|
|
یہ کہانی سماجی رابطوں کی ایک ویب سائٹ پرہندوستان کے
ایک نوجوان نے اپنی آپ بیتی کے طور پر شئیر کی ہے- اس کہانی کو پڑھ کر
اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات والدین ایسی مشکل میں پڑ جاتے ہیں جس سے نکلنے
کے لیے ان کو اپنے بچوں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور ان کے سہارے سے وہ
دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں- |
|
اس نوجوان کے مطابق جب اس کو یہ پتہ چلا کہ اس کے والد
جگر کے کینسر میں مبتلا ہیں اور ان کے پاس صرف چھ ماہ ہیں تو اس خبر نے اس
نوجوان کو صدمے سے دوچار کر دیا- اس کے مطابق اس کے والد نہ تو کوئی نشہ
کرتے تھے اور نہ ہی کوئی بے احتیاطی کرتے تھے جس سے ان کا جگر ایسی بری
بیماری میں مبتلا ہو سکتا تھا- |
|
اس نوجوان کے والد نے جب یہ سنا کہ ان کی زندگی کے صرف
چھ مہینے بچے ہیں تو اس موقع پر انہوں نے اپنی آخری خواہش کے طور پر یہ
اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مرنے سے قبل کم از کم اپنے بیٹے کو گریجویٹ
کرتے ہوئے دیکھ لیں- |
|
اس موقع پر ایک سعادت مند بیٹے کی حیثیت سے اس نوجوان نے فیصلہ کیا کہ وہ
اپنے والد کو اس طرح مرتے ہوئے نہیں چھوڑ سکتے اس وجہ سے اس نے یہ فیصلہ
کیا کہ وہ اپنے والد کو اپنا جگر عطیہ کرے گا- |
|
|
|
اس کے اس فیصلہ پر اس کے والد کا یہ کہنا تھا کہ تمھارے
سامنے ابھی پوری زندگی پڑی ہے اگر تم نے جگر مجھے دے دیا اور تمھیں کچھ ہو
گیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گا مگر اس نوجوان نے والد کو
یقین دلایا کہ سب ٹھیک ہوگا - |
|
اسی دوران ڈاکٹرز نے ٹیسٹ کر نے کے بعد یہ بتایا کہ جگر
کراس میچ تو کر رہا ہے مگر اس نوجوان کا جگر فیٹی ہے اس وجہ سے اس کو پہلے
نارمل حالت میں لے کر آنا پڑے گا جس پر اس نے ورزش اور ڈائٹنگ کا آغاز کر
دیا تاکہ وہ جگر عطیہ کر سکے- اسی دوران بدقسمتی سے کرونا کی دوسری لہر کے
دوران یہ نوجوان بھی کرونا میں مبتلا ہو گیا- |
|
جس نے اس کو سخت پریشان کر دیا کیوں کہ ڈاکٹر کے مطابق
اس کے والد کی زندگی کی دی گئی مہلت تیزی سے کم ہو رہی تھی اسی دوران جب یہ
نوجوان کرونا سے صحت یاب ہوا تو اس کے والد اس وائرس کا شکار ہو گئے- |
|
گریجیویشن کے امتحانات کے ساتھ ساتھ اس نے ہاسپٹل میں
داخل اپنے والد کی تیمارداری بھی کی اور ان کی ہمت بھی بڑھائی۔ یہ آپریشن
ایک مہنگا آپریشن تھا جس کے لیے بیس لاکھ کی ضرورت تھی جس کے لیے اس خاندان
نے اپنی تمام جمع پونجی داؤ پر لگا دی- |
|
|
|
اس نوجوان کی والدہ کے مطابق ایک جانب شوہر اور دوسری
جانب بیٹا دونوں کی جان قیمتی تھی ان کی حالت سب سوچ سوچ کر خراب ہو رہی
تھی- مگر اس نوجوان کے والد نے بہت بہادری سے تمام حالات کا مقابلہ کیا اور
خوشقسمتی سے آپریشن سے دو دن قبل ان کی آرزو بھی پوری ہو گئی اور انہوں نے
اس نوجوان کے گریجویشن میں کامیابی کی خوشخبری بھی سن لی- |
|
جس پر اس نوجوان کے والد کا کہنا تھا کہ مجھے ڈر تھا کہ
شائد میں یہ خوشی کا دن دیکھنے تک زندہ نہ بچ سکوں تم نے مجھے اس دنیا کا
خوش قسمت ترین انسان بنا دیا ہے- |
|
سرجری کے بعد جب اس نوجوان نے پہلی بار آنکھ کھولی تو وہ
بہت خوفزدہ تھا مگر جب ڈاکٹر نے اس کو بتایا کہ اس کی وجہ سے اس کے والد کی
زندگی بچ گئی ہے تو خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ جب آپریشن کے بعد
باپ بیٹے کا سامنا پہلی بار ہوا اور انہوں نے ایک دوسرے کے زخم دیکھے تو اس
کے والد کا یہ کہنا تھا کہ بلاآخر ہم دونوں زندگی کی ایک بڑی جنگ جیتنے میں
کامیاب ہو گئے- |
|
اس کے بعد اس سارے واقعے نے ان کو یہ سبق دیا کہ زندگی
بہت غیر یقینی چیز ہے اور اس میں سب سے زيادہ اہم انسان کے لیے اس کا
خاندان ہوتا ہے جو اس کے ہر وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتا ہے- |