میں مرچیں نہ پھینکتی تو وہ ہمارا قیمہ بنا دیتے، عدالت میں کیس کیے جانے پر ان خاتون کو لاکھوں روپے کس نے دلوائے جانیں اس مہربان جج کے بارے میں

image
 
عورتوں کی زندگی میں کچھ موقع بہت اہم ہوتے ہیں جن میں سب سے پہلا موقع اس کی زندگی میں شادی کا ہوتا ہے جس کے سبب وہ اپنے گھر اپنے والدین خاندان کو چھوڑ کر ایک نئے زندگی کی شروعات کرتی ہے۔ آنے والا وقت اس کی تقدیر میں کیا رکھے بیٹھا ہوتا ہے اس سے نا واقف ہو کر وہ ایک اجنبی شخص کا ہاتھ تھامے نئے گھر آجاتی ہے-
 
ایسی ہی ایک لڑکی صائمہ جس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ان کا تعلق سیالکوٹ کے مضافاتی علاقے سے تھا جب ان کی شادی ہوئی اس وقت ان کے شوہر کی عمر 45 سال تھی جب کہ وہ صرف 17 سال کی ایک کم عمر لڑکی تھیں۔ ان کے شوہر کی پہلی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا اور ان کے اس سے چار بیٹے پہلے ہی تھے۔
 
شادی کا سبب یہ تھا کہ ان کے شوہر سعودی عرب میں کام کرتے تھے اور اچھا کماتے تھے اسی وجہ سے صائمہ کی والدہ نے ان کو غربت سے نکالنے کے لیے ان کی شادی ان کی عمر سے تین گنا زيادہ عمر والے شخص کے ساتھ کر دی-
 
صائمہ شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ سعودی عرب چلی گئیں جہاں 15 سال کے دوران ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے شوق میں صائمہ نے اپنے شوہر کا ہر طریقے سے ساتھ دیا- ان کے شوہر جو سعودیہ میں صرف ایک ڈرائیور تھے صائمہ وہاں دوسروں کے کام کر کے اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کر تی تھیں-
 
image
 
مگر جب ان کے پہلے شوہر کے بیٹے جوان ہوئے تو صائمہ اور ان کے سوتیلے بیٹوں کے درمیان جائیداد کے اوپر تنازعات کا آغاز ہو گیا جس کی شدت اتنی بڑھی کہ تنگ آکر صائمہ کے شوہر نے ان کو اور ان کے بچوں کو سعودی عرب سے سیالکوٹ منتقل کر دیا-
 
جہاں پر وہ شوہر کے لیے گئے ایک چھوٹے سے گھر میں اپنی چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ رہنے لگیں۔ مگر ان کی مصیبتوں کا یہیں پر خاتمہ نہیں ہوا بلکہ ان کے شوہر نے ان کے نام طلاق نامہ بذریعہ ڈاک بھجوا دیا-
 
جس کو شروع میں کئی بار انہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا اور ہر ممکن یہ کوشش کی کہ ان کے شوہر اس عمر میں ان کو طلاق نہ دیں مگر ان کے شوہر نے بیٹوں کے دباؤ میں آکر ان پر طلاق کی ڈگری جاری کروا دی-
 
اب صائمہ کا واحد سہارا اس چھوٹے سے گھر کی چھت اور اس کے صحن میں بندھی ہوئی ایک گائيں تھی مگر صائمہ کے سوتیلے بیٹوں اور ان کے سابقہ شوہر کو ان کی یہ پناہ گاہ بھی پسند نہ تھی اور انہوں نے ان پر وہ جگہ بھی خالی کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا-
 
یہاں تک کہ کچھ غنڈوں کے ہاتھ انہوں نے وہ گھر صائمہ کے گھر میں ہونے کے باوجود بیچ دیا اور ان کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ گھر صائمہ سے خود ہی خالی کروا لیں۔ صائمہ کو ان غنڈوں کے حوالے سے اندازہ تھا کہ وہ کوئی نہ کوئی غیر قانونی حرکت ضرور کریں گے اس وجہ سے وہ اپنی حفاظت کے خیال سے گھر پانچ کلو پسی ہوئی مرچیں لے آئيں کہ ان کے کسی اقدام کے نتیجے میں وہ اپنا اور اپنی بچیوں کا تحفظ اس ہتھیار سے کر سکیں گی-
 
image
 
وہ لوگ چالیس سے پچاس افراد کے ساتھ جب گھر خالی کروانے کے لیے ڈنڈے لے کر آئے تو صائمہ نے ان لوگوں کی آنکھوں میں مرچیں ڈال کر خود کو اور اپنی بچیوں کو بچایا مگر دوسری بار وہ لوگ مسلحہ ہو کر آگئی اور انہوں نے صائمہ اور اس کی بچیوں پر فائرنگ کر دی جسکے نتیجے میں صائمہ اوران کی ایک بیٹی گولی لگنے سے زخمی بھی ہو گئيں-
 
اس کے بعد صائمہ ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں منتقل ہوگئيں اور انہوں نے مکان کی چابیاں برادری والوں کے سامنے ان کو دے دیں مگر اس کے ساتھ ہی صائمہ نے نان نفقے کا کیس اور اپنے بچوں کے خرچے کا کیس عدالت میں کر دیا-
 
صائمہ اور نان نفقے کا کیس
عدالتوں کے چکر کاٹتے ہوئے صائمہ پر یہ مایوس کن انکشاف ہوا کہ ان جیسی کئی عورتیں اپنے شوہروں کے خلاف یہ کیس کر کے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہیں اور سالوں تک ان کو خرچے کے بجائے صرف تاریخ پر تاریخ ہی مل رہی ہے-
 
ایک دن ان کے وکیل نے ان کو یہ خوشخبری سنائی کہ مبارک ہو آپ کا کیس سینئير سول جج ملک نثار کے پاس منتقل ہو گیا ہے وکیل کا یہ کہنا تھا کہ ان جج صاحب کا ریکارڈ ہے کہ عورتیں ان کی عدالت سے پیسے لے کر ہی جاتی ہیں اور کامیاب ہوتی ہیں-
 
image
 
پیسے نکلوانے کے لیے جج صاحب کا طریقہ کار
صائمہ کا یہ کہنا تھا کہ اس عدالت میں آنے کے بعد ان کو جج صاحب کی مدد سے پہلے تین لاکھ ملے اس کے بعد دو لاکھ ملے اور اس طرح اب تک وہ نو لاکھ وصول کر چکی ہیں اور باقاعدگی سے ان کو ان کے بچوں کا خرچہ بھی ملنے لگا ہے-
 
اس ناممکن کام کو ممکن بنانے کا سہرا صائمہ سول جج ملک نثار صاحب کو دیتی ہیں جو کہ ایک خاص طریقہ کار سے ایسے آدمیوں سے ڈیل کرتے ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے اخراجات کی ادائیگی نہیں کرتے-
 
صائمہ کے مطابق جج صاحب نے سب سے پہلے ان کے شوہر کو گرفتار کروا کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گرفتاری کے بعد ان کے شوہر نے ان کو پہلے تین لاکھ کی ادائیگی کی اور یہی طریقہ کار جج صاحب دیگر حضرات سے بھی اختیار فرماتے جو پیسے ادا کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں سمجھتے تھے-
 
اور اگر کوئی گرفتاری کے ڈر سے بھاگ جاتےتو اس صورت میں جج صاحب ان کے نادرا کی مددسے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ سیل کروا دیتے جس کے بعد ان کو مجبوراً پیسے دے کر ہی جان چھڑانی پڑتی-
 
ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک اپنی عدالت سے ایسی بے سہارا اور مجبور عورتوں کو 22 کروڑ روپے دلوا چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کروڑوں دعائیں لے چکے ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: