ابھی حال ہی میں یکم اکتوبر کو چین کا 72واں قومی دن
منایا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں چین نے ایسا کیا
جادو کیا کہ آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور اہم عالمی و علاقائی امور
میں کلیدی قوت ہے۔اسی طرح ایسے ترقی پزیر ممالک جو چین سے کہیں پہلے آزاد
ہوئے مگر ترقی کے سفر میں قدرے پیچھے ہیں ،وہ چین کی ترقی کے تجربے سے کیا
سیکھ سکتے ہیں۔
حقائق کے تناظر میں عوامی جمہوریہ چین نے تمام تر مشکلات پر قابو پاتے ہوئے
استقامت سے ایک طویل اور صبرآزما سفر طے کیا ہے اور اپنی مضبوط قیادت اور
دور اندیش پالیسیوں کی بدولت چند دہائیوں میں ایک پسماندہ ملک سے آج دنیا
کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے۔صرف سات عشروں میں چین وسیع پیمانے پر غربت ، بے
روزگاری ،ناخواندگی اور دیگر سماجی مسائل کو شکست دیتے ہوئے دنیا کی دوسری
بڑی معیشت بن چکا ہے ، ملک سے مطلق غربت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے اور ایک
ملک گیر سوشل نیٹ ورک تشکیل دیا گیا ہے جو تمام چینی باشندوں کو صحت ،
رہائش، سستی تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
دنیا جو سب سے پہلا سبق چین کی تیزرفتار معاشی ترقی سے سیکھ سکتی ہے وہ
طویل المیعاد اور دیرپا منصوبہ سازی اور بعد میں ان منصوبوں پر مستحکم عمل
درآمد ہے۔ اس کی سب سے قابل ذکر مثال 1953 میں شروع ہونے والے چین کے پانچ
سالہ منصوبے ہیں ، جنہوں نے غربت کے خاتمے سے لے کر معاشی نظام کی اصلاح تک
ہر چیز کا خاکہ پیش کیا ہے۔دوسرا سبق چینی حکومت کی ملک میں سرمایہ کاری کی
بھرپور حوصلہ افزائی اور سازگار کاروباری ماحول کا قیام ہے۔ کئی دہائیوں کی
منصوبہ بندی اور وسیع سرمایہ کاری نے چین کو ایک شاندار انفراسٹرکچر دیا ہے.
شاہراہیں، تیز رفتار ریلوے ، فضائی روٹس ، بندرگاہیں ،اقتصادی زونز اور آبی
راستے وغیرہ سمیت چین کا بنیادی ڈھانچہ علاقائی و عالمی سطح پر تجارت اور
خوشحالی کی مضبوط بنیاد بن چکا ہے۔ اسی طرح چین ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں
بھی وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ جدت کے تحت ملک کو ایک نئے
ترقیاتی سفر کی جانب گامزن رکھا جا سکے۔ابھی حال ہی میں 28 ستمبر کو جاری
کردہ وائٹ پیپر چین کا غربت سے خوشحالی تک کا عظیم الشان سفر ، کے مطابق
چین نے 2020 میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر 2.4 ٹریلین یوآن (370 بلین ڈالر)
خرچ کیے ہیں ، جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔اس دوران 2020 کے اواخر تک ،
چین نے 533 کلیدی قومی لیبز ، 350 نیشنل انجینئرنگ ریسرچ سینٹرز ، 1636
نیشنل انٹرپرائز ٹیکنالوجی سینٹرز ، 212 ماس انٹرپرینیورشپ اور انوویشن
بیسز ، 1287 نیشنل ٹیکنالوجی انٹرپرائز انکیوبیٹرز اور وزارت سائنس اور
ٹیکنالوجی کی جانب سے منظور شدہ 2251 میکر اسپیس قائم کیے گئے ہیں۔
چین سے سیکھا جانے والا تیسرا سبق فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی میں عوام کی
اولین اہمیت ہے مطلب یہ ہے کہ چینی حکومت کے نزدیک عوام سرفہرست ترجیح ہے
۔کسی بھی قسم کی مخصوص لابی یا مضبوط کاروباری مفادات عوام پر ہر گز حاوی
نہیں ہیں۔اس سے یہ چیز بھی واضح ہوتی ہے کہ چین اپنے عوام کو کووڈ۔19کی وبا
سے بچانے میں کیوں کامیاب رہا جبکہ کچھ دوسرے ممالک ایسا نہیں کر پائے
ہیں۔اس سے یہ حقیقت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ چینی لوگ کیوں اپنی حکومت کے لیے
مضبوط حمایت ظاہر کرتے ہیں۔چین کا یہ خاصہ ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے
پہلے حکومت وسیع پیمانے پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرتی ہے ۔اس میں عوامی
سماعتوں کے انعقاد سمیت کسی بھی پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے عوامی حلقوں
کی رائے اور تجاویز شامل ہیں ۔عہدیداروں کے لیے لازم ہے کہ وہ پائیدار اور
جدید منصوبوں کے ساتھ آگے آئیں تاکہ عوام کی ترقی اور خوشحالی کے ہدف کو
پورا کرنے میں مدد مل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو چین بھر میں شفاف ،منصفانہ
اور یکساں معیاری نظام دیکھنے کو ملتا ہے۔چین میں تمام جامعات سستی تعلیم
کے ساتھ ساتھ میرٹ پر عمل پیرا ہیں ، یونیورسٹی داخلے سختی سے معیاری ٹیسٹ
پر مبنی ہیں جہاں سفارش کی کوئی گنجائش نہیں۔صحت کا نظام گراس روٹ لیول پر
ہی مضبوط ماڈل پر مبنی ہے ، ہر گاؤں اور محلے میں کلینک موجود ہے۔ یہ کلینک
عمومی طبی مسائل کو دیکھ سکتے ہیں ۔ 1.4 ارب سے زائد لوگ بنیادی میڈیکل
انشورنس کی سہولت حاصل کر رہے ہیں یوں چین سماجی تحفظ کے اعتبار سے دنیا
میں سرفہرست ہے۔
چین سے سیکھا جانے والا چوتھا سبق صحتمند میڈیا ماحول کو برقرار رکھنا
ہے۔چین نے منفی اور فیک نیوز کی حوصلہ شکنی سے ثقافتی اور تفریحی صنعتوں
میں صحت مند معاشرتی ماحول کو فروغ دینے کے لیے موثر اقدامات کیے
ہیں۔پانچواں سبق چین کی فطرت اور انسانیت کے مابین ہم آہنگ ترقی کی جستجو
ہے۔سالوں کی محنت کے بعد اب چینی شہروں میں نیلا آسمان معمول ہے ، چین گرین
ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی میں عالمی رہنما ہے۔تاہم اس قدر ترقی کے
باوجود چین کو اب بھی سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ غیر متوازن ترقی اب بھی ایک
حل طلب مسئلہ ہے۔ کلیدی علاقوں میں اصلاحات بدستور جاری ہیں۔ آمدنی میں
تفاوت اور شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان ترقی میں فرق ایک سنگین مسئلہ
ہے۔ تاہم ، چین ان مسائل سے نمٹنے کے لیے طویل مدتی منصوبے اپنا رہا ہے۔
اگرچہ چین اور دیگر ممالک کی تاریخ اور جغرافیہ مختلف ہے اور ترقی کے مراحل
بھی جداگانہ ہیں ، لیکن یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ چین کے تجربے سے
سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ،ہر ملک اپنی خصوصیات کی بنا پر چین کے ترقیاتی
تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کی راہ اپنا سکتا ہے۔
|