لوگ چلے جا رہے ہیں جوق در جق،نہیں معلوم تہہ خاک تماشا کیا ہے ،بچھڑا کچھ
اس ادا سے کہ شہر ویران کر گیا ،نہ جانے یہاں غرور کس بات کا ہے کہ دنیا کے
سارے راستے قبرستان کی طرف ہی تو جاتے ہیں موت کا فرشتہ آن واحد میں نام
مقام ہستی جاہ و حشمت بدل کر دکھ دیتا ہے ،انسان ہے کہ سمجھنے کو تیار ہی
نہیں خو د خالق ارض وسما نے کہا کہ انسان خسارے میں ہے اور قسم کھا کے کہا
کہ سخت گھاٹے میں لیکن وہ نہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرا اور نیک اعمال کرتا
رہا ،آخری سفر ساری زندگی کا احاطہ کردیتا ہے کسی کو جانچنا ہو تو جنازہ
دیکھ لیا جائے بہت کچھ واضح ہو رہا ہوتا ہے جھلساتی گرمی میں رحمت کی پھوار
یا خون جماتی سردی میں نرم دھوپ ،نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے اگر کوئی
غور کرے تب ،انسان گاہے مگر اکثر وقت برباد کرنے کے بعد ہی سمجھتا ہے اﷲ سے
رحم و کرم کی دعا بحر حال مانگتے رہنا چاہیئے ،انسان بغیر لباس دنیا میں
آتا اور محض ایک کفن کے لیے کتنا لمبا پینڈا کرتا ہے آخر میں سوچے تو سارا
کچھ ایک لمحہ اور محض وقت کا ضیاع ،وقت کی سب سے بڑی خوبی یا خامی یہی کہ
یہ کسی کے لیے رکتا نہیں انتظار نہیں کرتا ،صرف ایک ڈیڑھ ماہ قبل پریس کلب
میں بیٹھے گرجتے برستے پیر عبدالستار ہمیں یوں اتنا جلدی چھوڑ جائیں گے
میرے سمیت شاید اس وقت کسی کے بھی وہم و گمان میں نہ تھا ،پیر صاحب ہم سب
کے بزرگ تھے مگر اندر سے مکمل توانا اور جوان ہر معاملے میں دوٹوک اور کھرا
رد عمل دینے والے صاف گو انسان ،میرا ان سے بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا مگر
وہ کیا ہے کہ نہیں ہوتے ہیں مگر ہوتے ہیں کچھ تعلق بڑے عجیب ہوتے ہیں کے
مصداق ایک عجیب روحانی وابستگی تھی ان سے ،جب بھی میری کوئی تحریر چھپتی جو
ان تک پہنچتی صبح ہی صبح فون کرتے اور بھرپور پذیرائی کے ساتھ ہر دفعہ یہ
کہتے کہ لگاتار لکھو اور لکھتے رہو ،میری تحریر میں بے شمار خامیاں بھی
ہوتی ہیں کہ ناقص العقل و علم انسان ہوں مگر آفرین کہ ہے کہ کبھی ایک بار
بھی انہوں نے دل شکنی یا حوصلہ شکنی نہیں کی ،صحافت میں پیر عبدالستار اور
مرزا فخر دو ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے ہمیشہ نئے آنے والوں کی نہ صرف حوصلہ
افزائی کی بلکہ ہمیشہ بھرپور راہنمائی بھی کی ،پیر صاحب چلے گئے مرزا صاحب
کو اﷲ سلامت رکھے ،پیر صاحب اکثر کہتے بیٹا غلطی نکالنا تو بہت آسان کام ہے
لیکن کسی غلطی کو ٹھیک کرنا نئی تعمیر سے زیادہ مشکل کام ہے کسی کی اصلاح
کرنے کے لیے بھی دانائی اور حکمت کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ اکثر نیکی گلے پڑ
جاتی ہے اور بندہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ میں نے کیا سوچا اور آگے سے مجھے
جوابا کیا ملا،پیر صاحب صحافی تھے کالم نگار تھے اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم
انسان تھے شروع شروع میں سیاست ان کا موضوع ہوتا تھا مگر پھر جلد ہی وہ
مذہب اور روحانیت کی طرف مائل ہو گئے اوران کی تحریروں میں بھی روحانیت کا
رنگ جھلکنے لگا ہر جمعے کو ان کاکالم آ جاتاجو صریحا دینی موضوع اور تشریح
سے عبارت ہوتا ،ملک کے بڑے نیوز چینل اور اخبار سے وابستہ تھے مگر حلیمی
اور نرم طبیعت ان کا خاصہ تھی چھوٹوں سے عموما پیار بھری ڈانٹ ڈپٹ سے بات
کرتے لیکن دل میں کبھی کوئی بات نہ رکھتے ان کی سخت بات بھی بھلی محسوس
ہوتی ،سب سے بڑی خوبی ان میں یہ تھی کہ منافقت سے پاک تھے جس کے ساتھ تھے
اسے پتہ ہوتا تھا کہ میرے ساتھ ہیں اور جس کے خلاف ہوتے تھے اسے بھی پتہ
ہوتا تھا کہ میرے خلاف ہیں ورنہ یہاں چلن عام ہے کہ ایک طرف ٹرافیاں اور
میڈل دیئے جاتے ہیں خوشنودیاں حاصل کرنے کے لیے اور فورا ہی پیٹھ پیچھے
برائیاں اور گالیاں دی جاتی ہیں ،بڑے بڑے دعوے اور نعرے اپنے مخالف کے
سامنے آتے ہی ہوا ہو جاتے ہیں اور انقلاب بکل مار کر سو جاتا ہے مگر پیر
ساحب ان خباثتوں سے پاک تھے ،اور کچھ عرصے سے ان کی روٹین مکمل بدیل ہو چکی
تھی شام چھ بجے کے بعد کال بھی نہ سنتے اور جلد ہی سو جاتے اور رات کے
درمیان میں تہجد کے لیے اٹھ جاتے اگر کبھی کبھار شام کو فون کرنا ہوتا تو
سات بجے سے پہلے فون پر ملتے بعد میں رابطہ ختم ہو جاتا،عظمت و ہمت کے پہاڑ
تھے کہ یکے بعد دیگر ے دو جوان بیٹوں کی موت کا صدمہ بڑی ہمت اور صبر سے
برداشت کیا بجاے اس کے کہ غم کا پہاڑ انہیں اپنے نیچے دبا لیا انہوں نے اﷲ
سے لو لگا کر اپنے غم کو بظاہر دبا لیا اور اپنے بچوں کے بچوں کی ذمہ داری
سنبھال لی اورضعیف شخص نے جس جوانمردی سے یہ ذمہ داری نبھائی وہ اپنی مثال
آپ ہے ان کے جانے سے ایک طرف جہاں ان کے بچے اور بچوں کے بچے شفقت پدری سے
محروم ہوئے وہیں اہل صحافت کے سروں سے بھی بزرگی کا سایہ اٹھ گیا جو ایک
بڑا نقصان ہے،ان کی نماز جنازہ جس دن ہوئی معمول کے دنوں میں سخت گرمی کا
موسم مگر اس دن سارا دن نہ صرف موسم انتہائی خوشگوار رہا بلکہ جب انہیں ان
کی آخری منزل کی طرف لے جایا جا رہا ہے تھا تو اﷲ کی رحمت کی پھوار ان کی
میت اور ان کے جنازہ میں شامل ہونے والوں کو بھی سیراب کر رہی تھی ،اﷲ
تعالی ان کی اگلی منزلیں آسان کرے جلد یا بدیر جانا ہے اور سب نے جانا ہے
اور اچھے لوگ جلدی چلے جا رہے ہیں ہم جیسوں نے بھی بالآخر ادھر ہی جانا ہے
کہ جو پید اہوا ہے اس نے مرنا ہے کہ یہ اﷲ کا وعدہ ہے کہ ہر نفس نے موت کا
ذائقہ چکھنا ہے ،آج کل جانے والوں کی تعداد میں تیزی آئی ہوئی شاید یہ بھی
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ ابھی بندہ پاس بیٹھا ہوتا ہے اٹھ
کے گیا ہی اور ابھی خبر آتی ہے کہ گذر گیا دنیا محوحیرت ہے کہ لوگ چلے جا
رہے ہیں جوق در جق،نہیں معلوم تہہ خاک تماشا کیا ہے ،بچھڑا کچھ اس ادا سے
کہ شہر ویران کر گیا ،نہ جانے یہاں غرور کس بات کا ہے کہ دنیا کے سارے
راستے قبرستان کی طرف ہی تو جاتے ہیں موت کا فرشتہ آن واحد میں نام مقام
ہستی جاہ و حشمت بدل کر دکھ دیتا ہے ،انسان ہے کہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں
خو د خالق ارض وسما نے کہا کہ انسان خسارے میں ہے اور قسم کھا کے کہا کہ
سخت گھاٹے میں لیکن وہ نہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرا اور نیک اعمال کرتا
رہا ،آخری سفر ساری زندگی کا احاطہ کردیتا ہے کسی کو جانچنا ہو تو جنازہ
دیکھ لیا جائے بہت کچھ واضح ہو رہا ہوتا ہے جھلساتی گرمی میں رحمت کی پھوار
یا خون جماتی سردی میں نرم دھوپ ،نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے اگر کوئی
غور کرے تب ،،،،،،،
|