دشمن کی آبدوزوں کے لئے موت کا پیغام پاکستان نیول ایوی ایشن

image
 
پاکستان کی90 فیصد بین الاقوامی تجارت کا دارو مدار بُحیرہ عرب پر ہے اور عالمی معاملات میں تبدیل ہوتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک مضبوط بحری قوت خطے میں امن کی ضمانت ہیں، ایسے حالت میں بُحیرہ عرب بالخصوص پاکستان کے ایکسکلو سو اکنامک زون کی مسلسل نگہداشت رکھنے کی ضرورت ہے- خصوصاً بحر ہند کی تبدیل ہوتی صورتحال میں ، ویسے بھی سی پیک کی تعمیر سے بُحیر عرب کی معیشت جہاں مزید مستحکم ہوگی وہیں امن اور ترقی کے دشمن اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش بھی کریں گے جن کے لئے بحریہ کے ساتھ اسکے اپنے جدید اور طاقت ور فضائی بازو کی اشد ضرورت ہے۔
 
پاکستان جب سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا جب بُحیرہ عرب کی فضائی نگرانی کا فریضہ بھی پاک فضائیہ کے حصے میں آتا تھا جب پاک فضائیہ چار عدد گرومن الباتروس (Gruman Albatros ) طیاروں سے یہ کام انجام دیتی تھی۔ لیکن 1965 کی جنگ کے بعد اس جانب سوچا جانے لگا کہ کیوں نہ پاک بحریہ کو بھی ایک فضائی بازو مہیا کردیا جائے جو سمندروں پر سرچ، ریسکیو، اینٹی شپ اور اینٹی سب مرین آپریشن کی انجام دہی آسانی کے ساتھ ممکن ہو۔
 
1971 ء کی جنگ کے بعد تو یہ بالکل واضح ہو گیا کہ اب پاک بحریہ کو نا صرف از سر نو تیار کرنا ہے ، بلکہ جدید اور بہتر وسائل بھی مہیا کرنے ہیں۔ 28 ستمبر 1974 پاک بحریہ میں چھ ویسٹ لینڈ سی کنگ کا پہلا بیج شامل کیا گیا، جس سے فضائی بازو اور روٹری ونگ کی بنایاد پڑی، سی کنگ بنیادی طورپر امریکی ہیلی کاپٹر ہے لیکن برطانیہ میں ویسٹ لینڈ نامی کمپنی کے پاس اس کی لائسنس پروڈکشن کے حقوق بھی ہیں، پھر اس وقت جب پاکستان کو سی کنگ کی ضرورت تھی تو پاکستان کو صرف سرچ اینڈ رسیکیو مشن نہیں انجام دینے تھے، بلکہ اینٹی سب مرین آپریشن کے لئے ایک اچھا پلیٹ فارم درکار تھا، جبکہ امریکی سی کنگ اس وقت صرف سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کیلے ہوا کرتے تھے-
 
image
 
اسی بنیاد پر برطانیہ سے سی کنگ ہیلی کاپٹر حاصل کئے گئے، سی کنگ آج بھی پاک بحریہ اور دنیا بھی کی سمندری افواج کے زیر استعمال ہیں اور ایک سدا بہار اثاثہ تصور کئے جاتے ہیں۔ پھر روٹر ونگ میں 1977 ء خالصتا ًسرچ اور ریسکیو کے لئے فرانس سے الیوٹ تھری حاصل کئے گئے جو اس سے قبل بھی پاک آرمی اور پاک فضائیہ کے زیر استعمال تھے، اور سرچ ریسکیو کے لئے پسند کئے جانے والے ہیلی کاپٹرز کے طور پر جانے جاتے ہیں- ان کو پاک بحریہ کے کسی بھی بڑے جہاز پر با آسانی اتارا جاسکتا، خصوصاً میڈیکل ایمرجنسی اور پیغام رسانی کے لئے اچھے ہیلی کاپٹر تصور کئے جاتے ہیں۔
 
1975 ء میں فرانس سے ہی لانگ رینج میری ٹائم پیٹرول ایکرافٹ حاصل کئے گئے جس سے پاک بحریہ کو دشمن کی آبدوزوں اور بحری بیڑے پر واضح سبقت حاصل ہو گئی تھی، 1982 میں فوکر ایف 27 کا حصول عمل میں آیا جو پہلے سے موجود ایٹلانٹ ائیر کرافٹس کے فلیٹ کو مزید بہتر بنانے کی کوشش تھی۔
 
1994ء میں لینکس (Lynx) برطانیہ سے ٹائپ 21 فریگیٹس کی ڈیل میں ملے، جو اینٹی سب میرین رول کے لئے ایک پھرتیلا آپشن تصور کیا جاتا تھا، لیکن بعد میں مہنگے فاضل پرزاجات اور پابندیوں کی وجہ سے ان کو اسٹور کرنا پڑا۔1996 میں امریکہ لانگ رینج مریٹائم ائیر کرافٹ اورین ( Orion ) طیارے حاصل کئے جو امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن بناتی ہے- اس طیارے کے حصول کی بنیادی طور پر دو وجوہات تھیں ایک یہ اپنی فیلڈ یعنی اینٹی سب میرین وار فیئر میں سب سے بہترین طیارے تصور کئے جاتے تھے اور آج بھی دنیا بھر میں بیشتر بحری فضائی قوتوں کے زیر استعمال ہیں-
 
image
 
دوسرا اس کے انجن(AllisonT56 ) وہی ہیں جو پاک فضائیہ میں شامل سدا بہار C-130 میں استعمال ہوتے ہیں۔ انھی طیاروں کی بدولت پاک بحریہ نے مارچ 2019 میں بھارت کی آبدوز’’Scorpene-class(Kalvari-class)‘‘ کو اپنی بحری حدود میں تلاش کرلیا ۔قارین کو بتا تے چلیں یہ آبدوز فرانسیس ساختہ آبدوز تھی جبکہ 2016 میں بھی ایسے ہیں ایک بھارتی جرمن ساختہ آبدوز کو پاک بحریہ نے اپنے سمندوروں میں تلاش کر کے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا- پاک بحریہ ملکی پالیسی کے ساتھ ہے اور پاکستان کی پالیسی جنگ نہیں امن ہے، اسی بنیاد پر پاک بحریہ نے ذمہ داری کا ثبوت دیا۔
 
نئے سازو سامان کی آمد
نئے سازو سامان کا موسم آچکا ہے ، پڑوس میں ٹربو پروپ کی جگہ جیٹ انجن والے جہاز آچکے ہیں، جن کی رینج پاک بحریہ کے جہازوں سے زیادہ ، اسی بنیاد پر سی سلطان نامی طیارے شامل کیے جارہے ہیں، سی سلطان ڈبل جیٹ انجن والا برازیلین ساختہ اسٹیٹ آف دی آرٹ جہاز جس کی تفصیلات پھر کبھی تفصیل سے قارئین کے ساتھ شیئر کریں گے۔ مزید سی کنگ ہیلی کاپٹرز حاصل کیے گئے ہیں جو رائل نیوی اور قطری نیوی میں خدمات انجام دے رہے تھے، سرچ اینڈ ریسکیو کے لئے فرانسیسی ڈزائن کے Z-9 ہیلی کاپٹر شامل ہیں، اسکے علا وہ اے ٹی آر پاکستان نیوی کے پرانے فوکر طیاروں سے تبدیل کیے جاکے ہیں۔
 
image
YOU MAY ALSO LIKE: