دیدے نہ پھوٹ گئے جو اب یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں کہ زمانہ
سے تذکیر وتانیث کافرق ہی مٹتا جارہاہے۔ دفتر ہوں یا بازار، ہسپتال ہوں یا
تعلیمی ادارے ہر جگہ بندہ اسی مخمصے میں گرفتار ہوجاتا ہے کہ جس ہستی کا
سامنا ہورہا ہے وہ رضوان ہے یا رضیہ، بہزاد ہے یا مہناز کیونکہ اس موئی نئی
نسل نے تو اپنا ایسا چلن بدلا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لمبی گھنی سیاہ
زلفیں جن کے دام میں پھنسنے کو دل بیتاب ہوا جاتاہے وہ ایک صاحب زادے کے سر
کی زینت نکلتی ہیں۔ پینٹ شرٹ میں ملبوس جس شوخ و شنگ نوجوان ڈاکٹر سے
باپردہ خواتین معائنہ کروانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں وہ خود صنفِ
نازک کی نمائندہ نکلتی ہے۔ من و تو کا فرق ایسا مٹا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں
دیتا۔برسوں پہلے کہنے والے نے جو بات کہی تھی کہ
وحشت میں ہر عالم الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
اسے سچ ماننے میں پہلے تذبذب ہوتا تھا مگر اب بغیر وحشت کے ہی شاعر نامدار
کا مذکورہ بالا شعر ایک کھلی حقیقت دکھائی دیتا ہے۔لڑکے تو لڑکے ٹھہرے کہ
جن کے بیہودہ طور طریقوں پر کچھ لب کشائی کرنا خود اپنی عزت کو داؤ پر
لگانے کے مترادف ہے مگر یہ کہے بغیر رہا بھی نہیں جاتا کہ ملک و قوم کے
مستقبل کے معمار خود اپنے حال کی تعمیر کے قابل نہیں دکھائی دیتے۔کسی نے
کمر تک زلفیں بڑھائی ہوئی ہیں تو کوئی صفا چٹ چہرہ پر زنانہ لیپا پوتی کرکے
زنخوں کو مات دے رہا ہے اور کسی کے کپڑے فیشن کے ہاتھوں یوں پھٹے پرانے ہیں
کہ حلیہ سے بھیک منگا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ناگفتہ روداد تھی قوم کے سجیلے
جوانوں کی جو کبھی دھرتی کا مان ہوا کرتے تھے۔ رہی بات خواتین کی تو وہ
پہلے اپنے مجازی خداؤں کے لیے سجتی سنورتی تھیں مگر آ ج ان کا جلوہ ہر دیدہ
ور کے لیے عام ہے ۔ سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ جدید تراش خراش کے جو لباس زیبِ
تن کئے جارہے ہیں وہ ستر پوشی کے بجائے شہوانی جذبات کو برانگیختہ کرنے کا
فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ پہلے عاشقی معشوقی میں صاف چھپتے بھی نہیں
سامنے آتے بھی نہیں والی صورتحال ہوا کرتی تھی مگر آج میرا جسم میری مرضی
جیسے مذموم اور حیاسوز نعرے لگاتی صنفِ نازک اپنے ہاتھوں انسانیت کا جنازہ
نکال رہی ہیں۔ جن شریف گھرانوں کی بہو بیٹیاں کبھی گھر کی دہلیز پار نہیں
کرتی تھیں انہیں خاندانوں کی نئی نسل کی چشم وچراغ گھر سے باہر ایسے نازیبا
حلیہ میں برآمد ہوتی ہیں کہ بادی النظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس گھر کے
تمام مرد نابینا ہیں۔ اس بے حیائ کا اگر کوئی ہوس کا پجاری غلط فائدہ اٹھا
لے اور اپنا ناپاک منہ اور کالا کرلے تو پھر پورامعاشرہ سانپ گزرنے کے بعد
لکیر پیٹتا دکھائی دیتا ہے۔
ہم سب ایک اسلامی ملک کے باشندے اور اسلام کے علمبردار ہیں۔ ہماری اساس و
بنیاد قرآن وسنت ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ قیامت تک
ہمارے لئے مشعل راہ ہے مگر ہم ان ابدی حقیقتوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ دین
مبین کی تعلیمات پر عمل کرنا تو درکنار انہیں سننا بھی ہمیں گوارا نہیں
ہوتا پھر کس برتے پر ہم معاشرے کے سدھار کی امید لیے بیٹھے ہیں۔جس نبی اکرم
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم نام لیوا ہیں ان کے ارشادات گرامی
سے ہم کیوں بے خبر ہیں۔ لمبی چوڑی نصیحتوں کے یہ سطور متحمل نہیں ہوسکتے اس
لیے خیر خواہی کے جذبے سے مختصراً چند احادیث مبارکہ نقل کی جاتی ہیں۔ کیا
پتہ کسی غفلت زدہ دل پر چوٹ لگ جائے اور اس کی زندگی کا رخ بدل جائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ حیا تمام تر خیر
ہے۔ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ جب تم حیا نہ کرو تو پھر جو چاہو کرو۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے۔ جو
اسے میرے خوف سے چھوڑ دے تو میں اس کے عوض ایسا ایمان عطا کروں گا جس کی
حلاوت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے کہ اللّٰہ تعالٰی دیکھنے والے اور دکھانے والے
پر لعنت فرماتے ہیں یعنی جو بری نظروں سے غیروں کی جانب دیکھتے ہیں اور جو
بے پردہ ہو کر خود کو دکھلاتی پھرتی ہیں دونوں موجب لعنت خداوندی ہیں۔ ایک
حدیث میں مروی ہے کہ اللّٰہ پاک مردوں کی مشابہت کرنے والی عورتوں اور
عورتوں کی مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرماتے ہیں۔اور سب سے آخر میں
قرآن پاک کی ایک آیت مبارکہ کاترجمہ لکھ کر مضمون کا اختتام کرتے ہیں۔ سورہ
انعام کی آیت نمبر 120 میں اللّٰہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں کہ اور تم ظاہری
اور باطنی گناہوں کو چھوڑ دو، یہ یقینی بات ہے کہ جو لوگ گناہ کماتے ہیں
انہیں ان تمام جرائم کی جلد ہی سزا ملے گی جن کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔
|