مشرقی سر دشمن کو کچل دیتے ہیں
مغربی ان کی طبیعت کو بدل دیتے ہیں
اس شعر میں لطیف پیرائے میں ایک تاریخی حقیقت کا اظہار کیا گیاہے۔بر صغیر
میں انگریزوں کے لائے ہوئے نظام تعلیم کی بدولت عقائد و اعمال میں شکوک
Doubts پیداکرنے کی جس لہر نے سر اٹھایااس نے اسلاف سے بیزاری کا ایک رجحان
پیدا کیا اور ایک بڑا طبقہ اس سے متائثر ہو کر اپنی دینی فکر مین پختگی کو
کھو بیٹھا۔علامہ محمد اقبال نے دلسوزی کے ساتھ اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:
اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم
فقط ایک سازش ہے دین و مروت کے خلاف
بہر حال فرنگی نظام تعلیم اور تہذیب کی خامیاں اور نقائص کے باوجود اسے بہت
سی وجوہات کی بنا پر کلی یا جزوی طور پر تسلیم کیا گیا۔اس نظام تعلیم سے
استفادہ کرنے والوں مین ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی رہی جو نیک صحبت اور
علماء سے تعلق کی وجہ سے اس کے برے اثرات سے محفوظ رہے ا ور انہوں نے خذ ما
صفا ودع ما کدر کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مفید اجزاء کو وصول کرکے مضر
اجزاء کو ترک کردیا۔
ایجادات کی ترقی کے ساتھ آ ج ایسے وسائل میسر آ چکے ہیں جن کی بدولت افکار
کا تبادلہ بہت آسان ہو گیا ہے۔دنیا سمٹ کر ایک قصبے کی مانند بن چکی ہے۔ایک
کنارے پر رہنے والا آدمی با آسانی اپنے خیالات کی تر سیل دوسرے کنارے تک کر
رہا ہے،ایسے میں بات صرف طرز تعلیم کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ عوامی
سوشل میڈیا کے ذریعے اس وقت شیطان کے کارندے مسلم نوجوان کا ایمانی سرمایہ
لوٹنے کیلٗے سرگرم عمل ہیں۔انسان کا لبادہ اوڑھ کر مسلمان نوجوان کے عقائد
و اعمال کی عمارت کو متزلزل کرنے والے ان شیطانوں کے ہتھکنڈوں کو سمجھنے کی
ضرورت ہے تاکہ اپنے ایمان کو قبر تک سلامتی کے ساتھ لے جایا جا سکے۔ذیل میں
ان شیطانی ہتھکنڈوں کو لکھا جاتا ہے تاکہ ان سے بچا جاسکے:
پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا
تمام د ینی افکار و نظریات اور اعمال کی بنیاد نبی ء اکرمﷺپر اعتماد ہے
بلکہ ایمان نام ہی اس چیز کو ماننے کاہے جو رسول اکرم ﷺ لائے ہیں۔حفیظ
جالندھری مرحوم کے بقول
محمدﷺ کی محبت دین حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو ایماں نا مکمل ہے
شیطان کے پیرو کاروں نے اس نکتے کو سمجھ کر اپنی تخریبی سرگرمییوں کو اس
طرف مرکوز کر دیا چنانچہ ٓانحضرتﷺ کی ذات سے متعلق ایسے بے بنیاد اعتراضات
گھڑے جن کا صدور ایک عاآ آدمی سے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا چہ جا ئیکہ
اللہ کے مقدس نبی سے۔یوں تو اس پروپیگنڈے کی ابتدا ایک ہزار سال قبل اس وقت
سے ہو گئی تھی جب سے جان آف دمشق نے آنحضرتﷺ پر باقاعدہ تحریری شکل میں زہر
اگلا تھا اور پھر تحریک استشراق (اوریینٹلزم )نے اپنے مختلف ادوار میں اس
پروپیگنڈے کو تقویت پہنچائی تاہم بر صغیر مین انگریزوں کے تسلط کے بعد
پادری فنڈراور ولیم میور نے سرکاری پشت پناہی پر ذات اقدس ﷺ پر رکیک حملے
کیے۔ہمارے اس عہد میں سوشل میڈیا کی مختلف سروسز پر فکری آزادی کے نام پر
کبھی تو ایسے مضامین شائع کراے جاتے ہیں جن میں نعوذباللہ ذات اقدس ﷺ پر
اعتراضات ہوتے ہیں،کبھی مختلف مضحکہ خیز مضامین کا مقابلہ کراکر مسلمان
نوجوان کے دل و دماغ سے آپ ﷺ کی عظمت ختم کرنے کی ناپاک کوشش کی جاتی ہے
اور کبھی آپ ﷺ سے متعلق واقعات کی شہرت اس انداز سے کی جاتی ہے جو تشکیک
پیدا کر سکے۔نبیء اکرم ﷺ کی ذات سے متعلق جو شیطانی وساوس ڈالے جاتے ہیں وہ
حسب ذیل ہیں:
۱۔بنی ﷺ کے لائے ہوئے قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا
۲۔نزول وحی کے وقت آنحضرتﷺ کی کیفیت کو نفسیاتی بیماری سے تعبیر کرناالعیاذ
باللہ۔
۳۔آنحضرتﷺ کے معجزات کے متعلق روایات کی استنادی حیثیت Authenticityپر
اعتراضات کرنا اور ان کے وقوع کا انکار کرنا۔
۴۔آنحضرتﷺ کی متعدد شادیوں (تعدد ازواج)کو اس رنگ سے پیش کرنا جس سے ذہنوں
میں یہ بات بٹھائی جا سکے کہ آپ ﷺ نے متعدد شادیاں نفسانی خواہشات پورا
کرنے کیلئے کی تھیں نعوذ باللہ من ذ ٰلک۔
۵۔آپ ﷺ کی تبلیغی جہد کو سیا سی رنگ دے کر نبوت کی ۲۳ سالہ جہد کو اقتدار
کے حصول کی جنگ بنا کر پیش کرنا،نتیجتاًنبوت کے تمام اعلیٰ و ارفع مقاصد
نظروں سے اوجھل کرا دینا۔
۶۔جہاد کو قتل و خونریزی کا ذریعہ قرار دینا،جہاد سے متعلق نبیﷺ کی پاکیزہ
تعلیمات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا،یہ تاثر دینا کہ محمدﷺ ہر صورت میں اپنے
مخالفین کو ختم کرنا چاہتے تھے،آپ ﷺ کو اور آپ کے رفقاء کو سنگدل اور بے
رحم بنا کر پیش کرنا استغفر اللہ۔
تعلیماتِ اسلام میں شکوک و شبہات پیدا کرنا
اس کی بھی ایک طویل فہرست ہے جس میں سے بطور نمونہ کے چند خرافات پیش خدمت
ہیں:
۱۔اسلامی عقائد مثلاًتوحید،نبوت ،فرشتوں ،مرنے کے بعد کی زندگی،تقدیر وغیرہ
پر عقیدہ کو متزلزل کرنا۔
۲۔عبادات کی اہمیت کو کم کرنا۔نماز،روزہ،زکوۃ،حج،قربانی وغیرہ کے متعلق یہ
بات ذہن نشین کرانا کہ اللہ تعالی کو ان عبادات سے کیا
لینا۔اخلاق کی اہمیت اس طرح نمایاں کرنا کہ گویا سارا دین اخلاق میں منحصر
ہے۔اخلاق کا درس دیتے ہوئے ہر دلعزیز بننے کی ترغیب دینا جس سے مومن اور
کافر کا فرق ہی مٹ جائے۔
۳۔مسلمان خاتون کیلیے اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کرنا۔پردہ کے پاکیزہ
تصور کو عورت کیلیے قید قرار دینا جس سے اس کا حق آزادی سلب ہوتا ہو۔
۴۔مرد کو شریعت کی طرف سے ملنے والی چار شادیوں تک کی گنجائش (جو بیویوں کے
درمیان عدل کے ساتھ مشروط ہے)کو عورت پر ظلم قرار دینااور اسلام نے عورت کو
جو عزت و شرافت عطا کی،اسے نظر انداز کرنا۔
۵۔نکاح کے پاکیزہ اسلامی تصوراور اس کے بر عکس زنا کے خبیث شیطانی تصور کو
آپس میں خلط ملط کرکے پیش کرنا۔جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے نکاح کے
پاکیزہ راستے کی ضرورت ذہنوں سے مٹانا اورنت نئے عنوانات سے بد کاری کو
فروغ دے کر جوانوں کی ذہنی و جسمانی قوت ضائع کرنا۔
۶۔موسیقی کو ذہنی نشاط کا ذریعہ قرار دینا۔آنحضرتﷺ کا شادی کے موقع پر
اعلان کی ضرورت سے دف کو جائز قرار دینے والے واقعے سے غلط نتائج اخذ
کرنا۔بے حیائی کے کلمات کو آلات موسیقی اور عورتوں کی آوازوں میں عام کرنے
کے لیے وسائل بروئے کار لاناجیسا کہ موبائل کی گھنٹیؤں پر اس کا عام مشاھدہ
ہے۔
اسلاف سے بیزار کرنا
فکری آزادی کے پر فریب نعروں کے ذریعے امت کے محسنین سے بیزار کرنا بھی ان
شیطانی قوتوں کا ایک ہتھیار ہے۔دین کی تعبیر و تشریح جو شریعت کا مزاج
سمجھنے والے دینی علوم کے ماہرین سے منقول ہوئی،اس سے دور رکھنا روح اسلام
سے ناواقفیت کا سبب ہے۔اس کے نتیجے مین قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کی ایسی
گمراہ کن تشریحات سامنے آئی ہیں جو طرح طرح کی فکری اور عملی خرابیوں کا
باعث بنی ہیں۔
دینی تعلیم کے آسان ہونے کا احساس اور دین سیکھنے کیلیے استاد کی ضرورت نہ
ہونے کاذہن بنانا
ایک تو بڑھتی ہوئی تن آسانی و عیش پسندی اور اس کے ساتھ بے شمار دینی کتب
کا سافٹ کاپیز کی شکل میں کمپیوٹر پر دستیاب ہو جانے کی وجہ سے یہ
پروپیگنڈا مزید آسان ہو گیا ہے کہ دین سیکھنے کے لیے کسی استاد کے پاس جانے
کی ضرورت نہیں۔حالانکہ دیگر علوم و فنون کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاتی
بلکہ ان میں بہتر سے بہتر تعلیمی ادارے قائم کرنے کی بات کہی جاتی ہے۔ دنیا
کے ہر فن کی طرح دینی علوم حاصل کرنے کے لیے بھی استاد کی ضرورت ہے بلکہ
یہاں زیادہ ضرورت ہے کیونکہ یہاں نقلی علوم اصل ہیں اور عقلی علوم کی حیشیت
ان کے خادم کی ہے۔نقلی علوم سے مرادوہ علوم ہیں جو آنحضرت ﷺ سے ہم تک مختلف
واسطوں سے بغیر کمی بیشی کے نقل ہوتے آئے ہیں جن میں قرآن کریم اور احادیث
نبویﷺ شامل ہیں ۔ان ہی دو بنیادوں پر دین کی عمارت قائم ہے۔مسائل کا علم
بھی در حقیقت ان سے ہی ماخوذ ہے۔عربی کے دیگر علوم گرائمر،منطق وغیرہ اسی
لیے پڑھائے جاتے ہیں کہ قرآن و حدیث کو سمجھنا آسان ہو۔لہذا دینی علوم کا
ماخذ عقل سے زیادہ نقل ہے جس کے لیے بعد والوں کو پہلے والوں پر اعتماد
ضروری ہے۔بغیر کسی استاد سے پڑھے دینی معلومات کسی درجہ میں حاصل ہو جائیں
گی لیکن دین کی صحیح فہم کے لیے استاد کی ضرورت ناگزیر ہے۔
تشکیک زدہ نو جوانوں کے لیے نجات کا راستہ
سب سے پہلے تو اس بات کا ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ایمان آنحضرت ﷺ کی دی
ہو ئ خبروں کو دل سے تسلیم کر لینے کا نام ہے۔مومن آنحضرتﷺ کو دل سے اللہ
کا سچا رسول تسلیم کرتے ہویے تمام پیغمبرانہ تعلیمات میں دنیا و آخرت کی
کامیابی کا یقین رکھتا ہے۔آپ ﷺ کی تعلیمات میں سب سے بڑی تعلیم اللہ تعالیٰ
کے خالق و معبود اور تمام نفع و نقصان کا اکیلے مالک ہونے کی ہے۔اللہ
تعالیٰ ہی بندے کی دنیا و آخرت کی تمام ضرورتوں کا پورا کرنے والا ہے۔ایسے
محسن سے محبت انسان کی فطرت ہے۔چناچہ بندہء مومن اپنے اللہ سے ایسی والہانہ
محبت کرتا ہے جیسی محبت کافر اپنے معبود سے نہیں کر سکتا:
والذین اٰمنوا اشد حباًللہ(البقرہ)
ایمان والے اللہ کی محبت میں زیادہ شدید ہیں
اللہ سے محبت تمام شکوک و شبہات کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتی ہے۔ایمان کی
تکیل کو بھی محبت الہٰی سے جوڑا گیا ہے:
من احب للہ و ابغض للہ واعطی للہ و منع للہ فقد استکمل الایمان(ترمذی)
جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے بغض کیا،کسی کو کچھ دیا
تو اللہ کے لیے اور کسی کو دینے سے رکا تو اللہ کیلیے،اس نے یقیناًاپنے
ایمان کو کامل کر لیا(حدیث)
نبی ء کریم ﷺ اللہ سے اللہ کی محبت مانگتے ہیں بلکہ ہر اس چیز کی محبت بھی
مانگتے ہیں جو اللہ کی محبت تک پہنچادبلکہ ہر اس چیز کی محبت بھی مانگتے
ہیں جو اللہ کی محبت تک پہنچادے۔آپﷺ کی درج ذیل دعا آپﷺ کے اللہ تعالیٰ سے
والہانہ تعلق کی عکاس ہونے کے ساتھ محبت الٰہی کی ضرورت کا اظہار بھی ہے:
اے اللہ!میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اوراسکی محبت جوتجھ سے محبت
کرے اور اس عمل کی محبت جو تیری محبت تک پہنچا دے۔اے اللہ میرے
نزدیک اپنی محبت میری جان سے اور میرے اھل سے اور (پیاس کی
حالت میں)ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب کردے۔(
اللہ کی محبت اللہ کے لیے سب کچھ کردینا آسان کر دیتی ہے۔اس لیے اللہ کی
محبت دل میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔اللہ کی محبت پیدا کرنے کی لیے مندرجہ ذیل
باتوں پر عمل کر لینا مفید ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو سوچنا ۔ہمارے جسم میں اور باہر اللہ تعالیٰ کی
بے شمار نعمتیں ہیں،ان نعمتوں کا خیال کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا۔
۲۔اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا،زبان اور دل دونوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے
آباد رکھنا۔آنحضرتﷺ نے جس وقت میں جس ذکر کا اہتمام کیا اسے سیکھ کر اس کو
پڑھنا اور دل میں اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھنا۔
۳۔اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا حق جان کر عبادات اور تمام فرائض و واجبات کا
اہتمام کرنا۔
۴۔اللہ تعالیٰ نے جو انعامات کیے ،لوگوں کے سامنے ان کا تذکرہ کرنا۔
اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے ساتھ آنحضرتﷺ کی محبت و عظمت بھی دل میں
بٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔آپ ﷺ کی محبت اس لیے ضروری ہے کہ خود اللہ
تعالیٰ کی پہچان آپ ﷺ کے بغیر ممکن نہیں۔نیز آپ ﷺ کے احسانات کے تلے ہر
مومن کی گردن دبی ہوئی۔تمام دنیوی اور اخروی سعادتیں آپﷺ کے ذریعے سے ملی
ہیں۔ایمان کا مزہ آپ کی محبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔علامہ اقبال مرحوم
کے بقول:
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو چمنٍ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی
نہ ہو
یہ نہ ہو ساقی تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو بزم توحید بھی دنیا میں نہ
ہو،تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
کفار جو نبی ء اکرم ﷺ پر اعتراض اٹھاتے ہیں اسکی وجہ یا تو ان کا دلی بغض
ہے یا وہ مقام رسالت سے بے خبر ہوتے ہیں۔اس وجہ سے وہ نبیﷺ کے اقول و اعمال
کو عام انسانوں پر قیاس کرتے ہیں اور اسی پیمانے سے ناپتے ہیں جس سے عام
انسانوں کو ناپا جاتا ہے۔آپ ﷺ پر کیے جانے والے اعتراضات کا ہر دور میں اہل
علم نے جواب دیا ہے۔تاہم اگر قرآن کریم کی آیت وما ینطق عن الھویٰ( یعنی
آپﷺخواہش نفس سے بات نہیں کرتے بلکہ آپ جو بات فرماتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ
کی طرف سے وحی ہوتی ہے)پر پختہ یقین ہو تو ان اعتراضات کی کوئی حیثیت نہیں
رہتی۔
دین کے معاملے میں کنفیوژن کی بڑی وجہ دین کونہ سمجھنا ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ
انسان کسی معاملے کو پوری طرح سے نہ جانتا ہو تو اس کے بارے میں کوئی صحیح
فیصلہ نہیں کر سکتا۔جوں جوں نظریات واضح ہوتے جاتے ہیں توں توں گرہیں کھلتی
چلی جاتی ہیں ،لہٰذا دین کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔دین کی صحیح فہم حاصل
کرنے کی لیے دینی علوم کے ماہرین کے ساتھ رابطہ ضروری ہے جو علم کے ساتھ
عمل کی صفت سے بھی متصف ہوں۔آج کے مسلمان نوجوان کا ایک بہت بڑا مسئلہ
علماء سے رابطے کا فقدان ہے۔جو کورس عام طور پر پڑھایا جا رہا ہے اس میں
اسلامی علوم کا حصہ ناکافی ہے ،دوسری طرف انٹر نیٹ اور میڈیا پر مذہبی
بحثوں کی بھرمارہے۔ایسے میں اگر راسخ العقیدہ علماء سے تعلق نہ ہو تو شکوک
و شبہات پیدا کرنے آسان ہوتے ہیں۔
ایمان مومن کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے اور شیطان اسے ضائع کرنے کی فکر میں
میں ہے۔موت تک حق و باطل کی یہ کشمکش جاری رہتی
ہے۔اس لیے موت تک مومن کے لیے بے فکری نہیں بلکہ ہر لمحہ ہوشیار رہنے کی
ضرورت ہے۔اس پر پیچ سفر میں دعا مومن کاہتھیا ر ہے،علم اس کی منزل کا تعین
کرتا ہے اور ذکرٍ الٰہی کا نور راستہ چلنے میں مدد کرتا ہے۔جو انسان اللہ
تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کے راستے پر چلتا رہتا ہے بالآخر ہمیشہ کی
کامیابی پا لیتا ہے۔ |