اس رات وہ مر گئے تھی ۔ یا پھر مار دی گئے تھی ۔ صرف ایک
زخمی ماں زندہ بچی تھی جو کسی بھی طرح اپنے بچوں کو پروان چڑھانا چاہتی تھی
۔
اسےلگتا ہے وہ مسکرانے ، ہنسنے یا خوش ہونے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔ وہ بہت
کوشش کے بعد مسکرا نہیں پاتی ۔ اکثر اس کوشش میں آنسو نکلنے کو بے تاب ہو
جاتے ہیں ۔ شاید اب وہ صرف خود پر ہنس سکتی ہوں ۔
اس سب کے باوجود وہ شدت سے چاہتی کے اس کے بچے خوش رہیں ۔ جانتی ہے کہ اسے
اس طرح دیکھ کر وہ خوش نہیں رہ سکتے اسی لیے کوشش کرتی ہے کہ ڈرامہ کرنا
سیکھ جائے۔ وہ لوگ کتنے بہادر ہوتے ہیں جو اپنے اندر کو باہر نہیں آنے دیتے
۔ پر وہ کبھی بھی بہادر نہیں تھی ۔ بالکل ٹھیک محاورہ ہے “ جو ڈر گیا وہ مر
گیا “ مر ہی تو گئی تھی وہ ۔ بس سانسیں چل رہی تھیں ۔ہمیشہ سانس لیتا انسان
زندہ نہیں ہوتا ۔
پر یہ بھی سچ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے جینا چاہتی ہے ۔شائد ایک دن وہ پھر
سے جی اٹھے، پھر سے مسکرانے لگے۔ ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتاہے ۔جو ہو چکا
ہے اس کے بارے میں بھی تو کبھی نہیں سوچا تھا ۔ آگے کیا ہو اس کے بارے میں
بھی کیسے سوچ سکتے ہیں ۔انسان کی اوقات تو یہ ہے کہ خود اپنے دل پر کوئی
اختیار نہیں ۔ شاید کبھی اس دل اسے پھر سے خوش رہنا سکھا دے ۔
اس کے اندر کی ماں بس یہ چاہتی ہے کہ وہ بچوں کو خوش رکھ سکے اس کے بچے اس
کے چہرے کو دیکھ کو مطمعین ہو سکیں ۔ خدا کرے ایسا ہو ۔آمین
|