دوسری جنگ عظیم جاری تھی اور جرمن جہازوں کے حملوں سے بہت
سا جانی نقصان بھی ہو رہا تھا اور ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے تھے ان ابتر
حالات میں ایک شخص نے ملکی صورت حال پر پریشانی کا اظہار کیا توچرچل نے
پوچھا ،’’ کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں‘‘ ۔ اسے بتایا گیا کہ عدالتوں
میں جج موجود ہیں اور لوگوں کو انصاف فراہم کر رہے ہیں۔ چرچل نے کہا کہ رب
کا شکر ہے ، جب تک عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں کچھ غلط نہیں ہو سکتا۔
مشکل حالات میں جج حضرات یا تو تاریخ کو دھراتے ہیں یا پھر تاریخ رقم کرتے
ہیں۔چرچل کے حوالے سے کچھ دوستوں سے بات چیت ہو رہی تھی اور ہم لوگ اپنی
عدالتوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ ہمیں کیانصاف ملتا ہے۔ کیا ہماری
عدالتیں انصاف دے رہی ہی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے ذہن میں بھی
گردش کرتا ہے۔ ہمارے نظام انصاف میں ایک اور خوبی بڑی نمایاں ہے۔ کوئی با
اثر آدمی یا کوئی مالدار آدمی عدالت سے رجوع کرے، تو انصاف کے دروازے اس کے
لئے فوراً کھل جاتے ہیں۔ چند دنوں میں وہ اپنا مقصد پا لیتا ہے۔ مگر ایک
عام شخص فقط انتظار کرتا ہے۔ حال ہی میں ایک خبر سامنے آئی ہے، ایک عا م
آدمی ایک بنک کے خلاف کیس کرتا ہے اور صرف اٹھائیس سال بعد اسے انصاف مل
جاتا ہے۔بڑا خوش قسمت شخص ہے اور اس شخص کی ہمت قابل داد ہے کہ اٹھائیس سال
تک انصاف کے لئے جدوجہد کرتا رہا وگرنہ عام لو گ بڑی حد یہ کہ پانچ چھ سال
کی مشقت کے بعد تھک ہار کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔اٹھائیس سال ایک لمبا عرصہ ہے
اس لمبے عرسے میں ہمت تو کیا بہت سے زندگی بھی ہار جاتے ہیں۔ یہاں عام آدمی
کے مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں۔ دادے کا کیاہوا پوتے بھگتتے ہیں۔ہاں آپ اگر
انصاف خرید سکتے ہیں تو آپ کی مشکلیں جلد ختم ہو جاتی ہیں۔یہ بات انصاف
فراہم کرنے والوں کو بھی معلوم ہے مگر ان کی کیا مجبوریاں ہیں یہ وہی بتا
سکتے ہیں۔
اسلام آباد کا مکین ایک دوست بتانے لگا کہ اس کا ایک عزیز اس کے پاس آیا کہ
بورڈ کی طرف سے جاری کردہ اس کے سرٹیفیکیٹ پراس کا نام غلط لکھا گیا ہے مگر
کوشش کے باوجود بورڈ والے اسے صحیح کرنے کو تیار نہیں۔ میں نے اسے کہا کہ
میں کسی اچھے وکیل سے مشورہ کرکے تمہیں بتاؤں گا۔ اتفاق کی بات میرے آبائی
قصبے میں میرا ایک پرانا کلاس فیلو وکیل ہے اور خوب پریکٹس کرتا ہے۔ اس کے
بارے میں دوستوں میں مشہور تھا کہ وہ ایل ایل بی کرنے گیا مگر دو سال کی
بجائے چار پانچ سال گزارنے کے باوجود پاس نہیں ہو سکا۔ مگر جعلی ڈگری پر
شاندار انداز میں پریکٹس کر رہا ہے۔علاقے میں اس کی وکالت کی بہت دھوم ہے۔
میں مشورہ کرنے اس کے پاس چلا گیا۔ اس سے تھوڑی سی بات سنی اور کہا فکر نہ
کرو تمہارا کام چند دنوں میں ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ بھائی تم اسلام
آباد جاؤ گے،بہت خرچہ ہو جائے گا، مجھے فقط طریقہ بتا دو۔ ہنس کر بولا کہ
اسلام آباد کیوں جاؤں گا۔ میں یہاں بار کا عہدیدار بھی ہوں۔ یہیں تمہارا
کام ہو جائے گا۔ مگر یہ اس عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتا، میں نے دبے
دبے لفظوں میں کہا۔ جواب ملا، وکیل میں ہوں کہ تم۔ اتنے عرصے بعد ملاقات
ہوئی ہے کچھ پرانی یادیں تازہ کرو، پیار محبت کی بات کرو۔ میرا کام مجھ پر
چھوڑ دو۔دو تین دن بعد کیس وہیں اس قصبے کی عدالت میں تھا۔ جج صاحب نے
دائرہ کار کی بات کی ، وکیل صاحب نے کہا، میرا ذاتی کیس ہے، دائرہ کار کو
بھول جائیں۔ جج صاحب نے پھر کوئی بات کہی۔ وکیل صاحب ناراض ہو کر بولے۔ آپ
نے اس کیس کا فیصلہ کرنا ہے یا نہیں۔ جج صاحب بولے ناراض نہ ہوں آپ کا ذاتی
کام ہے کیوں نہیں کرنا۔لگتا تھا کہ جج صاحب اس سے خائف تھے۔ چند دن میں
فیصلہ ہمارے ہاتھ تھا۔ وہ فیصلہ ہم نے اسلام آباد جمع کروایا ۔ وہاں بھی د
ائرہ کار کے بارے کسی نے نہ پوچھا نہ اعتراض کیا اور ہمارا مسئلہ حل ہو
گیا۔اب سنا ہے کہ ہمارے اس دوست کی ڈگری جعلی ثابت ہونے پر اس ہونہار وکیل
کو وکالت سے روک دیا گیا ہے۔
یہ تو چھوٹے علاقوں کی چھوٹی عدالتوں کا حال ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی پچاس
ہزار سے زیادہ کیسزسنوائی اور فیصلے کے منتظر ہیں۔ججوں کا دل ہی نہیں کرتا
کہ کوئی فیصلہ دیں۔ چیف جسٹس صاحب کو چائیے کہ ججوں کو پابند کریں کہ وہ ہر
ہفتے کچھ فیصلے ضرور کریں۔ پھر عدالتوں کا کیس سننے کے حوالے سے ایک پرانا
فرسودہ سا نظام ہے۔ ثیزوں کو آسان کریں۔یوں ان کا بوجھ بھی کم ہو گا اور
لوگ بھی مطمن ہوں گے۔مگر یہاں فیصلے زیادہ تر مخصوص لوگوں کے ہی ہوتے ہیں۔
لوگ پریشان دیکھتے ہیں کہ بڑے لوگوں کے کیس کسی قطار کے محتاج نہیں ہوتے وہ
پیش ہوتے ہیں، سنے جاتے ہیں اور دنوں میں فیصلے ہو جاتے ہیں جب کہ عام آدمی
کو انتظار اور تاریخوں کی ذلت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔اس چیز کا سد باب بہت
ضروری ہے۔ آج سپریم کورٹ میں جس چیز کی کمی شدت سے محسوس کی گئی ہے وہ
ڈسپلن کی کمی ہے۔ امید ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ کا تاثر خراب نہیں ہونے دیں
گے۔ سپریم کورٹ کے جج بھی عام آدمی کی طرح ہیں انہیں مقدس پن کی آڑ میں
اپنی کسی کمزوری کو چھپانے کی اجازت دینا یا اپنا اختیار استعمال کرکے خود
کو محفوظ بنانا، آئین،قا نون ، معاشرے اور سب سے بڑھ کر رب کے اصولوں کی
خلاف ورزی ہے۔ ججوں کا صاف ستھرا پن تو معاشرے کا رول ماڈل ہے اس ماڈل کی
حفاظت ججوں کا ایمان ہونا چائیے۔
عدالتوں کے بارے ہم دوستوں کی گفتگو بہت دیر جاری رہی۔عدالتوں کے بارے
سینکڑوں قصے اور لطیفے مشہور ہیں۔ کبھی کسی بار میں چلے جائیں ہر وکیل اور
ہر جج کے بارے تفصیل آپ کے سامنے ہو گی۔ہماری گفتگو میں شامل کوئی بھی اس
عدالتی نظام سے مطمن نہیں تھا۔ سب کا خیال ہے کہ ہماری عدالتیں کو انصاف سے
کوئی غرض نہیں، وہ ایک مخصوص دائرے میں قانون کی پابند ہیں۔عدالتیں اور
ہمارے وکلا فقط قانون سے کھیلتے ہیں۔ پھر عدالتوں میں ایک قانونی سوئچ اوور
بھی لگایا ہوا ہے۔ کوئی بااثر آدمی آئے تو سوئچ اس طرح کام کرتا ہے کہ
انصاف کا پلڑا اس با اثر کی طرف ہو جاتا ہے ، مہنگا وکیل بات سنانے کا فن
بھی جانتا ہے اور اسے احترام بھی دیا جاتا ہے۔ کوئی عام آدمی آئے توسوئچ
اوور کے بعد اس کی آمدعدالتوں پر گراں گزرتی ہے، اس کا سستا وکیل اﷲ کی
مستقل مدد کا منتظر رہتا ہے۔ عام آدمی کا کیس ٹھیک طرح سے سنا ہی نہیں
جاتا،انصاف تو بڑی دور کی بات۔کچھ عجیب ہے کہ ہمارے جج قانون کے بہت پابند
مگر انصاف سے لا تعلق ہیں۔ انصاف بہت دفعہ قانوں سے ہٹنا مانگتا ہے جس پر
سوچ رکھنے والے جج ہی عمل پیرا ہوتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ میری بات کئی لوگوں
کو گراں گزرے مگر یہ اہل فکر کے سوچنے کی بات ہے کہ کیوں لوگوں میں یہ سوچ
پنپ رہی ہے کہ ہماری ابتری کی وجہ یہی ہے کہ عدالتیں عام آدمی کو انصاف
دینے میں ناکام ہیں۔
|