فرینک مورٹن: خلائی سٹیشن پر سبزی کے نام پر سلاد پتہ اگانے والے شخص کی کہانی

image
 
خلابازوں کو خلا میں صحت مند رہنے کے لیے بڑی مقدار میں سبزی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن مدار کے اندر ان کی کاشت کیسے ممکن ہے؟ شاید ایک شخص ہے جس کے پاس اس کا حل موجود ہے۔
 
فرینک مورٹن آریگون میں اپنے گھر پرواز کرنے سے پہلے نیو یارک میں اپنے دوست کے ساتھ کاشتکاروں اور باورچیوں کی ایک نمائش میں تھے جب ان کے دوست نے کہا: ’یہ دیکھو! انھوں نے سپیس سٹیشن پر لیٹس (سلاد پتا یا کاہو) کاشت کیا ہے۔‘
 
ان کی دوست نے اپنا موبائل پر اس کی تصویر دکھائی۔ مگر مورٹن پر اس کا اثر اس وقت ہوا جب انھوں نے ایک رسالے کے اندر خلا میں اگائی گئی لیٹس کی تصویر دیکھی۔
 
مورٹن نے تحقیق کرنے والی ٹیم سے رابطہ کیا۔
 
image
 
یہ وہی لیٹس تھی جس کو پہلے مورٹن نے سلاد کے مختلف پتوں کے ملاپ سے پیدا کیا تھا اور پھر اس کے بیج بازار میں فروخت کے لیے بھیج دیے تھے۔
 
اس کا نام انھوں نے آؤٹریڈجیئس رکھا تھا۔
 
چند سال بعد ان ہی بیجوں کا تجربہ خلا میں کیا گیا۔
 
انھوں نے لیٹس کی کاشت کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے۔اور ان کے تیار کردہ لیٹس کا خلائی سفر 40 برس قبل اس وقت شروع ہوا تھا جب انھوں نے سبز رنگ کے پتوں میں سرخ رنگ کا ایک پودا دیکھا تھا۔
 
سنہ 1981 میں انھوں نے لیٹس اگانے کے کام کا آغاز کیا۔ پہلے انھوں نے دو مختلف طرح کے لیٹس اگائے۔ جب وہ پک کر بیج دینے پر آئے تو انھوں نے کچھ بیج آئندہ فصل کے لیے بچا کر رکھ لیے۔
 
وہ کہتے ہیں ’جب اگلی فصل اگی تو سبز پتوں میں ایک پودا سرخ بھی تھا جسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔
 
’میں سمجھ گیا کہ یہ دو مختلف اقسام کی مخلوط شکل یا کراس ہے۔‘
 
انھوں نے اگلے سال مزید کراس پیدا کیے جو مختلف رنگوں اور شکلوں کے تھے۔
 
image
 
سلاد کی نت نئی اقسام پیدا کرنے سے ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہی ساتھ ہی ان کی مالی پوزیشن بھی بہتر ہو گئی۔
 
سرخ رنگ کے آؤٹریڈجیئس کی دریافت لیٹس کی دنیا میں ایک غیر معمولی اضافہ تھی کیونکہ اس وقت لیٹس ہرے رنگ کے ہوتے تھے۔
 
وہ کہتے ہیں ’اس کا رنگ اتنا لال تھا کہ بہت سے باغبان اسے بطور لیٹس شناخت ہی نہ کر سکے۔ وہ سمجھے یہ چقندر کی کوئی قسم ہے۔ میں نے اسی لیے اس کا نام آؤٹریڈجیئس رکھا۔‘
 
image
 
مورٹن نے آؤٹریڈجیئس کا تخم بازار میں فروخت کے لیے پیش کیا۔ جب انھوں نے امریکی خلائی ادارے ناسا کی اس ٹیم سے رابطہ کیا جس نے آؤٹریڈجیئس کی خلا میں کاشت کی تھی اور انھیں اس کی ایک اور غیر معمولی خاصیت کا بھی علم ہوا۔
 
جب سائنسدان اپنے تجربے کے لیے سلاد کے بیج تلاش کر رہے تھے تو وہ سبز سلاد کی ایسی اقسام کی تلاش میں تھے جو آسانی سے جراثیم کا گھر نہ بن جائیں۔
 
وہ نہیں چاہتے تھے کہ خلا باز خلا کے اندر سلاد کھانے کی وجہ سے پیٹ کے امراض میں مبتلا ہو جائیں۔
 
یہ خوبی آؤٹریڈجیئس میں موجود تھی۔
 
image
 
آج کل مورٹن سلاد اگانے کے کئی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔
 
ان کا کہنا ہے ’میں گلاب نما سلاد خریدنا چاہوں گا۔‘
 
اس سلسلے میں انھوں نے آئسبرگ کی افزائش پر کام شروع کر دیا ہے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ آئسبرگ کی طرح ہے، سوائے اس کے کہ باہر سے یہ سرخ ہے، اور میری کوشش ہے کہ اندر سے یہ گلابی ہو۔ میں تو کہوں گا کہ میرے پاس لیٹس کی بعض بہت خوبصورت اقسام موجود ہیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: