یہ جو بابے ہوتے ہیں،جن کو بزرگ شہری کے نام سے بھی
یا دکیا جاتا ہے ۔ان کے سینے تجربات کے بڑے قیمتی موتیوں سے بھرے ہوتے ہیں
، اپنے زندگی کا سنہرہ دور انہوں نے ملک و قوم کی خدمت میں گزارہ ہوتا
ہے۔یہی وجہ ہے کہ باہر ممالک میں انہیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
انہیں سینئر سیٹیزن کا درجہ اور نام دے کر مختلف مفت سہولیات سے نوازہ جاتا
ہے ۔ ان کے روزی روٹی کی ذمہ داری بھی حکومت کی سپرد ہوتی ہے ۔ ان کے لئے
بنائے گئے اولڈ ہوم بھی فائیو سٹار ہوٹل سے کم نہیں ہوتے ۔مگروطنِ عزیز میں
ان بزرگ شہریوں کو بے کار پرزہ سمجھا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے انہیں
زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی سہولت دی جاتی ہے نہ ان کے روزی روٹی کا
بندوبست کیا جاتا ہے ۔ ذولفقار علی بھٹو(مرحوم ) کے دورِ حکومت میں ایسے
افرا دکے لئے جو فیکٹریوں یا ایسے اداروں میں کام کرتے ہوں جہاں کم از کم
دس افراد ہوں ، ان کے کے لئے ایک ادارہ ’’ای او بی آئی ‘‘ Employs Old Age
Benifits Institution قائم کر دیا گیا تھا ۔جس کا بنیادی مقصد مزدوروں اور
سیول اداروں میں کام کرنے والوں کو ضعیف العمری میں پنشن دے کر مالی مدد
کرنا تھی ۔ یہ ادارہ متعلقہ ادارے اور اس میں کام کرنے والے ملازم سے
ماہوار رقم اکٹھا کر کے ساٹھ سال عمر تک پہنچنے کے بعد ای او بی آئی پنشن
کی صورت میں ادا کرتا رہتا ہے ۔گویا ان ضعیف العمر افراد کو اپنی جمع کی
ہوئی رقم میں سے پنشن کی ادائیگی کی جاتی ہے ۔ جنہیں بڑھاپے کا پنشن بھی
کہا جاتا ہے ۔ بھٹو دور سے یہ پنشن ایک ہزار سے شروع ہوئی تھی اور یہ سن کر
آپ کو حیرانگی ہوگی کہ پینتالیس سال گزرنے کے بعد بھی اب یہ پنشن صرف ساڑھے
آٹھ ہزار روپے ہے ۔ یہ ادائیگی انسٹیٹیوٹ کے فنڈ سے ہوتی ہے اور اجازت
وزارتِ خزانہ دیتی ہے ۔
ای او بی آئی EOBI ادارے سے متعلق کچھ حقائق بڑے دلچسپ بھی ہیں اور قابلِ
افسوس بھی ، اس ادارے میں ملازموں اور اداروں کی طرف سے جمع شدہ رقم اور
اثاثے اربوں روپے کے ہیں اور ہمارے ملک کے کرتا دھرتا ان اداروں کے حرام
خور سربراہوں نے ضعیف العمر افراد کے لئے مختص اس ادارے کے فنڈ سے اربوں
روپے خورد برد کئے ہیں ۔ ایک سابق چئیرمین تو اربوں روپے ہڑپ کرکے نیب سے
ضمانت پر رہا ہو کر بیرونِ ملک سیاسی پناہ بھی حاصل کر چکے ہیں ۔ گویا ای
او بی آئی پنشن کے ادائیگی کے لئے رقم کی کوئی کمی نہیں مگر پھر بھی اس وقت
ان سسکتی سانسوں کے مالکوں کو ضعیف العمری پنشن صرف اور صرف 8500روپے
ماہانہ ملتی ہے ۔
ستم بالائے ستم دیکھئے، حکومت نے اسے پنشن کا نام بھی دے رکھا ہے لیکن جن
سالانہ بجٹ میں دیگر پنشنرز کے پنشن میں اضافہ کیا جاتا ہے تو ان بوڑھے
پنشنرز کے کے پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا ۔ مثلا گزشتہ سالانہ بجٹ
کے موقعہ پر دیگر پنشنرز کے پنشن میں دس فی صد اضافہ کر دیا گیا مگر ای او
بی آئی کے پنشن میں کوئی بھی اضافہ نہیں ہوا ۔ اگر ہم موجودہ پاکستان تحریکِ
انصاف کی دورِ حکومت کا زکر کریں تو اس حکومت سے متعلق مشہور یہ بات پایہء
تکمیل کو پہچتی ہے کہ اس حکومت کو یو ٹرن لینے کی بڑی پختہ عادت ہے ۔ وزیر
اعظم عمران خان کے معانِ خصوصی اور دستِ راست زلفی بخاری نے ای او بی آئی
پنشن کو 2021میں دس ہزار اور اپنی دورِ حکومت یعنی 2023تک پندرہ ہزار تک لے
جانے کی خوشخبری سنائی تھی مگر افسوس صد افسوس کہ اس پر عمل نہیں کیا جا
سکا ۔ ضعیف العمر افراد کے اپنی جمع کی ہوئی رقم میں سے ان کو جائز اعانت
میں ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف ان کے جمع شدہ فنڈ سے
پلازے بنائے جا رہے ہیں ، لاکھوں لوگ اسی ادارے سے تنخواہیں لے رہے ہیں ،جس
کا بس چلتا ہے وہ جیب بھی بھرتا ہے مگر جن کا حق ہے ،ان کے پنشن میں کوئی
اضافہ نہیں ہو رہا ہے ۔کمر توڑ مہنگائی نے بوڑھوں کی جھکی ہو ئی کمر کو
بالکل ناکارہ بنا دیا ہے ۔ وہ جائیں تو جائیں کہاں ؟ بڑھاپے کی وجہ سے
احتجاج کر سکتے ہیں نہ سڑکوں پر دھرنا دے سکتے ہیں ۔ اس مہنگائی کے دور میں
ساڑھے آٹھ ہزار روپے ماہانہ پنشن ای او بی آئی پنشنرز کے ساتھ ایک بودہ
مذاق تو ہے ہی مگر حکومتِ وقت کے لئے بھی شرم کا مقام ہے ۔
لہٰذا حکومت سے گزارش ہے کہ وہ فوری طور پر ای او بی آئی پنشن میں اضافے کا
اعلان کرے جو کم از کم ایک مزدور کے ماہانہ اجرت کے برابر ہو ۔۔ |