نسل سیاسی جلسوں میں جذباتی نعرے لگانے میں دلچسپی لے رہے تھے۔ پاکستان کے معاشرے میں سیاسی افراتفری نے بہت اثر چھوڑا ہے پاکستان میں 1947 سے لیکہ آج تک لوگوں کی اکثریت کو سیاسی معملات اور اپنے حقوق کے بارے میں جاننے میں دلچسپی ہی نہیں رہی اور وہ محض جلسوں میں جذباتی نعرے لگاتے رہے ہیں۔ معاشرے پر ملکی حکومتوں کے اقدامات کا بہت گہرا اثر رہا ہے اگر حکومت سنجیدہ نہیں تو معاشرہ بھی غیر سنجیدہ ہو جاتا ہے، اگر حکومت مذہبی جنون کو فروغ دے رہی ہو تو ضرور معاشرے میں ایسے لوگو پیدا ہونگے جو مذہبی جنون کے حامل لوگ ہونگے، اگر حکومت لوگوں کو حقائق سے دور رکھی گی تو ضرور ملک میں رہنے والوں کی اکثریت دوکھے میں مبتلا رہے گی۔ حکومت کی ترجیحات کا بھی معاشرے پے اثر ہوتا ہے، اگر حکومت معاشرے میں اخلاقیات کو نظر انداز کرے گی تو معاشرے میں اکثریت لوگوں کی بداخلاقی میں مبتلا ہوتی چلی جائگی۔ پاکستان میں بھی 1947 کے بعد یہی ہوتا رہا ہے حکومتی سطح پے لوگوں کو شعور کی آگاہی کے لئے کچھ نہیں کیا گیا بلکہ لوگوں کو ایک تصوراتی جنون میں مبتلا کیا گیا ہے پاکستان میں اکثریت ان لوگوں پے مشتمل ہے جن کو تعلیم، شعور، معشیت، سیاسی اور سماجی مسئلوں سے کوئی دلچسپی نہیں ان کی نظر میں صحیح اور حقیقت وہی ہے جو ان کا سیاسی لیڈر کہہ رہا ہے۔ پاکستان میں 1947 سے جو سیاسی بحران رہا ہے اس نے پاکستانی معاشرے میں بہت اثر چھوڑا ہے اور معاشرے کو بہت سارے دھڑو میں تقسیم کر دیا ہے ۔

پاکستان بننے سے لیکہ آج تک ایسی کوئی حکومت ہی نہیں بنی جس نے واقعی لوگوں کا سوچا ہو اور لوگوں کو صحیح آگاہی دی ہو بلکہ لوگوں کو مذہبی جنون میں مبتلا کرکہ ان کو تقسیم کر کہ اپنے مفادات حاصل کئے گئے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں مذہب کی بڑی اہمیت ہے لوگوں کا اپنے مذہب سے جذباتی رشتہ ہوتا ہے اور یہاں کہ لوگ مذہب کے نام پے استعمال بھی ہوئے ہیں اور ہوتے جارہے ہیں اس کی ایک خاص وجہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان بننے کے وقت جو لوگ پاکستان سے وابستہ تھے انہوں نے ایسی جذباتی فضا بنا دی تھی کہ اسلام اور پاکستان ایک ہی بات ہے اور وہ چیز ابھی تک لوگوں کے دلوں میں موجود ہے پر ستم یہ ہوا ہے کہ اس خطے کی عوام اور حکمران طبقے میں ایک فاصلہ رہا۔ حکمرانوں نے ہمیشہ اپنی ذاتی رائے یا خاص مقصد کو حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو دھوکے میں رکھا اور اس کا مقصد یہ رہا کہ حقائق کو چھپا کہ عوامی حمایت حاصل کی جائے۔سیاسی پارٹیوں نے محروم طبقے کے لوگوں کو دلاسہ دے کہ اپنے جلسوں کو کامیاب بناتے رہے ہیں پر لوگوں کی محرومیاں وقت کے ساتھ بڑھتی رہی ہیں معاشی حالات انسان کے خیالات اور سوچ پے اثر چھوڑتی ہیں پھر معاشرے میں بے بناہ مشکلات اور مسائل جنم لیتے ہیں۔1947 سے آج تک قابل ذکر معاشرہ پاکستان میں نہیں بن پایا حلانکہ یہ ملک اسلام کے نام پے بنا تھا اور پاکستان میں رہنے والے ٪95 لوگ مسلمان ہیں اسلام میں اخلاقیات اور معاشرے میں برادشت پے بہت زور دیا گیا ہے پر یہ دونوں چیزیں آج تک پاکستان میں پیدا نہیں ہوسکیں۔ پاکستان کے معاشرے میں لوگوں کو مذہب کی ایک خاص قسم کی تعبیر بتائی گئی ہے جو کہ مختلف ہے اور اس میں جنون پایا جاتا ہے اور اس سارے عمل میں ماضی کی حکومتیں ملوث رہی ہیں اور اسی پیدا کردہ سوچ نے آج زور پکڑا ہوا ہے اور لوگ گستاخی کا الظام دے کہ سڑکوں پے خود ہی فیصلہ کر کہ لوگوں کو مار رہے ہیں بدقستمی سے پاکستان کے حکمران اپنی عوام کو کبھی بھی صحیح تصویر پیش نہ کر سکے اور نہ ہی انہیں حقائق سے آگاہی دی بلکہ الٹا ہمیشہ یہی کوشش کی گئی کہ اصل کیفیت اور مقصد چھپائے جائیں اور لوگوں کو دھوکے میں رکھا جائے۔اب حکومتوں نے جو سوچ پیدا کر دی ہے اس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت سائنسی علوم سے دور جارہی ہے اور ایک جنونی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اس کی اچھی مثال حال ہی میں ہونے والے پرتشدد احتجاج تھے جو کہ پورے ملک کہ اندر کئے گئے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اس احتجاج میں شرکت کی اب سوال یہ ہے کہ اسلامی ملک میں اور جو ملک اسلام کے نام پے بنا اور جہاں کی ٪95 آبادی مسلمانوں پے مشتمل ہو اور جہاں ایک صدر، وزیر اعظم ، آرمی چیف، مسلمان ہوں وہاں نعوذ باللہ ختم نبوت کو خطرہ ہو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ کروڑوں لوگ جن کے اندر جنون اور جذبا موجود ہے اور جو سمجھ سے باہر ہے اور یہ لوگ عقل کی بجائے جذبات سے کام لیتے ہیں یہ جذبہ یہ جنون کیا خود ہی پیدا ہوتا چلا گیا ؟نہیں!! بلکہ حکومتوں نے یہ جنونی سوچ پیدا کی ہے اس مسئلے پے عزیز صاحب کی ایک کتاب ہے ” تاریخ کا قتل” وہ لوگوں کو پڑھنی چاہئے کہ کیسے حکومتوں نے لوگوں کو مسخ شدہ اور اپنی مرضی کی تاریخ پیش کی ہے۔اب ہوا یہ ہے کہ اکثریت لوگوں کی صحیح علم حاصل کرنی کی خواہش بھی نہیں رکھتی بلکہ پاکستان میں کتاب گھر اکثر خالی ہی رہتے ہیں جبکہ معاشرے کے اندر تعلیم کاحصول محض اچھی نوکری حاصل کرنا ہے۔ ہر سال کالجز اور یونیورسٹیز سے لاکھوں نوجوان ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اور اچھی ملازمتیں بھی حاصل کی جارہی ہیں پر معاشرے میں اخلاقیات ختم ہوتی جارہی ہیں برداشت ختم ہوتا جارہا ہے ہم جسے اختلاف رکھتے ہیں اسے جینا حق بھی نہیں دیتے اختلاف کرنا گو دشمنی ہوگئی
پاکستان کے معاشرے میں وہ لوگ بھی ہیں جو کہ بہت بڑی آبادی پر مشتمل ہیں ان میں پان سیگریٹ بیچنے والے ، فروٹ والے، فیکٹریوں اور بڑے بڑے پروجیکٹس میں لیبر کہ طور پر کام کرنے والے ، رکشہ چلانے والے، دکاندار، مختلف گھروں میں کام کرنے والے ، مطلب وہ طبقہ جس کو سوا اپنے چھوٹے سے کاروبار کے علاوہ کچھ پتا نہیں ہوتا جو روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے لوگ ہیں انہیں سیاست ، سیاستدان آفیسرز سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ ان کی اپنی ہی سوچ ہوتی ہے اور وہ سیاست اور ملکی معملات کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں یہ معاشرے کے اہم افراد ہیں پر ان کا ماننا ہے کہ ہماری زندگی اس معاشرے کا حصہ نہیں اور ایسے لوگ اپنے آپ سے ہوئی ناجائزی پے بھی خاموش رہتے ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ ہم معاشرے کو تبدیل نہیں کر سکتے تو کیوںکہ ان کے خیال میں ہم دو وقت کی روٹی حاصل کر پاتے ہیں یہی بہت ہے پر سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ایسے لوگوں کو سبز باغ دکھا کہ اپنے جلسوں میں لیکے جاتے ہیں یا بریانی کی پلیٹ کا کہہ کہ انہیں اپنے جلسوں میں لایا جاتا ہے سیاسی پارٹیوں کو ایسے افراد کو استعمال کرنا خوب آتا ہے وہ انہیں اپنی مخالف پارٹی پے پریشر ڈالوانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔اور کیونکہ یہ لوگ اپنی زندگی میں اور دو وقت کی روٹی کے حصول میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں کسی مذہبی یا سماجی مسئلے کا علم نہیں ہوتا اور وہ تعلیم بھی حاصل نہیں کر پاتے اور نہ اپنی اوالد کو تعلیم دلوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں پر کچھ مذہب کے ٹھیکدار یہ کہہ ان سے کام لیتے ہیں کہ تمہارا مذہب خطرے میں ہے اور یہ سادہ لوگ اسے سچ مان لیتے ہیں اور جلدی جذباتی اور جنونی ردعمل دینے لگتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں کسانوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا آرہا ہے کیونکہ کسان کا تعلق اکثر جاگیردار سے ہوتا ہے اور سیاست عمومن جاگیرداروں کے یہاں رہی ہے اور یہ جاگیردار عمومن بنیاد پرست ہوتے ہیں کیونکہ وہ بہت سارے علوم حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں اور اپنی دولت کے نشے میں ہی زندگی گذارتے ہیں کسان ہمیشہ اپنے جاگیردا ر کے ماتحت رہتے ہیں اور انہیں اپنی مرضی یا اپنے حق استعمال کرنے کا حق نہیں ہوتا ۔

حکومت اور اسے وابستہ لوگوں نے پاکستانی معاشرے کو بہت زیادہ تقسیم کر دیا ہے ہر حکومت آمریکا اور مغربی ممالک کو اسلام دشمن مسلمان دشمن بھی کہتی ہے پر قرضے بھی ان ہی مملاک سے لیتی ہے جبکہ پاکستانی سیاستدان بند کمروں میں آمریکی لوگوں کی خوشامد کرتے ہیں پر باہر آکہ آمریکا کو گالیاں بھی دیتے ہیں کہنے کو تو پاکستانی معاشرہ اسلامی ہے پر یہاں ہر وہ کام ہوتا ہے جسے اسلام کا دور سے بھی کوئی تعلق نہیں آپ قانون سازی کریں یا قانون کے حوالے سے ریفنڈرم کروائیں کہ عام لوگ کون سا آئین چاہتے ہیں سیکیولر ، یا مذہبی ۔ پاکستان میں رہنے والے کرڑوں لوگوں کا رویہ پاکستان کے اسلامی آئین کے الٹ ہے یہ تضاد حکومتی سطح پے ہی حل ہوسکتا تھا اور یہ کام وقت کی حکومتوں کا ہے کہ وہ آئین ایسا بنائیں یا آئین کی ایسی تشریح کریں کہ جو معاشرے کے اندر نظر آئے پر حکومتوں نے کبھی اس معملے پے سنجیدگی نہیں دکھائی اور نتیجے میں پاکستان میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کا رہن سہن رویہ پاکستان کے آئین کے الٹ ہے یا تو حکومت کو چاہیئے کہ ایسا کچھ کریں کہ یہ تضاد ختم ہو یا اس مسئلے پے بحث ہو اور اس میں عوام کی رائے بھی شامل کی جائے اور پھر فیصلہ کیا جائے کیونکہ اس تضاد نے معاشرے کو تقسیم کر دیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور تیز انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے انقلاب کے بعد لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آئی ہے پہلے پاکستانی معاشرے میں ٹی وی، کیمرہ اور موبائل فون کے حوالے سے جو تصور تھا وہ عیاشی اور حرام سمجھے جاتے تھے جبکہ کیبل ٹی وی تو بے حیائی کی آخری سطح سمجھی جاتی تھی پر پھر بھی وقت کا سفر جاری رہا اور انٹرنیٹ عام ہوتا چلا گیا اور پھر سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کا دور آنے لگا ان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ٹی وی اور کیبل کے ساتھ ہوا تھا بعض حلقوں نے انہیں بھی حرام کرار دیا پر پھر بھی آخرکار پاکستانی معاشرے میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اپنی جگہ بنا ہی لی ۔پھر ایک وقت ایسا آیا کہ سوشل میڈیا میں کچھ شرپند عناصر نے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جو کہ ایک گھٹیا ترین عمل تھا جو کہ عالمی قانون کے بھی خلاف تھا کیونکہ اقوام متحدہ میں انسانی بنیادی حقوق کہ چارٹر میں یہ بھی ہے کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کے مذہب کی توہین کرے اور یہ ایک جرم ہے بحرحال! مسلمانوں کا احتجاج فطری عمل تھا اور ہونا بھی چایئے تھا پر جذبے اور جنون کی انتہا یہاں تک پہنچی کہ اپنے ہی لوگوں کی جائدادوں کو جلا دیا گیا اور نتیجے میں پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کا اربوں روپے کا نقصان ہوا اور جن کا نقصان ہوا وہ بھی مسلمان اور حضور ﷺ کے امتی اور جو نقصان دے رہا تھا وہ بھی یہی تھا پھر یوٹیوب بند کر دیا گیا اور کئی سال تک بند رہا ، میں سمجھتا ہوں کہ مسلم قوم کو یہ آواز اقوام متحدہ میں اٹھانی چایئے تھی اور وہاں احتجاج کرتے اور وہاں انکے احتجاج کی اہمیت بھی بڑھتی بجائے اس کے اپنے ہی لوگوں کو نقصان پہنچایا جائے ۔ اب اس سارے مسئلے میں ہوا یہ کہ جو حلقا یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا کو پہلے ہی حرام دے چکا تھا اب ان کی دلیل پختہ ہوگئی بحرحال! وقت کے ساتھ ساتھ یوٹیوب بھی پاکستان میں دوبارہ بحال ہوگیا اور دیکھتے دیکھتے وہی لوگ اسے استعمال کرنے لگے جو اس کو حرام سمجھتے تھے اور پاکستان کے بڑے بڑے علما کے نام سے یوٹیوب چینل بنے اور انہیں یوٹیوب کی طرف سے ایورڈ بٹن بھی دیا گیا اب یہاں تضاد پیدا ہوتا ہے جو کہ معاشرے کو تقسیم کرتا ہے پہلے وہی لوگ جو سوشل میڈیا کے خلاف روڈوں پے آئے ہوئے تھے اب خود اسی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے پیسے بھی کما رہے ہیں اور ایورڈ بھی لئے جارہے ہیں اب یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کام کرے اور معاشرے میں بیلنس پیدا کرے۔اور یہی رویہ فرانس کے حوالے سے اپنا گیا جبکہ مسئلے کا حل یہ تھا اسے تیکینیکل طور پر دیکھا جاتا اور اسے اقوام متحدہ میں اٹھایا جاتا جس کا اصل نتیجہ ہی وہاں نکلنا تھا پر ہم نے دیکھا کہ پاکستانی معاشرے کے اندر اسے کس انداز میں پیش کیا گیا اور کس طرح پاکستان جذبات اور جنون کی آگ میں تیرتا چلا گیا ایک بات سمجھنی چاہیئے کہ نبی کریم ﷺ اللہ کے بنی تھے اور دنیا میں آخری نبی کے طور پر آئے ان کی ساری زندگی میں اخلاقیات ،برداشت ، انسانوں سے محبت اور رواداری کا سبق ملتا ہے اور بنی کریم ﷺ کے عاشق محض پاکستان میں نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا کے اندر موجود ہیں پاکستان کی آبادی 22 سے 25 کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے جبکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی تعداد 2 ارب پے مشتمل ہے ۔ پاکستان کی حکومت کو چایئے تھا کہ وہ اس مسئلے کو سعودی عرب ، ترکی اور باقی مسلم ممالک کے ساتھ اقوام متحدہ میں پیش کرتی اور اس کا ضرور اثر پڑتا فرانس پے۔ پر ہوا یوں کہ پاکستان میں جنون اورجذبات کو فروغ ملتا گیا اور معملے کو جو کہ مسلمانوں کے حق میں تھا اسے اپنے خلاف کردیا دنیا نے دیکھا کہ باقی مسلم ممالک میں ایسا نہیں ہوا حلانکہ سعودی عرب تو حضور ﷺ کا دیس ہے پر وہاں ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دئیے گئے جبکہ اگر پاکستان اور سعودی عرب کے حوالے سے بات کی جائے تو جس موقوف کو سعودی عرب اٹھانا چاہے تو اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ تیل کی تجارت کے حوالے سے سعودی عرب آمریکا سمیت مغربی ممالک کی مجبوری ہے سعودی عر ب اگر کسی مسئلے پے دبائو پیدا کرے تو اس کے نتائج جلدی نکل سکتے ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ ایسا نہیں ہوا سعودی عرب نے اس مسئلے کو پاکستان کے مقابلے میں مختلف طرز عمل اپنایا جب پاکستان سعودی عرب کے ساتھ عید کر سکتا ہے تو وہ کسی بھی مسئلے کو سعودی عرب کی طرح بھی تو حل کر سکتا ہے پر پاکستان کی حکومت نے ایسا نہیں کیا اس نے معاشرے کو انتہا پسندی کے رحم و کرم پے چھوڑ دیا اور اس کی ایک تاریخ ہے جو کہ 1947 سے شروع ہوتی ہے۔بدقسمتی سے ماضی کی حکومتوں نے ان عناصر کو فروغ دیا ہے جو معاشرے میں جنون اور جذبات کو خطرناک حد تک لے کہ جانا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں آج بھی بہت بڑے بڑے مسائل ہیں جس میں بے روزگاری، صحت، ناقص صفائی، تعلیم کے مسائل ، حکومتوں نے کبھی ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی ظاہر نہیں کی بلکہ ہمیشہ لوگوں کو ایک خیالی دنیا میں رکھا جس میں جنگ کرنا، قوموں کو فتح کرنا، طاقت کا اظہار کرنا اور خیالی ہیروز پیدا کرنا وغیرہ شامل ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں تقریبن ہر پڑھا لکھا انسان باہر جانے کا خواہش مند ہے کیونکہ کہ حکومتوں کی سرپرستی میں پیدا ہونے والا معاشرہ اتنا بگڑ ہوچکا ہے کہ معاشرے میں غیر یقینی کئ صورتحال ہے اور انسان چاہتا ہے کہ وہ کسی دوسرے معاشرے میں زندگی بسر کرے۔دنیا بدل رہی ہے قوموں کے رویے تبدیل ہورہے ہیں انسانی حقوق کی بات کی جارہی ہے نئے نئے قانون بنائے جارہے ہیں جس میں انسانیت کا فائدہ ہو۔ ٹیکنالوجی ہر آئے دن بڑھتی جارہی ہے مطلب باقی دنیا انسان اور انسایت کے فروغ کی بات کر رہی ہے اور پاکستانی معاشرے میں علی رضہ اور معاویہ میں سے کون افضل تھا اس پے بات ہورہی ہے لوگ اس بات پے لڑ رہے ہیں۔ دنیا کے کسی قانون میں یہ نہیں لکھا کہ لوگ اپنا مذہب چھوڑیں یا اس پے عمل نہ کریں بلکہ اقوم متحدہ میں لوگوں کے مذاہب کو قانونی تحافظ دیا گیا ہے تا کہ لوگ اپنے مذہب کا تحافظ بھی کریں اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔

اب پاکستان میں الٹا ہوا ہے حکومتوں نے کبھی اس پے غور ہی نہیں کیا کہ پاکستانی قوم کو کیسے اخلاقیات کا پابند کیا جائے اور کیسے پاکستان کو صنعتی شعبے میں بلندیوں تک پہنچایا جائے تاکہ پاکستانی اپنی بنائی چیزیں استعمال کریں اور ایکسپورٹ بھی کریں بلکہ قوم کو ایک خیالی دنیا میں رکھا گیا ہے جس میں ارتغزل کی طرح ایک ملک دوسرے ملک فتح کرے گا اور وہ بھی گھوڑوں اور تلواروں کے ساتھ جبکہ دنیا ڈرون ھتیاروں کی دوڑ میں ہے جس میں آپ پے بیٹھے بیٹھے میزائل گرایا جائے گا ور آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا اور اس ساری سوچ اور ذہن کو بنانے میں حکومتی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں لوگوں میں ڈپریشن بڑھتا جارہا ہے اور اس کی وجہ بھی معاشرہ ہے جو کہ ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اس کے اندر تقسیم ہے اور اس میں انسانی جذبات، احساس، عزت نفس، کو روند دیا جاتا ہے اور وہ بھی مذہب کے نام پے۔ اسی خیالی دنیا کو پیدا کرنے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ پاکستانی قوم بد ترین معاشی صورتحال سے دوچار ہے اور حکومتی منافقت کا یہ عالم ہے کہ اس بحرانوں کو حل کرنے کی بجائے لباس، کلچر پے بحث کی جارہی ہے اور اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ ان ممالک سے قرضے لئے ہوئے ہیں جن کو صبح شام گالیاں دی جاتی ہیں ۔ پاکستان پے مجموعی قرض 162 ارب ڈالر ز ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی سے بہت بہت زیادہ ہے۔ جبکہ فرانس اور پاکستان کے تعلقات اور باہمی تعاون کی تاریخ بھی پرانی ہے فرانس پاکستان کو دفاع سمیت ہر شعبے میں مدد کرتا آیا ہے اور بین القوامی طور پر پاکستان فرانس کے تعلیم، دفاع ، صحت اور کلچر پر بہت سارے معاہدے ہوئے پڑے ہیں فرانس نے پاکستان کو کچھ ماہ قبل ہی 65 میلین یورز کا قرض دیا ہے اب یہ حقیقت ہے جبکہ پاکستانی سیاستدان عوام میں مذہبی تعاصب اور جنونی نعرے لگواتے ہیں جبکہ بدقسمتی سے پاکستان چل ہی بیرونی قرضوں پر رہا ہے، حکومت نے ہمیشہ پاکستانی معاشرے میں رہنے والے کرڑوں لوگوں کو مذہب کی تشریح جنون اور جذبات کے پس منظر میں کی ہے اور لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا تے آرہے ہیں لوگوں کو ہمیشہ مذہب کے نام پے الو بنایا گیا ہے مثال کے طور پر پاکستان اور اسرائیل کا جو مسئلا ہے اسے پاکستانی سیاستدان مذہبی مسئلا سمجھتے ہیں اور عوام کے سامنے اسرائیل کو لے کہ جنونی اور جذباتی تقریریں کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف آمریکی اداروں میں موجود یہودیوں سے تجارتی معاہدے بھی کرتے ہیں اور قرضے بھی لئے جاتے ہیں ۔ یہی مسئلا افغان جہاد کے دور میں شروع ہوا پاکستان میں تاثر پیدا کیا گیا کہ ہم اس جنگ میں اس لئے شامل ہوئے ہیں کیونکہ روس میں رہنے والے ملحد لوگ ہیں اور روس کا سرکار ی طور پر کوئی مذہب نہیں اور وہ ملحد ہیں جبکہ آمریکہ کی اس لئے مدد کی گئی کیونکہ آمریکی عیسائی ہیں اور اہل کتاب بھی ہیں۔ لیکن جب چین سے تجارت کا معملا ہوتا ہے اور تقریبن پورا ملک چینویوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے تو وہاں یہ چیز سامنے نہیں لائی جاتی حلانکہ چین بھی سرکاری طور پر ملحد ملک ہے۔ ممالک معاہدے کرتے ہیں اور ترقی کے لئے کرنے بھی چاہئیں پر حکومت منافقت کی بجائے اپنی قوم کو آگاہ کرے تاکہ معاشرہ تقسیم ہونے سے بچ جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں غیر ضروری باتوں پے بحث ہوتی ہے اور میڈیا بھی اس میں کردار ادا کرتا ہے مثال کے طور پر ٹک ٹاک پے کبھی بابندی لاگائی جاتی ہے تو کبھی بحال کیا جاتا ہے حلانکہ یہ کوئی اتنا بڑا اشو نہیں ہے جس پے اتنی بات ہو اور ملکی عدالتیں اس میں کردار ادا کریں پاکستان کے اندر اسے بہت بڑے بڑے مسائل ہیں جن سے ٹمٹنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پیمرا کا بھی یہی طرز عمل رہتا ہے کہ ہر آئے دن کسی نہ کسی فلم، ٹی،وی کمرشل، یا کسی ویب سائیٹ کو پاکستان میں بلاک کر دیا جاتا ہے حلانکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ انٹرنیٹ وہ جن ہے جسے آپ بوتل میں واپس نہیں لاسکتے آپ جو چیز ایک جگہ سے بلاک کریں گے وہ چیز دیکھنے والا کسی اور سائیٹ پے دیکھ لے گا تو کیا ضرورت ہے کہ ایسا فضول عمل کیا جائے جس میں پاکستان کو ان ممالک میں شامل کیا جائے جہاں ہر بات پے چیزوں کو سنسر کیا جاتا ہے۔معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے میڈیا کو بھی کردار ادا کرنے پڑے گا 2014 سے 2021تک ملک کی میڈیا پی، ٹی ، آئی ن لیگ کے مسئلے کو ہی کوریج دیتا رہا ہے کبھی ان کے سیاسی انتقامی فیصلوں پے بات ہوتی ہے تو کبھی ان کے کیسز پے جبکہ پاکستان میں ہزاروں ایسے مسئلے موجود ہیں جنہیں کوریج دینے کی ضرورت ہے تاکہ مسائل سامنے آسکیں اور ان کو حل کیا جائے۔ جبکہ سیاسی قائدین اور کارکنان کا حال یہ ہے کہ ملک کی اہم ترین جگہ پارلیمینٹ میں ایک دوسرے سے کیمرہ کے سامنے لڑ رہے ہیں اور گالیاں دے رہیں ہیں ارکان پارلیمینٹ معاشرے کے اہم افراد ہوتے ہیں جب وہ اس سطح کا عمل کریں تو معاشرہ کیسے بہتر ہوسکتا ہے

پاکستانی معاشرے میں سیاسی بحران جو 2018 کے الیکشن کے بعد شروع ہوا ہے وہ اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا 2018 کے بعد سیاستدانوں نے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی تک لے کہ آئے ہیں نہ کوئی اخلاقیات رہی ہے اور نہ برداشت ملک کے سربراہ تقریروں میں وعدوں کے اشارے کر رہے ہیں کہ تم آو میں نہیں چھوڑا گا جب اتنی بڑی سطح کے لوگ اس طرح کی مقامی تھانے کی سیاست کریں گے تو معاشرے میں نفرت اور انتقام کی آگ تو بڑھے گی ۔

برٹش انڈیا کے بعد جو طاقت کا کاپلیکس پیدا ہوا وہ ہمیں پاکستان میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے لوگ عمومن کالے شیشے کروا کہ گاڑی گھما رہے ہوتے ہیں اور بعض گاڑیوں میں پولیس اور ایمبولینس جیسے سائرن بھی لگائے جاتے ہیں اور یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہم بڑے طاقتور لوگ ہیں جب کہ یہ ایک قسم کی ذہنی الجھن احساس محرومی اور بیماری ہے، اکثر لوگ ٹول ٹیکس کی جگہ اپنے ادارے کا کارڈ دیکھاتے ہیں بلکہ اس پے ٹک ٹاک بھی بنائے جاتے ہیں یہ بیمار معاشرے کی نشانی ہوتی ہے کہ لوگ توجہ حاصل کرنے کے کتنے بھوکے ہیں پاکستان میں یہ ایک بہت بڑا سنجیدہ مسئلا بن گیا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو طاقتور دکھا کہ خوش ہوتے ہیں شادیوں میں فائرنگ کرنا ، گاڑی میں تیز لائیٹس لگوانا اور پھر ہائے لائیٹس فل کر کہ گاڑی چلانا پھر سامنے آنے والی گاڑی کو بھلے کچھ نظر نہ آسکے یہ ایک قسم کی بیماری ہے جو کہ احساس محرومیت کی وجہ سے معاشرے میں عام ہوگئی ہے

پاکستانی معاشرے میں اگر کسی ادارے یا بینک میں کام پڑے تو لوگ تعلق تلاش کرتے ہیں کہ کہیں اس ادارے میں سفارش چل جائے حلانکہ کام کتنا بھی چھوٹا ہو بس لائین میں کھڑے ہونے کو بیعزتی سمجھا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے گھر میں ہی سرکاری سامان منگوا کہ وہیں بڑے صاحب کے دستخظ لئے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف لوگ کئی کئی مہینوں تک دفاتر کا چکر لگاتے ہیں اور سارا سار دن آفیسوں کے اندر لائینوں میں کھڑے رہتے ہیں

پاکستانی معاشرے میں شعور تعلیم اور سمجھ کا بہت بڑا بحران پیدا ہوگیا ہے اور ملک کی اکثریت ان لوگوں پے مشتمل ہے جو کہ سیاستدانوں کے دل لبھانے والے نعروں پے یقین کر کہ اسے سچ مان لیتی ہے پاکستان حکومت نے ہمیشہ پاکستانی قوم کو “اسلام خطرے میں ہے” والا مشہور نعرہ سنا کہ چپ کرا تی آئی ہے کیونکہ حکومتی سطح پے یہ بات مان لی گئی ہے کہ قوم کے سامنے اگر مذہب کو سامنے لائیں گے تو قوم کی معاشرے میں ناکام حکومت کی طرف توجہ نہیں جائے گی اور لوگ مذہب کو خیالی خطرے میں سمجھ کہ اس کا دفاع کرنے کی کوشش کریں گے اور کسی اصل مسئلے کی طرف توجہ ہی نہیں جائے گی جبکہ پاکستان کے اصل مسائل جس میں تباہ شدہ معشیت ، بے روزگاری، ناقص صفائی، بیماریاں، انسانی بنیادی حقوق کو روندنا، صحت، عوام کی اکثریت میں جنونی کیفیت کا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان کے مسائل تب تک حل نہیں ہونگے جب تک لوگ خیالی دنیا سے جاگ کہ حقیقی اور عملی دنیا میں نہیں آئیں گے اور پاکستانی مسلمانوں کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے ساتھ ترکی اور سعودی عرب بھی مسلمان ممالک ہیں اور 150 کروڑ مسلمان باقی دنیا میں بھی رہتے ہیں کیونکہ بعض دفعہ پاکستانی مسلمان اسلام کو محض پاکستان کا دین سمجھنے لگتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔

نبی کریم ﷺ نے صفائی کو ایمان کا اہم حصہ کرار دیا ہے جبکہ پاکستان میں اکثر جگہوں پے گندگی سمیت خراب پانی روڈوں پے نظر آتا ہے جبکہ قوم کا یہ حال ہے کہ اگر خوشقسمتی سے کہیں ڈسٹبن پڑا بھی ہو تو اس میں گند ڈالنے کی بجائے روڈ پے ہی گند پہنک دیا جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے مشکل وقت میں لوگوں کی مددکا حکم دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مشکل وقت میں لوگوں کے لئے آسانی پیدا کریں جبکہ ہم نے پاکستانی معاشر ے میں دیکھا کہ جب کورونا وبا آئی تو ماسک ، سینیٹائیزر ،اور دوسری ادویات کو بلیک پے بیچا گیا اور لاک ڈاون کے دوران گراسری ایٹمز کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔

ہمارے معاشرے میں مذہب کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جبکہ لڑکیوں کی ایک تو چھوٹی عمر میں شادیاں کی جاتی ہیں وہ بھی اکثر لڑکیوں سے پوچھا بھی نہیں جاتا جبکہ اسلام مذہب میں جبری شادی حرام ہے، اسلام میں برادریوں کا کوئی تصور نہیں پر پاکستانی معاشرے میں لوگ لڑکی کو مار دیں گے پر کسی دوسری قبیلے میں رشتہ نہیں کریں گے

معاشرے میں جب لوگوں کے اندر فرق کرنے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو اس کے سنگین نتائج نکلتے ہیں سیاستدانوں کی چالاکی اور منافقت کے باعث پاکستانی معاشرے میں سیاسی لیڈر ایک ہیروزم کی خیالی دنیا بنانے میں کامیاب رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال عمران خان ہے۔ عالمی نتظیموں کے سروے کہ مطابق پاکستان کبھی بھی ایسی صورتحال سے نہیں گزرا جس میں آج عمران حکومت میں گزر رہا ہے پاکستان اس وقت شدید ترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے آج کی حکومت اپنی ساری ناکامیوں کا ذمیوار ماضی کی حکومتوں کو کرار دے رہی ہے جبکہ عمران حکومت 3 بجیٹ پیش کر چکی ہے پر افسوس کے یہ 3 سال سیاسی اور ذاتی انتقام میں گزار دئے گئے۔ اگر یہ حکومت بحرانوں سے ٹمٹنے کے لئے کوششیں کرتی تو تو کچھ نہ کچھ نتائج سامنے آنے تھے پر ایسا نہیں ہوا عمران خود بھی ایک خیالی دنیا میں رہے اور کوشش کی کہ پوری قوم اس خیالی دنیا میں گم ہوجائیں ۔ عمران ایک ایسا لیڈر ثابت ہوا ہے جو نہ تو سیاست جانتا ہے اور نہ سفارتکاری کا اسے علم ہے بلکہ اچھی باتیں کرنا لوگوں کو اچھے خواب دکھانا اسے خوب آتا ہے کسی بھی منصوبے کو کیسے آگے لیکہ چلنا ہے یہ نہیں پتا عمران کی اصل شخصیت اس کے وزیر اعظم بننے کے بعد سامنے آگئی ہے جس میں انہوں خود اپنی ساری زندگی کے تجربے اور اپنے فلسفے اور اپنی کہی باتوں کا سفایا کر دیا ہے، وزیر اعظم کی ایک کرسی نے عمران جو کہ کسی دور میں عظیم انسانوں میں شمار ہوتے تھے ان کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا اور بہت سارے لوگ جو عمران کے بارے میں اچھی سوچ رکتھے تھے انہوں نے اپنی رائے بدل دی ہے بحرحال! اس بحران کے باوجود بھی عمران کے حامی لوگ اسے آج بھی ایک نجات دہندہ کے طور پر سمجھتے ہیں اور وہ عمران کو لیکہ ہیروزم والے فلسفے کا شکار ہوگئے ہیں جس میں ان کا ہیرو کچھ غلط کر ہی نہیں سکتا اور یہ ہیروزم کی خیالی دنیا انسان کو مفلوج بنا دیتی ہے ۔اور اس خیالی ہیروزم والے فلسفے نے پاکستانی معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا ہے آج بھی لوگ عمران کی انگریزی میں کی گئی تقریر کو سن کہ خوش ہوتے ہیں جبکہ انہیں سمجھ ایک لفظ بھی نہیں آتا کہ وہ اصل میں کہہ کیا رہا ہے اور سوشل میڈیا میں اس پے بحث کی جاتی ہے جو کہ محض ایک دوسرے کو گالیاں دینے پے مشتمل ہوتی ہے۔

پاکستانی معاشرہ انتہائی پستی میں چلا گیا ہے اخلاقیات مروت، رواداری معاشرے میں ختم ہو چکی ہے ۔ حکومتی عدم توجہ کے باعث یا خود حکومت کے زیرسایہ معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے جس میں سوا خیالی دنیا کہ کچھ نہیں۔ معاشرے میں موجود کاروباری لوگ لوگوں کا خون چوسنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں، زیادہ منافہ خوری معاشرے کا اہم حصہ بن گیا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں لوگ لوگوں کی مجبوری کا فائدے اٹھانے کی کوشش کرہے ہوتے ہیں ، اگر کسی ضرورت مند شخص کو ضرورت پیش آ جائے تو اسے اس کا اس قدر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی پاک و ہند کے مسلمانوں کا یہ ذہن بنا دیا گیا ہے کہ ہر چیز جس کا تعلق سائنس سے ہو وہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔ یہ سوچ مسلمانوں کے یہاں آج بھی پائی جاتی ہے اور 1947 سے پہلے بھی تھی بلکہ 1947 سے بہت پہلے بھی یہ سوچ پائی جاتی تھی اور اس سوچ کو اپنے فائدے کے لئے مسلمان حکمرانوں نے عام لوگوں میں پہلایا تھا جس کا مقصد عام مسلمان کو جذباتی کرکہ روڈوں پے لانا تھا اور اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنے تھے یہ سوچ 1947 سے پہلے انگریزوں کے خلاف بھی استعمال کی جاتی تھی اور اسے بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا تھا ۔آج جب کورونا وائرس پوری دنیا میں تباہی مچا رہا ہے اور بڑی مشکل سے اس کی ویکسین تیار کی گئی ہے تو آج بھی مسلمانوں کا یہی خیال ہے کہ یہ مغربی ممالک آمریکا اور چین کی اسلام اور پاکستان کے خلاف سازش ہے اور ان کاخیال ہے کہ ویکسین بھی ایک سازش ہے کیونکہ ویکسین فری میں لگائی جارہی ہے تو دشمن کیونکہ کوئی چیز فری میں دیگا ؟ یقینن اس کے پیچھے اسلام دشمن ملک شامل ہیں اور مسلمانوں کے خلاف یہ عالمی سازش ہے۔اس سوچ کی وجہ سے بہت سارے مسلمان نہ تو کورونا سے بچنے کے لئے ماسک پہن رہے ہیں اور نہ ویکسین لگاوا رہے ہیں ۔ اب بات یہ ہے کہ یہ خیالی اور تصوراتی دشمن مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ رہے ہیں اور یہ سوچ اس وجہ سے بھی مضبوط ہوئی ہے کیونکہ مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا ہے مسلمانوں کو جو تعلیم دی گئی اس میں پوری دنیا ان کی دشمن بتائی گئی اور انہیں یہ احساس دلایا گیا کہ انہیں پوری دنیا کے خلاف لڑنا ہے جبکہ بدقسمتی سے بہت سارے مسلمان اس غلط تصور کا شکار ہوگئے اور خود سے کبھی بھی تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ آج جو رویہ کرونا وائرس اور اس کے ممکنہ علاج یعنی ویکسین کے ساتھ بہت سارے مسلمانوں اختیار کئے ہوئے ہیں وہ کسی زمانے میں پولیو کے قطرے پے بھی رکھا گیا تھا اور پولیو کے قطرے پلانے کو حرام کہا گیا تھا بلکہ اس زمانے میں ہر وہ چیز حرام قرار دئی جاتی تھی جو کہ باہر سے آئی ہو جیسے کیمرا ، اسپیکر وغیرہ پر ہم نے دیکھا کہ کیمرا اور اسپیکر جو پہلے حرام تھے بعد میں مسجدوں میں استعمال بھی کئے گئے اور انگریز ی تعلیم ، انگریزی اشیا ءکا استعمال بھی حرام کیا گیا تھا اور تصور یہ دیا گیا کہ جو مسلمان نہیں ہے گویا وہ مسلمانوں کا دشمن ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ اسی خیالی خوف میں مبتلا رکھنے کی کوشش کی گئی کہ آپ کا دشمن آپ کے لئے سازش میں مصروف ہے۔ اس تصوراتی دشمن کے پیدا ہونے سے نقصان یہ ہوا ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگ ہر چھوٹی بات پے کہتے ہیں کہ یہ تو بھارت کی سازش ہے!! یہ تو اسرائیل کی سازش ہے!! یہ تو آمریکہ کی سازش ہے!!ہے کہ انسانیت شرما جائے۔

پاکستانی معاشرے کی بنیاد اسلام ہے جبکہ یہاں لوگ انسانوں کے حقوق کی بجائے عبادت پے زور دیتے ہیں ہر دوسرا یا تیسرا شخص سنت نبوئی ﷺ کے حلئے میں نظر آتا ہے پر حیرت انگیز طور معاشرہ ویسے ہی پستی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسلامی تعلمیات میں انسانوں کے حقوق پے بڑا زور دیا گیا ہے پر پاکستانی معاشرے میں لوگ شاید یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ دین محض عبادات کا نام ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں موجود لوگ چاہے جتنی بھی عبادات کریں اس کا معاشرے پے کوئی اثر نہیں پڑے گا پر اگر وہ اپنے رویوں میں تبدیل لائیں تو معاشرے میں ضرور تبدیلی آئے گی۔

بظاہر پاکستان ایک ہی مذہب کا ملک ہے اور وہ ہے دین اسلام، پر ہم دیکھتے ہیں پاکستان میں لوگوں کا رویہ اسلام کے انسانی حقوق والے فلسفے کے الٹ ہے، یہاں لوگوں کے درمیان خاندانی اتنے اختلافات ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو اپنا جانی دشمن سمجھتے ہیں اور یہ دشمنی اپنے ہی رشتداروں کے درمیان ہوتی ہے، پاکستانی معاشرے میں لوگ نفسیاتی طور پر اتنے بیمار ہیں کہ اپنے ہی خاندان کے لوگوں سے انا اور ضد کا ایسا رشتہ قائم کر لیتے ہیں کہ سالوں سے ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔

پاکستان میں سرکاری طور پر ایک ہی مذہب ہے اور وہ ہے اسلام، اسلام ہی پاکستان کی ریاست کا مذہب ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں بظاہر مسلمان دکھنے والے شخص کو دوسرا کافر کہتا ہے اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ دونوں کے فرقے الگ الگ ہوتے ہیں جبکہ قران ایک ہے، نبی بھی ایک ہے، فرض عبادتوں میں بھی تقریبن سب کا اتفاق ہے پر یہاں کے معاشرے میں لوگوں کو مذہبی فرقوں کو لیکہ دل میں اتنی نفرت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کھل کہ اپنی تقریروں میں کافر کہتے ہیں اور ایک دوسرے کو جہنمی سمجھتے ہیں اور ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ کسی مذہب سے وابستہ لوگ ہیں اور اس نفرت کو عام کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ بڑے بڑے علما خود ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں اکثر مذہبی لوگ آمریکہ اور مغربی ممالک کو اسلام دشمن سمجھتے ہیں اور ان سے نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں پر وہی لوگ اپنی روز مرہ کی زندگی میں انھی ممالک کی بنائی ہوئی چیزیں استعمال کرتے ہیں یہ منافقت کی نشانی ہے

پاکستان کے معاشرے میں لوگ مذہب پے بحث بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات بات شدت اختیار کر جائے تو ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے ہیں پر آپ مارکیٹ چلے جائیں آپ کو دیوانوں کہ ہجوم کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا لوگ بد اخلاقی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں گاڑی والے افراد بیچ روڈ پے گاڑی کھڑی کر کہ چلے جائیں گے کوئی جاگیردار یا اس کا بیٹا ہوگا تو وہ ایسا رویہ اختیار کرے گا کہ وہ ایک ہی انسان ہے اور باقی سب جانور۔

اور یہ سب حکومتی سرپرستی میں ہوتا آیا ہے حکومتیں خود بھی کنفیوز اور منافق رہی ہیں مثال کے طور پر پاکستان کی ماضی کی حکومتیں خصوصن ضیاالحق کا دور جس میں اسلام کی ایک خاص تشریح کی گئی اور نتیجے میں جنونی طبقہ پیدا ہوا ہم نے آمریکہ کی مدد سے اور اس کے دئے ہوئے ڈالرز اور ہتھیاروں سے اللہ کے نام پے جہاد کیا۔ اور اس بیچ بہت کچھ ہوا پاکستان میں اسی ڈالروں کی مدد سے ہم نے اپنا دفاع مضبوط کیا اور افغانستان پاکستان کا صوبہ بنا دیا گیا جہاں سے لوگ ایسے آرہے تھے جیسے پاکستان کے مقامی لوگ دوسرے شہر جاتے ہیں پر ڈرامائی تبدیل تب آئی جب بیچ میں سے روس شکست قبول کرکہ نکل گیا اور آمریکا اور طالبان آمنے سامنے آگئے ہم نے ایک طرف آمریکہ کا بھی ساتھ دیا اور دوسری طرف طالبان کی حمایت بھی کرتےرہے ۔ ہم نے آمریکہ سمیت پوری دنیا سے طالبان کی دہشتگردی کا رونا رو کہ امداد اور ہتھیار لیتے رہے اور دوسری طرف طالبان کے نظریئے کو بھی اپنائے رکھا ۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ طالبان اور القائدہ کے خلاف آپریشنز کے لئے اربوں ڈالرز بھی لئے اور ہتھیار بھی لئے پر پھر بھی بن لادین پاکستان سے نکلا اور بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم نے اسے شہید بھی کہا۔

پاکستانی معاشرے کو اس خیالی اور ہیروزم کی دنیا سے باہر نکل کہ سوچنا ہوگا تب جاکہ پاکستان کی تقدیر بدلے گی اور معاشرہ بہتر بنے گا ۔ پاکستانی معاشرے میں لوگوں کو غور کرنا ہوگا کہ جنون اور خیالی دنیا میں رہنے سے اور سیاست کے ہاتھوں استعمال ہونے سے 75 سالوں سے ملک کے حالات بد سے بدتر ہوئے ہیں اور ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کے مسائل کا حل پرکشش اور جنونی نعروں سے نہیں نکلے گا اور نہ کبھی نکل بھی سکتا ہے بلکہ ہمیں غور کرنا پڑے گا کہ اسلام کے نام پے لوگوں کو استعمال تو کیا گیا ہے پر لوگوں کہ مسائل اور بڑھ گئے ہیں، بے روزگاری آخری حد تک چلی گئی ہے، کرپشن ہر آئے دن بڑھتی جارہی ہے، معشیت کا منحصر قرضوں اور ایڈ پے ہے، معاشرے میں لوگ اخلاقیات کو بھول گئے ہیں اور یہ مسائل خیالی دنیا سے باہر کہ ہیں جنہیں اصل دنیا میں آکہ ہی حل کیا جاسکتا ہے

ہمارے معاشرے میں “پیسہ ہی سب کچھ ہے” والی سوچ ایسی پروان چڑھی ہے کہ لوگوں نے جعلی ادویات بھی بنا ڈالیں جس معاشرے میں چند پیسوں کے لئے جعلی دوایاں تک بنائی جائیں وہاں معاشرہ زندہ لاش بن جاتا ہے
پاکستان ایک حسین ملک ہے اس میں ہر چیز قدرت نے پیدا کی ہے کاش یہاں وہ قائد پیدا ہوں جو معاشرے میں بد اخلاقی سمیت خیالی الجہنوں کو بھی ختم کر سکیں۔ جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک انفرادی طور پر ہر ایک انسان خود سے معاشرے کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کریگا تب تک معاشرہ بدبودار ہی رہے گا ۔

آج طالبان افغانستان میں قبضہ کرتے جارہے ہیں اور ان کا رویہ پاکستان کے حق میں نہیں اور افغانستان کی حکومت بھی پاکستان سے ناراض ہے اور پاکستان کے بارے عالمی سطح پے باتیں کی جارہی ہیں۔ جبکہ پاکستان کی فوج نے انتہاپسند دہشتگردوں کے خلاف آپریشن بھی کئے ہیں اورجان کی قربانیاں بھی دیں ہیں۔ پاکستان کے لئے اس وقت سب سے بڑا خطرہ وہ طالبان نہیں جو بارڈر کے اس پار ہیں بلکہ پاکستان کو خطرہ اس انتہاپسند نظریے سے ہوسکتا ہے جو پاکستان میں موجود لاکھوں لوگوں کا ہے اور وہی نظریہ طالبان کا بھی ہے ۔ کسی دور میں اسی نظریے کو پاکستان میں عام کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کا ذکر ہم اوپر کر کہ آئے ہیں ۔ اور آج وہی نظریہ پاکستان اور پاکستان میں رہنے والے کرڑوں لوگوں کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے ۔ پاکستان میں حکمرانوں کو چاہیے کہ اب معاشرے میں انتہاپسندی کو کم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے اور معاشرے میں رواداری کو بڑھانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں یہ اتنا آسان تو نہیں کیونکہ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کی جڑیں بہت مضبوط ہو گئی ہیں اور وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ رہی ہیں پر اگر حکومت سنجیدہ اقدامات کرے تو نتائج نکل سکتے ہیں ۔
 

Shaharyar Rehman
About the Author: Shaharyar Rehman Read More Articles by Shaharyar Rehman: 8 Articles with 5729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.