|
|
ماضی میں جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس کے
والدین کی دو ہی خواہشیں ہوتی تھیں ایک ان کا بچہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائے
یا پھر انجینئير بن جائے- ان دونوں پیشوں سے متوسط طبقے کے والدین کا خصوصی
لگاؤ چھپا ہوتا تھا۔ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے ہونے والے بچے کو
معاشرے میں وہی عزت ملے جو اس پیشے سے وابستہ لوگوں کو ملتی ہے- |
|
اس خواہش کے پیش نظر بچے کے اسکول کا تسمہ باندھتے ہوئے
ماں اپنا یہ خواب بچوں کی آنکھوں میں بھی چھپا دیتی تھی۔ جس کو آنکھوں میں
چھپا کر پہلے دن اسکول جاتا تھا اور اس کے بعد کچھ خوش نصیب اس خواب کو جب
پورا کر لیتے تھے تو وہ کامیاب گردانے جاتے تھے اور جو اس خواب کو پورا
نہیں کر سکتے تھے ان کو ساری عمر اس کی کسک تنگ کرتی رہتی اور وہ اپنا یہ
ادھورا خواب اپنے بچوں کو منتقل کر دیتے تھے- |
|
مگر راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے محمد بوٹا کا شمار ان
لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمت نہ ہارنے کی ایک مثال قائم کر دی۔ عام بچوں
کی طرح انٹر کے بعد جب محمد بوٹا کا داخلہ 1979 میں لاہور کے میڈيکل کالج
میں داخلہ لیا تو یہ دن ان کے والدین کے لیے بہت خوشی کا دن تھا اور ان کو
امید تھی کہ ان کا ہونہار بیٹا اب پانچ سال بعد اس کالج سے ڈاکٹر بن کر ہی
نکلے گا- |
|
|
|
مگر کچھ وجوہ کی بنا پر دو سال بعد 1981 میں
انہوں نے اپنا ٹرانسفر راولپنڈی کے میڈیکل کالج میں کروا لیا۔ راولپنڈی میں
داخلے کے دوران یونی ورسٹی کی پالیسی کے مطابق رجسٹریشن کروانے والا طالب
علم دس سال تک امتحان دے سکتا ہے۔ |
|
محمد بوٹا اس دوران 1981 سے لے کر 1991 تک
مستقل طور پر دس سال تک راولپنڈی میڈیکل کالج میں امتحانات دیتے رہے مگر اس
دوران چونکہ معاشی مسائل بھی ان کے ساتھ ساتھ تھے اس وجہ سے وہ اپنی تعلیم
کا سلسلہ نوکری کے ساتھ نبھاتے رہے- اس وجہ سے تعلیم پر وہ توجہ نہیں دے
سکے جس سے وہ کامیاب ہو سکتے اس وجہ سے دس سال تک امتحان دینے کے باوجود وہ
کامیاب نہیں ہو سکے- |
|
اس کے بعد انہوں نے 2020 میں امتحان دینے کا
سلسلہ کالج کی فیس اور نئی رجسٹریشن کے بعد دوبارہ سے شروع کیا۔ ڈاکٹر بننے
کا شوق اور لگن ان کی بڑھتی عمر کے راستے میں نہ آسکا اور انہوں نے کوشش
جاری رکھی اور آخرکار 2021 میں وہ میڈیکل کے شعبے میں 42 سالوں بعد کامیاب
ہو گئے- اور ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر محمد بوٹا لگ گیا۔ |
|
ان کی اس خوشی کا اندازہ وہی انسان لگا سکتا ہے
جس نے بار بار راہ میں آنے والی ناکامی سے ہمت نہیں ہاری ہوگی اور آخر کار
کامیابی حاصل کی ہوگی- |
|
|
|
محمد بوٹا کی یہ کامیابی ان تمام طالب علموں
اور لوگوں کے لیے ایک مثال ہے جو کہ زندگی میں کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں لیکن
اپنی عمر کے سبب کچھ کرنے سے شرماتے ہیں- |
|
اپنی اس کامیابی کے حوالے سے محمد بوٹا کا یہ
کہنا ہے کہ ان کی شادی جس وقت ہوئی اس وقت وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے
اور آج جب کہ ان کی عمر 67 سال ہے ان کے چھ بچے ہیں۔ تمام تر معاشی مسائل
اور گھر یلو ذمہ داریوں کے باوجود انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ ایک خواب
پورا کرنے میں کامیاب ہوئے- |