پاکستانی فوٹو گرافر اور اُس پولورائیڈ کیمرے کی کہانی جس کی بدولت صدارتی محل کا ہر دروازہ کھل گیا

image
 
'میں گھر والوں کو بتائے بغیر کراچی سے کابل آ گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر صدارتی محل کی چھت پر نصب خصوصی وائرلیس سیٹ نما ٹیلی فون سے گھر والوں کو اطلاع دی۔'
 
فروری، سنہ 1993۔ سوویت یونین کی شکست کو ایک برس بیت چکا ہے تاہم افغانستان میں اب بھی حالات کشیدہ ہیں۔
 
کابل میں برہان الدین ربانی کی صدارت میں ایک عبوری حکومت مختلف مجاہدین گروہوں کے درمیان خانہ جنگی کی صورتحال پر قابو پانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کا اصرار ہے کہ انتخابات ہوں لیکن صدر ربانی اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے رضا مند نہیں ہو رہے۔
 
اسی بحران کو حل کرنے کے لیے پاکستان سے جماعتِ اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد کی سربراہی میں ایک وفد کابل پہنچتا ہے۔ اگلے 27 دنوں تک وہ افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور مختلف فریقین کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
اس وفد میں سیاسی و عسکری شخصیات کے علاوہ کراچی کے 30 سالہ زاہد علی خان بطور فوٹوگرافر شامل تھے۔ انھیں یونیورسٹی کے ایک سینیئر دوست کے توسط سے مذاکرات کی کوریج کی دعوت ملی تھی۔
 
سفر کی تیاری کرتے ہوئے انھوں نے ایک پولورائیڈ کیمرہ بھی ساتھ رکھ لیا لیکن انھیں معلوم ہی نہ تھا کہ یہ کیمرہ ان کے لیے وہ شاہ کلید ثابت ہوگا جس سے نہ صرف صدارتی محل کے بند دروازے ان کے لیے کھلتے جائیں گے بلکہ جنگجوؤں سے ان کی دوستی ہوگی اور کابل کے عام رہائشیوں کے گھروں میں وہ مہمان بن کر رہ پائیں گے۔
 
اس دورے میں بنائی گئی نئی دوستیاں آج بھی زاہد کے ساتھ ہیں اور اگرچہ وہ لوگ اب وہاں نہیں رہے لیکن کابل کی کشش آج بھی زاہد کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔
 
image
 
پشاور سے کابل
فروری کے اوائل میں وفد کو پشاور ایئرپورٹ سے کابل کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اس میں قاضی حسین احمد کے علاوہ جنرل حمید گل اور ایران اور سعودی عرب کے سفارتی حکام بھی شامل تھے۔
 
سفر کا آغاز بھی ایک لطیفے سے ہوا: افغان جہاز کے پائلٹ اور کو پائلٹ پر مشتمل دو رکنی عملے نے طیارے پر پری فلائٹ چیکس کے دوران اس کے پہیوں کو ٹھوکر مار کر گاڑی کے ٹائر کی طرح اس کی ہوا چیک کرتے نظر آئے۔
 
پھر ان ہی دونوں نے ایک چھوٹی سی لوہے کی سیڑھی لے کر دروازے سے جوڑ دی تاکہ مسافر طیارے میں داخل ہو سکیں۔ ان حالات کو دیکھ کر وفد کے کئی اراکین نے دبے لفظوں میں خدشہ ظاہر کیا 'معلوم نہیں یہ جہاز منزل تک پہنچ بھی سکے گا یا نہیں؟'
 
جس طیارے میں انھوں نے سفر کیا وہ بھی کراچی کی کسی منی بس کی یادیں تازہ کروا دیتا تھا۔ جدید سی 130 کارگو جہاز کی مانند اس مظاہر مسافر طیارے کرسیوں بجائے دیواروں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے بنچ بنا ہوا تھا جس پر سفر آرام دہ نہیں کہلا سکتا۔
 
image
 
تاہم جب ان کی پرواز خیریت سے کابل کے ہوائی اڈے پر اتری تو سبھی نے سکھ کا سانس۔ وفد کی پیشگی اطلاع ہونے کے باعث اس دوران کابل اور اطراف میں متحارب مجاہد گروہوں نے دو گھنٹے کے لیے جنگ بندی کا اعلان کر دیا تھا۔
 
زاہد کا بنیادی کام مذاکراتی وفد کی ملاقاتوں کی تصاویر بنانا تھا اور کابل میں وہ وفد کے ہمراہ صدارتی محل میں مہمان تھے جہاں وفد کے دیگر اراکین بھی قیام پزیر تھے۔ تاہم وہ پانچ چھ روز میں ہی محل کے ماحول سے اکتا گئے۔
 
'محل میں ماحول اتنا ٹھنڈا تھا کہ وہاں رہنے میں مجھے خاص دلچسپی نہیں تھی۔ میرا خیال تھا کہ گلیوں، بازاروں میں گھوم کر عام لوگوں سے ملوں گا، ان کی تصاویر بناؤں گا، حالات جانوں گا۔ بھر میری درخواست پر مجھے وزیر اکبر خان کے علاقے میں ایک گیسٹ ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا۔'
 
تاہم مذاکراتی ٹیم سے منسلک ہونے کے ناطے انھیں آئے روز ہی صدارتی محل جانا پڑتا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے چپے چپے سے واقف ہو گئے۔
 
image
 
'عکس فوری' کا کمال
'میرا پہلا تعلق صدارتی محل کے سکیورٹی عملے سے جڑا۔ یہ دوستی بھی اس پولو رائیڈ کیمرے کی بدولت ہوئی جو میں اپنے ساتھ لیکر گیا تھا۔ میں جیسے ہی پولو رائیڈ سے تصویر کھینچتا تو وہ فوراً نکل کر سامنے آ جاتی۔ ویسے بھی پولو رائیڈ کیمرہ ان دنوں بالکل نیا نیا آیا تھا اور یہ ان کے لیے تو بہت ہی دلچسپ اور حیران کن چیز تھی۔'
 
زاہد بتاتے ہیں 'اس کے نتیجے میں میری (سکیورٹی عملے سے) دوستی گہری ہوگئی، یہاں تک کہ پاکستانی وفد کے اراکین مجھ سے حیرت سے پوچھتے کہ تم نے کیا جادو کیا ہے جو یہ لوگ تمہارے ساتھ رہتے ہیں؟'
 
کابل کے صدارتی محل کے محافظ ان کی ہر طرح خاطر کرتے۔ وہ انھیں قہوہ پلاتے، خشک میوہ جات کھلاتے۔ 'اگر میں فلم رول والے کیمرے سے ان کی تصویر بناتا تو وہ منع کر کے کہتے 'عکس فوری۔'
 
اس دوستی کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ زاہد کو بلا روک ٹوک محل میں گھومنے اور تصاویر بنانے کی کھلی اجازت مل گئی۔
 
image
 
'دوسری میری محل کے افسر مہمانداری سے بھی دوستی اسی کیمرے کے طفیل ہوئی جس کی بدولت مجھے ظاہر شاہ کی اس لائبریری تک رسائی حاصل ہوئی جس کے دروازے ہر کسی کے لیے بند تھے۔'
 
اسی طرح انھیں ظاہر شاہ کی خواب گاہ دیکھنے کا موقعہ ملا جہاں خلائی مشن اپالو گیارہ پر لائے گئے چاند کے پتھر بھی وہاں ایک خوبصورت ڈبے میں موجود تھے جو امریکی صدر نے تحفے کے طور پر ظاہر شاہ کو بھجوائے تھے۔
 
'محل کی دیواروں پر بیش قیمت خوبصورت فن پارے لگے ہوئے تھے جن میں سے بیشتر مشرقی یورپی ممالک مثلاً پولینڈ، چیکو سلوواکیہ اور وسطی ایشائی مصوروں کی تھیں۔ محل کے احاطے میں ایک میوزیم بھی تھا لیکن یہ مکمل طور پر سیل تھا۔'
 
مگر ظاہر شاہ کی لائبریری میں انھوں نے بہت وقت گزارا۔ 'اس کا راستہ ذرا ہٹ کر اوپر کی طرف سے تھا، جیسے دو چھتی ہوتی ہے۔ وہاں بڑی نایاب اور زبردست کتب کا ذخیرہ تھا اور میں کئی روز تک وہاں بار بار گیا۔ پولو رائیڈ کیمرے کے صدقے دوست بننے والا افسر مجھے اندر بھیج کر دروازہ باہر سے بند کر کے چلا جاتا اور میں کئی کئی گھنٹے اس لائبریری کو کھوجتا رہتا۔'
 
image
 
لائبریری سے 'ادھار' لیے گئے دستاویزات
زاہد علی خان کے لئیے وہ لائبریری ایک خزانہ ثابت ہوئی۔
 
وہاں انھیں ایک ایسی نایاب سند ملی جو ایک سفیر کی جانب سے اپنی تقرری کے موقع پر ملک کے صدر کو پیش کی جاتی ہے۔ یہ سابق یوگوسلاویہ کے آمر مارشل ٹیٹو کے دستخط سے جاری کردہ سند تھی جسے ملک کے سفیر نے ظاہر شاہ کی خدمت میں پیش کیا ہوگا۔
 
زاہد علی خان بتاتے ہیں کہ یہ سند ایک بیگ میں تھی اور اس کے ساتھ ایک خوبصورت سیل بھی موجود تھی۔ مارشل ٹیٹو کے دستخط دیکھ کر زاہد علی خان لائبریری سے وہ سند اپنے ساتھ لے آئے اور آج 28 برس بعد بھی وہ کراچی میں ان کے پاس محفوظ ہے۔
 
سند کے علاؤہ دہلی سے افغان سفیر کے بھجوائے گئے خطوط بھی زاہد اپنے ساتھ لے آئے جنھیں انھوں نے پاکستانی وفد میں شامل ایک شخصیت کے حوالے کر دیا۔ ان خطوط پر دری زبان میں 'اسلام آباد، دہلی، کابل' لکھا ہوا تھا۔
 
'مجھے سند اور خطوط چرانے پر بہت افسوس تھا۔ کئی بار سوچا کہ یہ سند افغانستان کی حکومت کو واپس کروں۔ صورتحال بہتر ہو تو سفارت خانے جا کر واپس دے دوں گا۔
 
کابل کی گلیوں میں عام شہریوں سے ملاقاتیں اور افغانوں کی مہمان نوازی
 
image
 
وزیر اکبر خان میں رہائش رکھنے سے زاہد کو کابل کے عام شہریوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ’جنگ کی حالت تھی اس لیے ہمیں باہر نکلنے اور اجنبیوں سے ملنے کی اجازت نہ تھی، تھی مگر میں نے اپنے شوق کی خاطر خطرہ مول لیا۔‘
 
وہ بتاتے ہیں: ’میں کیمرہ لے کر نکل جاتا۔ ایک سڑک سے گزرتے ہوئے ایک شوکیس کے پیچھے ایک صاحب پینٹنگ بنا رہے تھے۔ فن مصوری سے اپنی دلچسپی کے سبب میں فوراً ان کی طرف متوجہ ہوا اور وہیں کھڑے ہو کر ان کی تصویر بنائی۔ کیمرے کے کلک سے مصور نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور پھر مسکرا کر مجھے اندر بلا لیا۔‘
 
زاہد نے مصور کی تصویر بھی پولو رائیڈ کیمرے سے بنائی تھی۔ وہ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں صدارتی محل میں انھیں تجربہ ہو چکا تھا کہ ’عکس فوری‘ کیا کمال کی چیز ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب انھیں کسی سے بات کرنا ہوتی تو پہلے اسے عکس فوری پیش کرتے۔ یہی عکس فوری کابل کے اس مصور سے دوستی کا بھی ذریعہ بنا۔
 
اگلے روز زاہد علی خان اسی مصور کے گھر پہنچ گئے اور انھیں اندر ایک قدرے تاریک کمرے میں لے جایا گیا۔ ’مجھے محسوس ہوا کہ بہت سی آنکھیں مجھے دیکھ رہی ہیں اور کھسر پھسر ہو رہی ہے۔ پلٹ کر دیکھا تو اندھیرے میں کمرے میں 25-30 آنکھیں چمکتی نظر آئیں اور پھر اچانک قہقہ بلند ہوا اور بچے، جو اندھیرے سے مجھے دیکھ رہے تھے، باہر بھاگے‘
 
مصور نے زاہد کو بتایا کہ ان کا پورا خاندان ہی اس گھر میں رہتا ہے۔ ’کابل کے غیر یقینی حالات کے سبب پورا خاندان ہی وہیں جمع تھا۔‘ مصور نے زاہد سے کہا کہ ان کا خاندان پاکستانی فوٹو گرافر سے ملنا چاہتا ہے۔
 
image
 
ہندی فلموں کی شوقین جینز پہننے والی بچیاں
’میں اندر جاکر ان سے ملا دیکھا تو اندازہ ہوا کہ جنگ زدہ کابل کے اندر ایک اور کابل آباد ہے۔ میرا استقبال نمستے کہہ کر کیا گیا۔‘
 
زاہد نے انھیں بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور آپ مجھے سلام کر سکتے ہیں جس پر کچھ نوجوان لڑکیوں نے، جو ہندی فلمیں دیکھنے کے سبب ٹوٹی پھوٹی ہندی اور اردو بول لیتی تھیں، کہنے لگیں ’ہم سمجھتے تھے شاید پاکستان میں بھی سلام کو نمستے کہتے ہیں۔‘
 
زاہد علی خان اس خوفزدہ مگر زندگی سے بھرپور خاندان کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’ملاقات کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ ایک جدید گھرانہ تھا۔ جب میں نے ان کی تصاویر لیں تو وہ سب بہت خوش ہوئے۔ پھر میری سب سے دوستی ہوگئی اور بچے تو میرے دیوانے تھے، میرے چاروں طرف گھومتے، ہنستے اور کھیلتے رہتے۔
 
image
 
اس کے بعد پورے محلے میں مشہور ہو گیا کہ ایک پاکستانی صحافی فوٹو گرافر آیا ہوا ہے۔ ’یوں ہر روز ایک نئی فیملی مجھ سے ملنے آتی۔‘
 
زاہد علی خان کے لیے کابل کا یہ رنگ اس سے بالکل مختلف تھا جو وہ سوچ کر چلے تھے یا پھر صدارتی محل یا مذاکرات کے دوران انھوں نے محسوس کیا۔
 
’تب بازاروں میں خواتین نظر نہیں آتی تھیں لیکن کابل کے رہائشی علاقوں میں تو معاملہ ہی اور تھا۔ سڑکوں پہ جنگجو گھومتے تھے لیکن گلیوں کے اندر کابل کی زندگی تھی، اگرچہ ڈری اور سہمی ہوئی۔ جس افغانستان کے بارے میں، میں سوچتا تھا یا میرا تصور تھا کہ وہاں ہر طرف مجاہدین ہوں گے، وہاں لڑکیوں نے جینز اور ٹی شرٹ پہن رکھی تھیں۔ جس مصور کے گھر میں گیا ان کے ایک اور رشتہ دار ریڈیو کابل میں مدیر کبیر تھے، جسے میں نے سینیئر ایڈیٹر سمجھا۔ یہ سب لوگ تعلیم یافتہ تھے۔‘
 
ان ملاقاتوں سے زاہد کو پتہ چلا کہ کابل کے شہری بالکل مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ انھیں کوئی غرض نہیں تھا کہ یہاں پہلے کس کی حکومت تھی یا اب کون آئے گا، وہ صرف امن اور اپنی زندگیوں کا تحفظ چاھتے تھے۔
 
image
 
شہریوں اور جنگجوؤں میں تناؤ
زاہد کے مطابق جب مجاہدین کابل میں داخل ہوئے تو رشید دوستم کی ملیشیا سے متعلق لوٹ مار کی اطلاعات آنے لگیں۔ ’کابل کے شہریوں کا مجاہدین سے واسطے کا پہلا تجربہ بہت تلخ رہا جس کی وجہ سے وہ اس انقلاب سے متنفر ہوگئے جو کہ روس مخالف نظریہ سے ابھرا تھا۔‘’
 
ان کے مطابق کابل کے شہریوں اور مجاہدین میں ایک فرق مختلف نظریات کا بھی تھا۔ ’مجاہدین میں نچلے درجے کے بیشتر جنگجوؤں کا پس منظر دیہاتی تھا یا وہ پہلی بار شہر آئے تھے۔ ان سے کابل کے شہری متنفر تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مجاہدین کابل سے فوراً نکل جائیں۔ میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ افغانستان کے شہری علاقے الگ طرح سے سوچتے ہیں۔‘
 
زاہد کے مطابق روس اور امریکہ کے خلاف لڑنے والوں کی اکثریت دیہاتی پس منظر سے تعلق رکھتی تھی۔ اگرچہ کابل کے شہریوں کو اسلام سے کوئی مسئلہ نہ تھا مگر وہ مغربی تہذیب سے بھی متاثر تھے اور ان کے خاندانوں میں کئی افراد جرمنی، چیکو سلواکیہ اور روس میں مقیم تھے۔
 
’جس گھرانے سے میری دوستی ہوئی اس خاندان کے 15 سے 20 نوجوان لڑکے لڑکیاں روس میں زیر تعلیم تھے۔ انہی دنوں ایک نوجوان آیا ہوا تھا جس نے مجھے بتایا کہ ہمیں (روس میں) مفت تعلیم اور وظیفہ ملتا ہے اور ظاہر ہے جب اتنی سہولتیں مل رہی ہوں تو ان کا سویت یونین سے تعلق بھی بنتا ہے۔‘
 
image
 
مجاہدین کے زمانے کی ویڈیو مارکیٹ
زاہد علی خان بتاتے ہیں کہ ایک روز جب وہ صدارتی محل میں موجود تھے تو ان کے ساتھ گھومنے والے محافظ کو جنریٹر خریدنے بازار جانے کا حکم ملا۔ ’میں نے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی تو محافظ آمادہ ہوگئے۔ وہاں میں نے ایک دلچسپ منظر دیکھا جب محافظ نے پانچ چھ بوریوں میں نوٹ بھر کر گاڑی کی ڈگی میں رکھے، جن کی پاکستانی مالیت تقریبا چودہ ہزار روپے تھی۔‘
 
محافظ کے ساتھ بازار پہنچنے کے بعد زاہد علی خان کے لیے حیرت انگیز منظر ایک ویڈیو شاپ کا تھا۔
 
’میں نے محافظ سے کہہ کر گاڑی رکوائی۔ مجاہدین کے ہوتے ہوئے ویڈیو شاپ کا کیا کام؟ میں اسے دیکھنے گیا تو وہاں میرے سامنے ایک پتلی سی گلی ہے تھی جہاں بے شمار ویڈیو شاپس تھیں، بالکل ویسے ہی جیسا کہ ایک زمانے میں کراچی کے رینبو سینٹر میں ہوا کرتی تھیں۔ اس بازار میں بھرپور گہما گہمی تھی اور قطار سے چھوٹی چھوٹی دوکانیں موجود تھیں جہاں ہندی فلموں کی بھرمار تھی۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ کابل کا شہری طبقہ انڈین کلچر سے کتنا متاثر ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ نمستے کہہ کر میرا استقبال ہوا تھا۔‘
 
میں نے سن رکھا تھا کہ افغانستان میں روس سے آئی مختلف اشیا سستے داموں مل جاتی ہیں۔ صدارتی محل کے محافظوں کے ہمراہ میں ایسے ہی ایک بازار میں گیا۔ مجھے قدیم زمانے کا منظر پیش کرتی ایک دوکان نظر آئی اور اس میں موجود ایسا ہی پراسرار سا بوڑھا دوکاندار تھا جس نے نہایت گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔
 
’میں نے وہاں سے روسی ساختہ کیمرے زینکس اور پندرہ فلٹر خریدے جو کل ملا کر دو سو پاکستانی روپوں میں ملے۔ اسی طرح ایک بازار میں ایک خاتون نے نہایت قیمتی چادر زبردستی میرے ہاتھ میں رکھ دی جو میں نے سستے داموں لے لی حالانکہ اس کی قیمت زیادہ ہونی چاہئیے تھی۔‘
 
image
 
جب کنپٹی پر کلاشنکوف نہیں، راکٹ کی نوک محسوس ہوئی
زاہد علی خان بتاتے ہیں کہ ہیں مسلسل تصاویر بنانے کی وجہ سے پولو رائیڈ کیمرے کے کارٹریج ختم ہوئے اور فلم کے رول بھی کم پڑ گئے۔ کابل پہنچنے کے ہفتہ دس دن بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک ساتھی ڈرائیور کے ساتھ پاکستان جا کر تصاویر اخبارات تک پہنچاؤں اور نئی فلم لے کر واپس آ جاؤں۔
 
’ہم شام چھ بجے کابل سے نکلے اور رات 12 بجے طور خم پہنچے، راستے میں ایک اوسان خطا کر دینے والا واقعہ پیش آیا۔ جلال آباد سے آگے سنسان سی جگہ ہمیں جنگجؤوں نے روکا۔ ایک خوفناک قسم کے نوجوان نے سیب کھاتے ہوئے میری کنپٹی پر پستول نہیں، کلاشن کوف بھی نہیں، بلکہ راکٹ کی نوک رکھ دی۔ تب میں نے سوچا شاید یہ زندگی کا آخری لمحہ ہو۔ دری میں اسلحہ بردار نے پوچھا، کون ہو تو میں نے بمشکل وہ جملہ دہرایا جو میں نے یاد کیا ہوا تھا: خبر نگار در پاکستان است۔‘
 
یہ سن کر جنگجو نے لانچر نیچے کیا، جیب سے دوسرا سیب نکال کر مجھے دیا اور تہینتی کلمات کے ساتھ رخصت کیا۔
 
’اس زمانے میں لفظ پاکستان ہمارا پاسپورٹ تھا۔ ہم جہاں جاتے لوگوں کو پتہ چلتا کہ پاکستان سے ہیں تو ان کا رویہ تبدیل ہو جاتا، وہ خوش ہوتے تھے۔‘
 

زاہد علی خان بتاتے ہیں کہ قاضی حسین احمد کی سربراہی میں وفد نے جان توڑ کوشش کی کہ مذاکرات کامیاب ہوں مگر ایسا نہ ہوسکا۔ سعودی عرب، امریکہ، پاکستان، ایران اور انڈیا، سب بھی اپنے اپنے انداز سے اس میں ملوث تھے۔ ’شاید یہ معاملہ قاضی حسین احمد، حمید گل اور کچھ سفرا کے بس کا تھا ہی نہیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: