مہنگائی ایک طرف معاشرے کے ہر طبقے کو بری طرح متاثر
کررہی ہے تو دوسری طرف حکومت مسلسل مہنگائی کم کرنے کے کاغذی اعلانات کرر
ہی ہے۔ جب پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑحیں گی تو ان کے ساتھ ہر چیز کی
قیمت میں بھی اضافہ ہو گا۔مہنگائی کا ڈالر کی قدر بڑھنے سے بھی گہرا تعلق
ہے۔ پاکستانی کرنسی کی قدر کم ہو گی تو اشیاء کیسے سستی کی جا سکتی ہیں۔پیر
کو ملک میں ڈالر کی قیمت فروخت 171.60روپے رہی۔فی تولہ سونے کی قیمت بھی
بڑھ کر ایک لاکھ بارہ ہزار نو سو روپے پرپہنچ چکی ہے۔ اگر حکومت مہنگائی کم
کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو ڈالر اور سونے کی قدر میں کمی اور روپے کی قدر میں
اضافہ کرنے پر توجہ دی جاتی۔ ان حالات میں قیمتوں میں کمی کے حکومتی
اعلانات اور دعوے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہو
سکتے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کی یہ منطق سمجھ سے بالا تر ہے کہ حکومت کا
اشیائے ضروریات بشمول چینی، آٹا، دالوں کی قیمتوں میں جزوی طور پر کمی لانے
کے لیے مارکیٹ میں مداخلت کا فیصلہ کب اور کیا رنگ لائے گا۔ شوکت ترین
مارکیٹ میں تین طریقوں میں مداخلت کرنے خواب دکھا رہے ہیں۔ یہ لالی پوپ
ہیں۔جن کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹورز، اوپن مارکیٹ میں مداخلت اور معاشرے کے
کمزور طبقے کو ہدف بنا کر سبسڈی دینا شامل ہے۔جب کہ یوٹیلٹی سٹورز پر آئے
روز خوردنی اشیاء کی قیمتیں بڑھا ئی جا رہی ہیں۔ آٹا ، چینی، گھی کے نرخ
بھی آسمان کو چھو رہے ہیں۔کم آمدن والوں کا ہی نہیں سبھی لوگوں کا
عملاًجیسے جینا ہی حرام ہو چکا ہے۔
اگر وزیر خزانہ کا یہ دعویٰ درست ہے کہ ملک میں ایک کروڑ 25 لاکھ گھرانوں
کو سبسڈی دینے کے ہدف کے پیش نظر ایک کھرب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی
ہے تو یہ سوا کروڑ گھرانے کرہ ارض کے کس کونے میں بستے ہیں۔ اگر وزیر اعظم
عمران خان نے سپورٹ پیکج کی منظوری دی ہے تو اس کا فائدہ ان کے وزیر مشیر
ہی اٹھا رہے ہوں گے۔ عوام تک یہ سہولت ابھی تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ عوام
پٹرول، گیس، بجلی مہنگی کرنے کی سہولت سے ہی مستفید ہو رہے ہیں۔ کابینہ کی
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے جو پیکج منظور کیا ہے اس کا بھی پتہ نہیں کہ وہ کس
مخلوق کے لئے ہے۔ خوردنی تیل اور گھی پر سیلز ٹیکس کم کرنے کا اگر کوئی
فیصلہ ہواہے تو صارفین کو فوری طور پر ریلیف فراہم کیو ں نہ کیا جاسکا
ہے۔حکومت کے تخمینہ کے مطابق سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی سے خودرنی تیل یا
گھی کی قیمت میں 50 روپے فی لیٹر تک کی کمی آچکی ہے ۔مگر مارکیٹ میں قیمتوں
کا جائزہ لیں تو تیل، گھی کی قیمت میں کمی کے بجائے اس میں 50روپے لیٹر کے
حساب سے اضافہ ہوا ہے۔یوٹیلٹی سٹورز پر آٹے کے 20 کلو گرام کے تھیلے کی
قیمت میں 150 روپے اضافہ کیا گیا ہے۔حکومت نے اگر یوٹیلیٹی اسٹورز پر موجود
اشیا خورد و نوش پر سبسڈی برقرار رکھی ہے، تو چینی، گھی، تیل، دالوں اور
آٹے پر سبسڈی برقرار کیوں نہیں رہ سکی ہے۔ان کی قیمتیں کیسے بڑھ رہی
ہیں۔حکومت کی جانب سے ایک کروڑ 25 لاکھ گھرانوں کا ڈیٹا یوٹیلیٹی اسٹورز کے
الیکٹرانک سسٹم میں داخل کرنے کا اعلان بھی ہوائی ہے۔صارفین ابھی تک اپنے
انگلیوں کے نشانات یوٹیلیٹی اسٹور کے کاؤنٹر پر استعمال کر کے مقررہ سبسڈی
حاصل نہیں کر سکے ہیں۔حکومت نے حال ہی میں جو ٹیکس آرڈیننس جاری کیا ہے
تاکہ غیر رجسٹر شدہ ریٹیلرز کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جاسکے۔جس پر
ریٹیلرز ہڑتال پر جانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اس سے بھی اشیاء کی قیمتیں
بڑحیں گی اور ذخیرہ اندوزی کا رحجان پیدا ہو گا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) بھی افغانستان سے تازہ پھلوں کی درآمد پر
سیلز ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ملک میں میوہ جات کی افغانستان سے
درآمد ہوتی ہے۔ امریکی اور نیٹو فورسز کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان سے
اشیاء افغانستان سمگل ہوتی تھیں۔ لوگ ڈالرز اور پاؤنڈز کمانے کے چکر میں
ایسا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی بڑھ جاتی تھی۔ مگر اب ایسا
نہیں ہو گا۔ سپلائرز کی اب کسی دوسرے مارکیٹ پر نظر ہو گی۔ اگر حکومتی
اہلکاران کے ساتھ ساز باز نہ کریں تو وہ سمگلنگ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
ایف بی آر کی ٹیکس فری رعایت کا سرحد کے دونوں اطراف کے تاجر خیر مقدم کر
رہے ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر اشفاق احمد نے خود طور خم بارڈرپہنچ کر
افغانستان سے آنے والے پھلوں کے ڈیڑھ ہزار میں سے 1400 ٹرکوں کو کلیئر
کرایا۔تازہ میوہ جات پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ سے پاکستان میں ان کی قیمتیں کم
ہو سکتی ہیں۔ اگر حکومت نے سہولیات عوام تک پہنچانے میں دلچسپی اور سنجیدگی
کا مظاہرہ کیا ،مال کمانے والے مافیاز کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوئی تو سیلز
ٹیکس میں چھوٹ سے صارفین بھی مستفید ہوں گے ورنہ یہ دولت بھی مافیا کی
تجوریوں میں منتقل ہو جائے گی اور عوام دیکھتے رہ جائیں گے۔ عمران خان
حکومت اگر مہنگائی کم کرنا چاہتی ہے تو عوام کو لالی پوپ دینے کے بجائے
ڈالر اور سونے کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے پر بھر پور توجہ دے۔
|