شہر کراچی کا باسی ہونے کے ناطے اس شہر کی حالت کو دیکھ
کر دل کڑھتا ہے۔ آج جہاں دنیا کے جدید شہر بنیادی مسائل سے آزاد ہوکر ملکی
ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں وہیں علم تہذیب اور دینی درسگاہوں کا
امین یہ شہر اور اس کے باسیوں کی زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ اذیت اور
پریشانیوں سے بھرپور ہوتی جارہی ہے۔ ایک زمانے میں شہر کراچی مہذب اور لطیف
شخصیت کے حامل لوگوں کا مسکن ہوا کرتا تھا۔ آج حال یہ ہے کہ روڈ پر ہونے
والے ایک چھوٹے سے حادثے پر عوام رد عمل ایسا دیتی ہے کہ سننے والے گر
کانوں پر ہاتھ نہ رکھیں تو انکی گالیوں کی لغت میں اضافہ ہوجائے۔ شہر سے
حکومتی حلقوں کو کوئ سروکار نہیں۔ انکا تعلق کراچی اور اسکے باسیوں سے صرف
اتنا ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں کے ذریعے اقتدار کے ایوان تک پہنچ سکیں علاوہ
ازیں اسکی اہمیت انکے مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد کچھ بھی نہیں۔ ڈھائ کروڑ
آبادی کا شہر پانی بجلی، راہزنی اور اس جیسےان گنت مسائل کا شکار ہے مگر اس
بدقسمت شہر کا کوئ پرسان حال نہیں۔ سیاسی کشمکش نے یہاں کے باسیوں کا سیاسی
شعور انکی تہذیب انکی علمیت انکا نیکی کرنے کا رجحان سب ہی کچھ چھین لیا۔
شہر میں نکلنے کے بعد احساسات کچھ یوں ہوتے ہیں جیسے شہر اپنی حالت پر ماتم
کررہا ہو اور ہم اسکو نظر انداز کرتے ہوئے اسکی ہر چیز کا بےجا استعمال
کرتےہوئے اسکو ہی گالی بھی دے رہے ہیں۔
آہ ! ایسی بدقسمتی تو تیرے سوا کسی کے مقدر میں نہیں میرے کراچی! کیا چیز
ایسی ہوئ کے جس کے باعث آج تو اور تیرے باسی اپنے بدترین دور سے گزررہے ہیں
؟ کچھ سوچ سکتا ہے تو ؟ جا ذرا اپنے ماضی کے اوراق کو پلٹ جب تیرے پاس امن،
محبت، بھائ چارہ، نیکی کا جذبہ سب کچھ وافر مقدار میں تھا۔ جب تو مدارس اور
دینی درسگاہوں کا "یورپ" کہلاتا تھا۔ جب بزرگان دین تیرے لئے دعائیں اور
تیری سلامتی کو راتوں میں اٹھ اٹھ کر مانگتے تھے۔ جب تو پورے ملک کو اپنے
اندر سما کر یکجا کر کے رکھتا تھا۔ جب تیرے باسی یہاں ناپ تول میں کمی سے
لے کر چوربازاری تک کی ساری برائیوں کو نہ کرتے تھے اور اگر کوئ اس میں
ملوث پایا جاتا تو اسکے خلاف شعوری جدوجہد کرتے تھے۔ تو نے اس ملک کے دفاع
میں اپنا کردار ڈاکٹر عبدالقدیر کی شکل میں کیا۔ تو نے سب ہی کچھ تو اس ملک
کے لیے کیا پھر کیا چیز تجھے لے ڈوبی ؟؟
تیرا امن و سکون دین سے مشروط تھا مگر تیرے باسیوں نے اسکی قدر نہ کی۔ اب
یاد کر ان علمائے دین کی شہادتیں کے جن پر تیرا ردعمل کسی منافق سے کم نہ
تھا۔ یاد کر وہ وقت جب علمائے دین کو تیری گلی کوچوں میں دین دشمن و ملک
دشمن طبقہ گولیوں سے بھون رہا تھا۔ یاد کر حکیم سعید جیسا درویش صفت آدمی
تیرے ہے شہر میں داعئ اجل کو لبیک کہہ کر گیا۔ ارے وہ بھی یاد کر جب یہاں
پر اختلافات کا اختتام کسی ایک کی موت پر ہی ہوتا تھا۔ وہ وقت بھی یاد کر
جب تو کسی اور کی جنگ کا میدان بنا تب بھی تیرے باسی خاموش رہے اور ظالم کی
ہاں میں ہاں ملائ۔ آج یہ بے رونقی بے برکتی افراد کی طبیعتوں میں انتشار کا
موجب وہی سب کچھ ہے کہ جو پچھلی دہائ میں تیرے اوپر بیت گیا۔ آج تو وہ ہی
سب بھگت رہا کہ جس کے ظاہری مفاد نے تیرے باسیوں کی آنکھ پر پردہ زمانے سے
ڈالا ہوا تھا۔
بھلائ اسی میں ہے کہ جہاں سے شروع ہوا تھا اس وقت کو واپس لانے کی کوشش کر۔
ورنہ تو بھی لیبیا، شام، عراق کے خوبصورت شہروں کی طرح عوامی بغاوت اور
خانہ جنگی کا مرکز بن جائیگا۔
سید منصور حسین (مانی)۔
|