اﷲ رب العزت نے نبوت کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام
سے فرمائی او راس کی انتہا محمد عربی ﷺکی ذات اقدس پر فرمائی۔ آنحضرت ﷺپر
نبوت ختم ہو گئی۔ آپ ﷺ آخر الانبیاء ہیں، آپﷺ کے بعد کسی کو نبی نہ بنایا
جائے گا۔ اس عقیدہ کو شریعت کی اصطلاح میں’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ کہا جاتا
ہے۔ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور
ضروریات دین میں شمار کیے گئے ہیں اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر
مسلمان اس پر ایمان رکھتاآیا ہے کہ آنحضرت ﷺ بلاکسی تاویل اور تخصیص کے
خاتم النبیین ہیں٭قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ٭رحمت عالم ﷺ کی احادیث
متواترہ (دو سودس احادیث مبارکہ)سے یہ مسئلہ ثابت ہے ٭ آپ ﷺ کی اُمّت کا سب
سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا ، چنانچہ امام العصر حضرت سیّد محمد
انور شاہ کشمیریؒ اپنی آخری کتاب ’’خاتم النبیین‘‘ میں تحریر فرماتے
ہیں:ترجمہ : ’’اور سب سے پہلا اجماع جو اس اُمّت میں منعقد ہوا وہ مسیلمہ
کذاب کے قتل پر اجماع تھا، جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت تھا، اس کی دیگر
گھناؤنی حرکات کا علم صحابہ کرامؓ کو اس کے قتل کے بعد ہوا تھا، جیسا کہ
ابن خلدون نے نقل کیا ہے، اس کے بعد قرناً بعد قرنٍ مدعی نبوت کے
کفروارتداد پر ہمیشہ اجماع بلافصل رہا ہے اور نبوت تشریعیہ یا غیر تشریعیہ
کی کوئی تفصیل کبھی زیر بحث نہیں آ ئی ‘‘(خاتم النبیین، ص:67، ترجمہ ص:197
) مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے اپنی تصنیف’’مِسک الختام فی ختم نبوت
سیّدالانام‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ:’’اُمت محمدیہ میں سب سے پہلا اجماع
جوہوا، وہ اسی مسئلہ پر ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے‘‘ (احتساب
قادیانیت ، ج ، 2 ، ص : 10)آنحضرت ﷺ کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ ودفاع
کے لیے جتنی جنگیں لڑی گئیں، ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی کل
تعداد259 ہے۔ رحمۃ للعالمین، ج2،ص:213 قاضی سلمان منصورپوریؒ) اور عقیدہ
ختم نبوت کے تحفظ ودفاع کے لیے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ سیّدنا صدیق
اکبر ث کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی،
اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہؓ اور تابعین کی تعداد بارہ سو ہے (
ختم نبوت کامل ، ص : 304 ، حصہ سوم از مفتی محمد شفیع ؒ) رحمت عالم ﷺ کی
زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرامؓ ہیں، جن کی بڑی
تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لیے جام شہادت نوش کر گئی۔ اس سے ختم نبوت کے
عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرامؓ میں سے ایک
صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری خزرجیث کی شہادت کا واقعہ ملاحظہ ہو:’’حضرت
حبیب بن زید انصاری ث کو آپﷺ نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب
کی طرف بھیجا، مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیب ث کو کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو
کہ محمدؐ اﷲ کے رسولؐ ہیں؟ حضرت حبیبث نے فرمایا ہاں، مسیلمہ نے کہا کہ کیا
تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اﷲ کا رسول ہوں؟ حضرت حبیب
ث نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں، تیری یہ بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ
بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے او رمسیلمہ ان کا ایک ایک عضو
کاٹتا رہا،حتیٰ کہ حبیب بن زید ث کی جان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کر
دیا گیا۔‘‘(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ،ج1 ، ص : 370 )اس سے اندازہ ہو
سکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت واہمیت سے کس طرح
والہانہ تعلق رکھتے تھے، اب حضرات تابعین میں سے ایک تابعی کا واقعہ بھی
ملاحظہ ہو:’’حضرت ابو مسلم خولانی رث جن کا نام عبداﷲ بن ثوب ث ہے اور یہ
اُمت محمدیہ(علی صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لیے اﷲ
تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرما دیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے
لیے آتش نمرود کو گلزار بنا دیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکاردو
عالم ﷺ کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے لیکن سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت
میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن
میں نبوت کا جھوٹا دعوی ٰدار اسود عنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی
نبوت پر ایمان لانے کے لیے مجبور کیا کرتا تھا اسی دوران اس نے حضرت ابو
مسلم خولانی ث کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اوراپنی نبوت پر ایمان لانے
کی دعوت دی، حضرت ابو مسلم ث نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم
محمدﷺکی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلم ثنے فرمایاہاں، اس پر اسود
عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی او رحضرت ابو مسلم ث کو اس آگ میں ڈال دیا،
لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کے لیے آگ کو بے اثر فرما دیا اور وہ اس سے صحیح
سلامت نکل آئے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی او راس کے رفقا پر
ہیبت سی طاری ہو گئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلا
وطن کر دو، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروؤں کے ایمان میں تزلزل
نہ آجائے، چنانچہ انہیں یمن سے جلا وطن کر دیا گیا۔ یمن سے نکل کر ایک ہی
جائے پناہ تھی، یعنی مدینہ منورہ، چنانچہ یہ سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں
حاضر ہونے کے لیے چلے، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہواکہ آفتاب
رسالتﷺ روپوش ہو چکا ہے۔ آنحضرت ﷺ وصال فرماچکے تھے اور حضرت صدیق اکبرث
خلیفہ بن چکے تھے، انہوں نے اپنی اونٹنی مسجد نبویﷺ کے دروازے کے پاس
بٹھائی او راندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کر دی وہاں حضرت
عمر ث موجود تھے۔ انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے
پاس آئے او رجب وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو ان سے پوچھا: آپ کہاں سے آئے
ہیں؟ یمن سے! حضرت ابو مسلمث نے جواب دیا۔ حضرت عمر ث نے فوراً پوچھا: اﷲ
کے دشمن (اسود عنسی) نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈال دیا تھا اورآگ نے ان
پر کوئی اثر نہیں کیا تھا، بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسود نے کیا معاملہ
کیا؟ حضرت ابو مسلمؓ نے فرمایا: ان کا نام عبداﷲ بن ثوب ؓہے۔ اتنی دیر میں
حضرت عمرث کی فراست اپنا کام کرچکی تھی، انہوں نے فوراً فرمایا: میں آپ کو
قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں؟ حضرت ابو مسلم خولانی ؓ نے
جواب دیا: جی ہاں! حضرت عمرثنے یہ سن کر فرطِ مسرت ومحبت سے ان کی پیشانی
کو بوسہ دیا او رانہیں لے کر حضرت صدیق اکبرث کی خدمت میں پہنچے، انہیں
صدیق اکبر ث کے اور اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایا: اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ
اس نے مجھے موت سے پہلے اُمت محمدیہ (علی صاحبہا الف تحیۃ) کے اس شخص کی
زیارت کرادی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام جیسا
معاملہ فرمایا تھا۔ (حلیۃ الاولیا،ص : 129 ،ج:2تہذیب، تاریخ ابن عساکر، ص
:315 ، ج 7 جہاں دیدہ وترجمان السنۃ)قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے
متعلق ’’رب العالمین‘‘ آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کے لیے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ اور
بیت اﷲ شریف کے لیے ’’ھدی للعالمین‘‘ فرمایا گیا ہے، اس سے جہاں آنحضرت ﷺ
کی نبوت ورسالتؐ کی آفاقیت وعالم گیریت ثابت ہوتی ہے، وہاں آپ ﷺکے وصف ختم
نبوت کا اختصاص بھی آپ ﷺکی ذات اقدس کے لیے ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ پہلے
تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لیے
تشریف لائے، جب آپؐ تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپؐ کی نبوت و
رسالتؐکے لیے ایک اکائی(ون یونٹ) بنادیا۔
جس طرح کل کائنات کے لیے اﷲ تعالیٰ ’’رب‘‘ ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لیے
آنحضرت ﷺ’’نبی‘‘ ہیں۔ یہ صرف اور صرف آپ ﷺ کا اعزاز واختصاص ہے۔ آنحضرت ﷺ
نے اپنے لیے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے:’’ارسلت
الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون‘‘ترجمہ:’’میں تمام مخلوق کے لیے نبی بنا کر
بھیجا گیا او رمجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔‘‘آنحضرت ﷺ آخری نبیؐ
ہیں، آپﷺ کی اُمت آخری اُمّت ہے، آپ ﷺ کا قبلہ آخری قبلہ(بیت اﷲ شریف) ہے،
آپ ﷺ پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپﷺ کی ذات کے ساتھ منصب
ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے پورے کر دیے۔ چنانچہ قرآن
مجید کو ذکر للعالمین اور بیت اﷲ شریف کو ھدی للعالمین کا اعزاز بھی آپ ﷺ
کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا۔ آپ ﷺ کی اُمت آخری امت قرار پائی، جیسا کہ
ارشاد نبو ی ہے:’’انا آخر الانبیاء وانتم آخر الامم‘‘حضرت علامہ جلال الدین
سیوطیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’خصائص کبریٰ‘‘ میں آپ ﷺ کا خاتم النبیین
ہونا، آپﷺ ہی کی خصوصیت قرار دیا ہے۔ (دیکھیئے ج2،ص:193، 197،284)
|