#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالعنکبُوت ، اٰیت
48 تا 52 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہوم اٰیات !!
وما
کنت تتلوا
من قبله من
کتٰب ولاتخطه
بیمینک اذالارتاب
المبطلون 48 بل ھو
اٰیٰت بینٰت فی الصدور
الذین اوتواالعلم وما یجحد
باٰیٰتنا الّاالظٰلمون 49 وقالوا لو
لا انزل علیه اٰیٰة من ربهٖ قل انما
الاٰیٰت عنداللہ وانما انا نذیر مبین
50 اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتٰب
یتلٰی علیھم ان فی ذٰلک لرحة و ذکرٰی لقوم
یؤمنون 51 قل کفٰی باللہ بینی وبینکم شھیدا
یعلم مافی السمٰوٰت والارض والذین اٰمنوابالباطل
وکفرواباللہ اولٰئک ھم الخٰسرون 52
اے ھمارے رسُول ! اِس سے پہلے آپ اِس خیال سے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر اِس
کتاب سے کُچھ پڑھتے بھی نہیں تھے اور اِس کتاب سے کُچھ لکھتے بھی نہیں تھے
کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو اِس کتاب کے مُنکر اِس کتاب کے بارے میں شاید
اِس شک میں پڑ جائیں گے کہ یہ کتاب بھی پرانے زمانے کی پرانی کتابوں میں سے
ایک پرانی کتاب ھے جو آپ لوگوں کے درمیان بیٹھ کر پڑھتے اور لکھتے ہیں
حالانکہ اِس کتابِ مُؤثر کی تاثیر یہ ھے کہ جن لوگوں کے سینوں کو ھم اِس
کتاب کے روشن علم کی روشنی سے روشن کر دیتے ہیں تو اُن انسانوں میں سے کوئی
بھی انسان اِس کتاب کی صداقت کا انکار نہیں کر سکتا بلکہ جو لوگ اِس کتاب
کے کُھلے مُنکر ہیں وہ کُھلے مُنکر بھی اِس کتاب کا کُھلا کُھلا انکار کرنے
کے بجاۓ صرف یہ کہتے رہتے ہیں کہ اگر اللہ نے فی الواقع اِس انسان پر یہ
کتاب نازل کی ھے تو اِس کتاب کے ساتھ اُس نے ایسی نشانیاں کیوں نہیں نازل
کی ہیں کہ جن نشانیوں کو دیکھ کر ہمیں یقین ہو جاتا کہ یہ انسان واقعی اللہ
کا نبی ھے اور جس کتاب کو یہ پڑھتا پڑھاتا اور لکھتا لکھاتا ھے وہ کتاب بھی
اللہ نے ہی اِس پر نازل کی ھے ، آپ اِن لوگوں سے کہیں کہ اگر تُم دیکھ سکو
تو دیکھ لو کہ یہ کتاب بذات خود بھی اللہ کی ایک نشانی ھے جو اُس نے نازل
کی ھے اور اِس کتاب کی اضافی نشانیاں بھی اُسی اللہ کے پاس ہیں جس نے یہ
کتاب نازل کی ھے ، میں تو اُس کا ایک نمائندہ ہوں اور اُس نے مُجھے یہی ذمہ
داری تفویض کی ھے کہ میں تُم لوگوں کو کفر و شرک کے اُن تباہ کُن نتائج سے
آگاہ کردوں جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہونے ہیں ، آخر اِن لوگوں کے لیۓ یہ
بات کافی کیوں نہیں ھے کہ ھم نے جو کتاب آپ پر نازل کی ھے وہ اِن کو پڑھ کر
سُنائی جا رہی ھے اور اِس کتاب میں اُس قوم کے لیۓ جابجا اللہ کی رحمت و
مہربانی ھے اور جابجا اِس رحمت و مہربانی کی یاد دھانی ھے جو قوم اِس کتاب
پر ایمان لاتی ھے ، اگر آپ کی یہ باتیں سُننے کے بعد بھی اِن لوگوں کا مزاج
ٹھکانے پر نہیں آتا تو آپ اِن سے صاف صاف کہہ دیں کہ میں نے اللہ کا جو
پیغام تُم تک پُہنچانا تھا وہ میں نے پُہنچا دیا ھے اور اَب اِس کے بارے
میں میرے اور تُمہارے درمیان اُسی اللہ کی گواہی موجُود ھے جو زمین و آسمان
میں ہونے والے جُملہ واقعات کو جانتا ھے اور اللہ کی وہی گواہی ھمارے لیۓ
کافی ھے لیکن یاد رکھو کہ جو لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور حق کا انکار
پر انکار کرتے چلے جاتے ہیں تو وہ دُنیا و آخرت دونوں میں نقصان اُٹھاتے
ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
گزشتہ اٰیات کے تحریر کیۓ گۓ مفہوم اور اُس مفہوم کے زیرِ مفہوم بیان کیۓ
گۓ مضمون میں ھم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے پہلی بار جب
اپنی پہلی وحی سیدنا محمد علیہ السلام پر نازل کی تھی تو اُس وقت آپ کو ایک
مُفرد سماعت کار کے طور پر اُس وحی کا جو پہلا لفظ "پڑھ" پڑھنے کا حُکم دیا
گیا تھا اُس کے لیۓ لفظِ "اقرأ" کا انتخاب کیا گیا تھا اور گزشتہ اٰیات کی
پہلی اٰیت میں اللہ تعالٰی نے جب آپ کو فردِ مُفرد کے بجاۓ ایک صاحبِ جمعیت
ہستی کے طور پر اپنے اَصحاب کے درمیان میں بیٹھ کر وہی لفظ "پڑھ" پڑھنے کا
جو حُکم دیا ھے تو اُس کے لیۓ لفظِ "اُتل" کا انتخاب کیا ھے اور موجُودہ
اٰیات میں جب اُس صیغہِ "اُتل" کے بعد اُسی مادے اُتل کا ایک دُوسرا صیغہ
"تتلو" لایا گیا ھے تو وہ صیغہ بھی اُسی پہلے مفہوم کی اَدائگی کے لیۓ لایا
گیا ھے لیکن اِس دُوسرے موقعے پر لاۓ گۓ اِس لفظ سے پہلے "کنت" کا جو اضافی
صیغہ لایا گیا ھے وہ فعل "کان یکون" کی صرفی تصریف سے ماضی بعید کے الفاظِ
بعید "تھا" اور "تھی" کا معنٰی دیتا ھے ، اٰیاتِ بالا کی یہ پہلی اٰیت اُس
مضمون کی مرکزی اٰیت ھے جس مضمون کا اٰیاتِ بالا میں ذکر کیا گیا ھے اور
اِس مضمون کی دیگر اٰیات اِس مضمون کی وہ معاون اٰیات ہیں جو اِس مضمون کے
رَبط و تَکمیل کے لیۓ اِس اٰیت کے ساتھ کلامِ لازم کے طور پر لائی گئی ہیں
، اِس مضمون کی اِس مرکزی اٰیت میں جو پہلا حرفِ "مِن" لفظِ "قبل" سے قبل
اور دُوسرا حرفِ "مِن" جو لفظِ کتاب سے پہلے آیا ھے اُن دونوں حروفِ جار کا
معنٰی"سے" ھے ، اٰیت ھٰذا میں آنے والے لفظ "قبل" کا معنٰی قبل اور کتاب کا
معنٰی بھی کتاب ہی ھے اور لفظ قبل کے ساتھ اسمِ ضمیر "ه" کا جو اسمِ اشارہ
آیا ھے اُس کا مُشار الیہ قُرآن ھے ، اِس اٰیت کے اِن الفاظ کے بعد اِس
اٰیت میں "تخطه" کا جو لفظ وارد ہوا ھے وہ خط یخط کی صرفی تصریف کے مطابق
اُسی معروف خط و کتابت کے لیۓ وارد ہوا ھے جس کو ہر خاص و عام اچھی طرح
جانتا ھے اور اِس کے ساتھ "ه" کا جو اسمِ اشارہ ھے اُس کے مُشار الیہ سیدنا
محمد علیہ السلام ہیں ، اِسی اٰیت کا ایک دُوسرا لفظ "یمین" ھے جو عربی
اُسلوبِ کلام میں داہنے ہاتھ کے لیۓ استعمال ہوتا ھے اور اِس اٰیت کا مَتنِ
اٰیت سے جو قریب ترین مفہوم حاصل ہوتا ھے وہ یہ ھے کہ { اِس سے پہلے آپ اِس
خیال سے لوگوں کے درمیں بیٹھ کر اِس کتاب سے کُچھ پڑھتے بھی نہیں تھے اور
کُچھ لکھتے بھی نہیں تھے کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو اِس کتاب کے مُنکر اِس
کتاب کے بارے میں شاید اِس شک میں پڑ جائیں گے کہ یہ کتاب بھی پرانے زمانے
کی پرانی کتابوں میں سے ایک پرانی کتاب ھے جو آپ لوگوں کے درمیان بیٹھ کر
پڑھتے پڑھاتے اور لکھتے لکھاتے رہتے ہیں حالانکہ اِس کتابِ مُؤثر تاثیر یہ
ھے کہ جن انسانوں کے سینوں کو ھم اِس روشن کتاب کے روشن علم کی روشنی سے
روشن کر دیتے ہیں تو اُن انسانوں میں سے کوئی انسان بھی اِس کتاب کی صداقت
کا انکار نہیں کرسکتا } مُناسب ہوگا کہ سُورَةُالعنکبُوت کی اِس اٰیت کے
اِس مضمون کے ساتھ ہی سُورَةُالشُورٰی کی اٰیت 52 { وکذٰلک اوحینا الیک
روحا من امرنا ماکنت تدری ماالکتٰب ولا الایمان ولٰکن جعلنٰه نورا نھدی بهٖ
من نشاء من عبادنا وانک لتھدی الٰی صراط مستقیم } پر بھی ایک نگاہ ڈال لی
جاۓ جس کا ماحصل یہ ھے کہ اسی طرح جب ھم نے اپنے حُکم کے ذریعے آپ پر قُرآن
نازل کیا تو اُس وقت آپ نہیں جانتے تھے کہ علمِ کتاب کیا ھے اور اطمینان
علی العلم کیا ھے لیکن ھم نے ہی آپ کو بتایا کہ یہ وہ روشنی ھے جس کے ذریعے
ھم اپنے بندوں میں سے جس کو بندے کو چاہتے ہیں اُس کو اِس کا نُورانی راستہ
دکھا دیتے ہیں اور آپ کو تو ھم نے اِس راستے کا رہنما بنا دیا ھے ، اِس
مقام پر تفصیلات میں جاۓ بغیر اِن دو اٰیات کے بارے میں اتنا ہی عرض کر
دینا ہی کافی ہوگا کہ اِن دو اٰیات میں قُرآن کے جن دو اَلگ اَلگ زمانوں کا
ذکر کیا گیا ھے اُن میں سے پہلا زمانہ قُرآن کی تنزیل اور تَکمیل کا وہ
زمانہ ھے جس زمانے میں پُورا قُرآن قلبِ محمد علیہ السلام پر نازل ہو کر آپ
کے قلب کی لوحِ محفوظ میں محفوظ ہو چکا تھا لیکن اِس کی تعلیم کا آغاز ہونا
ابھی باقی تھا اور دُوسرا زمانہ قُرآن کی تعلیم و تسلیم کا وہ 23 سالہ
زمانہ ھے جس زمانے میں آپ نے قُرآن پڑھا ھے اور قُرآن پڑھایا ھے ،
سُورَةُالشُورٰی میں اُس پہلے زمانے کا ذکر ھے جس میں قُرآن کی تنزیل و
تَکمیل ہوئی تھی اور سُورَةُالعنکبُوت میں اُس دُوسرے زمانے کا ذکر ھے جس
زمانے میں قُرآن کی تعلیم دی گئی تھی اور اِس کی اٰیات کی اِملا و کتابت کا
وہ کام عظیم الشان کام کیا گیا تھا جس کا اِس سے قبل سُورَةُالفُرقان کی
اٰیت 4 و 5 اور اٰیت 6 میں بھی ذکر کیا گیا ھے ، اگر اَب تک آپ نے قُرآنِ
کریم کا یہ مُختصر بیانیہ پڑھ کر سمجھ لیا ھے تو اِس کے بعد اِس سادہ سی
مثال پر بھی غور کرلیں کہ اگر ایک انسان دُوسرے ایسے انسان کو کوئی کتاب
پڑھتے پڑھاتے یا لکھتے لکھاتے ہوۓ دیکھتا ھے جس کو اِس سے پہلے اُس نے کبھی
بھی کوئی کتاب پڑھتے اورلکھتے ہوۓ نہیں دیکھا ھے تو وہ اِس کے بارے میں جب
یہ کہتا ھے کہ یہ انسان پہلے تو کبھی کوئی کتاب پڑھتا بھی نہیں تھا اور
پہلے کبھی کوئی کتاب لکھتا بھی نہیں تھا تو اِس کا مطلب اِس کے سوا اور
کُچھ بھی نہیں ہوتا کہ اَب وہ شخص کتاب پڑھ بھی لیتا ھے اور کتاب لکھ بھی
لیتا ھے ، اگر اُس کا یہ مطلب نہ ہو تو "من قبلهٖ " کا کوئی مطلب ہی باقی
نہیں رہتا ، حقیقت یہ ھے کہ جس طرح قلبِ محمد علیہ السلام پر قُرآن کا نزول
قُدرتی طور پر قُدرت کی طرف سے نازل ہونا ایک مُعجزہ تھا اسی طرح آپ کی
نگاہِ مُبارک کے لیۓ الفاظِ وحی کو پہچان لینا بھی قُرآن کا ایک مُعجزہ تھا
، آپ کی زبانِ مُبارک سے الفاظِ وحی کا اَدا ہونا بھی قُرآن کا ایک مُعجزہ
تھا اور آپ کے دَستِ مُبارک سے قُرآن کی کتابت کا ہونا بھی قُرآن ہی کا ایک
معجزہ تھا ، اِس بات میں رُوۓ زمین کے کسی مومن و کافر کو کوئی بھی شُبہ
نہیں ھے کہ سیدنا محمد علیہ السلام نے اپنے زمانے میں اپنے زمانے کی کسی
انسان سے کبھی بھی کوئی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن اِس سے یہ کس طرح
ثابت ہو گیا ھے کہ اللہ کے جس نبی نے کسی انسان سے لکھنے اور پڑھنے کی
تعلیم حاصل نہیں کی ھے تو اللہ تعالٰی نے اپنے اُس نبی کو خود بھی لکھنے
اور پڑھنے کی تعلیم نہیں دی ھے ، اُس عظیم انسان کا تو عظیم الشان مُعجزہ
ہی یہی تھا کہ اُس نے اگرچہ عُمر بھر اپنے زمانے کے کسی انسان سے کُچھ نہیں
پڑھا وہ عُمر بھر اپنے زمانے کے ہر انسان کو پڑھاتا رہا ، اگر اُس مُعلّمِ
عالَم کے بارے میں عُلماۓ روایت کا یہ جاہلانہ مفروضہ درست تسلیم کر لیا
جاۓ کہ اُس پر جو قُرآن نازل ہوا ھے اُس کو اُس قُرآن کا ایک لفظ بھی پڑھنا
اور لکھنا نہیں آتا تھا اور اُس نے زندگی کے 23 برسوں کے دوران جس کاتب کو
قُرآن کا جو ورق بھی لکھوایا تھا اُس ورق کو اُس نے زندگی میں ایک بار بھی
اُس کتابت کا بچشمِ خود جائزہ نہیں لیا تھا کہ کس کاتب نے کیا لکھا ھے تو
خُدا لگتی کہیۓ کہ قُرآن کو بے اعتبار بنانے کی اِس سے بڑی کوشش یا سازش
اور کیا ہو سکتی ھے ؟ حقیقت یہ ھے کہ جن عُلماۓ روایت نے اپنی روایات میں
سیدنا محمد علیہ السلام کی ذاتِ گرامی پر "اَن پڑھ" ہونے کا جو جاہلانہ
بُہتان لگایا ھے وہ اُن علماۓ روایت کے اپنے اَن پڑھ ، اَن گھڑ اور جاہل
ہونے کی دلیل ھے ، یہ وہ بدبخت لوگ تھے جنہوں نے ایک سعادت مند انسان کی
طرح اللہ کی کتاب کے سامنے سر نگوں ہو کر خود کو تو کبھی بھی بدلنے کی کوشش
نہیں کی لیکن شیطان کے سامنے سر نگوں رہ کر قُرآن کو ہمیشہ ہی بدلنے کی ایک
ناکام و نامراد کوشش کی ھے !!
|