|
|
دو سال قبل جب علیزہ بیل نے اپنی بیسویں سالگرہ منائی
تھی اپنی عمر کے مطابق اپنی سالگرہ کی تقریب کے موقع پر وہ بہت پُرجوش تھی
اس کے بھی کچھ خواب تھے جن کی تعبیر اس نے حاصل کرنی تھی ۔ کچھ منصوبے تھے
جن کو اس نے وقت پر پورا کرنا تھا مگر علیزہ بیل کے لیے یہ خبر ایک سانحہ
سے کم نہ تھی جب اس کے ڈاکٹرز نے اس کو بتایا کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے
لیے صرف ایک سال ہے اس سے زيادہ اس کی زندگی ممکن نہیں ہے- |
|
اس کے زندہ رہنے کی واحد صورت یہی تھی کہ اس کا بیمار دل
کسی کے صحت مند دل سے تبدیل کر دیا جائے- اس کے علاوہ اس کے لیے زندہ رہنا
ممکن نہ تھا۔ اگرچہ علیزہ اپنے بیمار دل کی حالت سے 16 سال کی عمر سے واقف
تھی مگر اس کو یہ امید نہ تھی کہ اس کا دل اتنی جلدی ہار بیٹھے گا۔ |
|
علیزہ کا یہ کہنا تھا کہ ڈاکٹر کی یہ بات سن کر انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ
کسی تاریک غار میں گرتی جا رہی ہیں ان کا یہ کہنا تھا کہ اس وقت انہوں نے
اپنے بھائی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسی غار میں گرتی جا رہی ہیں
جہاں پر روشنی کی کوئی کرن نہیں ہے۔ |
|
|
|
اس وقت میں وہ مایوسی کے گہرے اندھیروں میں ڈوب گئیں اور
ان کے دل سے یہی شکوہ نکلا کہ دنیا کی اتنی بڑی آبادی میں صرف ان ہی کو
جینے کا حق کیوں نہیں۔ میں اپنے ہم عمر باقی افراد کی طرح زندگی گیوں نہیں
گزار سکتی۔ میرے لیے چند قدم لینا کیوں محال ہے ایسے بہت سارے سوالات کے
ساتھ علیزہ نے خود کو محدود کر لیا- |
|
اس وقت علیزہ کا دل صرف 20 فی صد کام کر رہا تھا اس وجہ
سے معمولی سا اٹھنے بیٹھنے سے بھی ان کی دل کی دھڑکن بہت تیز ہو جاتی اوران
کی حالت بگڑنا شروع ہو جاتی ان کی اس بیماری نے ان کو تنہا کر دیا رفتہ
رفتہ ان کے دوست ان سے بور ہونے لگے اور انہوں نے ان کو چھوڑنا شروع کر دیا- |
|
لیکن اسی دوران ایک ایسی خبر ان کو ملی جس نے علیزہ کے
بیمار دل میں ایک نئی روح پھونک دی۔ کسی کی دم توڑتی سانسیں علیزہ کے لیے
زندگی کی نوید لے کر آئی تھیں اور ڈاکٹرز کے مطابق علیزہ کے لیے ایک صحت
مند دل رکھنے والے ڈونر کا انتظام ہو گیا تھا۔ یعنی کسی کی موت علیزہ کی
زندگی کی نوید ٹہری- |
|
آپریشن تھیٹر جاتے ہوئے علیزہ بہت پر امید نہ تھیں کیوں
کہ یہ ایک مشکل آپریشن تھا۔ خوش قسمتی سے علیزہ کا آپریشن کامیاب رہا اور
ایک جانب جہاں علیزہ نئی زندگی کے ملنے پر خوش تھیں تو اس کے ساتھ ساتھ
اپنے ڈونر کے لیے اداس بھی تھیں جس کی موت اس کے گھر والوں کے لیے ایک صدمہ
تھی- |
|
|
|
اپنے ڈونر کی قربانی کے صلے کے بدلے میں علیزہ نے اپنی
پوری زندگی ایک عظیم مقصد کے تحت وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس نے اپنی
زندگی کو لوگوں کو اعضا کی ڈونیشن دینے کی تحریک کے حوالے سے معلومات فراہم
کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی- |
|
ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں بہت سارے افراد ایسے ہیں جو
دوسروں کی زندگی کا سبب بن سکتے ہیں مگر لاعلمی کے سبب ایسا نہیں کر سکتے
ہیں- اس وجہ سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کی
جائے تاکہ مایوس لوگوں کو زندگی کی نوید مل سکے- |