کراچی: خالق دینا ہال کی تاریخ، بابائے قوم قائداعظم ؒ کا تاریخی فیصلہ اور مولانا محمد علی جوہر

image
 
خالق دینا ہال ایم اے جناح روڈ پر واقع ایک پر شکوہ تاریخی عمارت ہے، یہ کے ایم سی کی بلڈنگ جیسی وسیع نہیں، لیکن ایک چھوٹی خوبصورت بلڈنگ ضرور ہے۔ بلڈنگ بلاشبہ بہت خوبصورت ہے، ہم یہاں اس کی تاریخ کا کچھ احوال لکھ رہے ہیں۔
 
برٹش راج میں 1856 کی بات ہے، اس عمارت کی تعمیر بنیادی طور پر ایک کتب خانے کے طور پر کی گئی، ویسے لائبریریاں تو کافی تھیں، لیکن ایک عوامی لائبریری کی ضرورت کو محسوس کیا جارہا تھا- یہاں ایک لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا جس کو نیٹو لائبریری کہا جاتا تھا جس کے لیے 2289 مربع فٹ زمین سرکار نے فراہم کی-
 
تاہم پچاس سال بعد شہر کی ایک معزز شخصیت سر غلام حسین خالق دینا نے 18 ہزار روپے کی رقم اس شرط کے ساتھ فراہم کی کہ اس لائبریری کے ساتھ ایک ہال بھی بنایا جائے جس سے لائبریری کے مالی معاملات میں مدد مل سکے اور ساتھ ہی بلڈنگ کا نام ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔ نئی عمارت 1906 میں مکمل ہوئی جس کا افتتاح اس وقت کے کمشنر کراچی ڈی ینگ نے کیا۔
 
image
 
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر مسلمانان ہند خلافت کے حوالے سے برطانوی حکومت کے رویے سے پریشان تھے،اسی دوران ہندوستان سے فوج بھرتی کئے جانے کا اعلان سامنے آیا، کانگریس اور مسلم لیگی رہنماء جن کے درمیان اس زمانے میں خلیج اس طرح گہری نہیں ہوئی تھی، جو تاریخ کی کتاب میں اگلے صفحوں پر نظر آتی ہے۔
 
9 جولائی 1921 کو تحریک خلافات کے اجلاس میں یہ قرار داد پیش کی گئی کہ مسلمان برطانوی سامراجی افواج کا حصہ نہ بنیں، یہ قرار داد ہی مولانا اور انکے رفقاء کے لئے بغاوت کے مقدمے کی بنیاد بنی- ستمبر 1921 میں مقدمے کی کارروائی کا آغاز ہوا، مقدمہ بنادی طور پر خلافت کانفرنس کی قرار داد کے نقطہ 6 پر دائر کیا گیا، مولانا محمد علی جوہر نے دلیری کے ساتھ نا صرف الزام قبول کئے بلکہ وہ اقرار جرم کے ساتھ شعر بھی پڑھتے جاتے تھے، مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ ساتھ برادر مولانا شوکت علی ؒ ، مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، پیر غلام مجدد سر ہندیؒ ، مولانا نثار احمد کانپوری ، ڈاکٹر سیف الدین کچلو ؒ اور جگت گرو شری اچاریہ شامل تھے۔
 
26 دسمبر 1921 کے دن مولانا محمد علی جوہر اور ان کے رفقاء کو بغاوت کے الزام میں دو دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔ مولانا اور ساتھیوں نے کراچی کے سینٹرل جیل میں دو سال قید کی سزا کاٹی۔
 
image
 
قیام پاکستان کے بعد بھی مسلم لیگ کے کئی اجلاس اسی تاریخی عمارت منعقد ہوئے، 11 اکتوبر1947 کے دن ہونے والے اجلاس میں یہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ سے آل انڈیا کے الفاظ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
 
آج جس امر کا احساس ہوتا ہے وہ یہ کہ اس کیس کے حوالے سے مستند معلومات تک رسائی خاصی مشکل ہے، اس حوالے سے قومی سطح پر کوئی آرکائیو کی شدید ضرورت ہے ، جیسے انڈین آفس لائبریری ہوا کرتی تھی، دوسرا یہ کہ اگر ایسی آرکائیو اگر موجود ہے تو اس کو آن لائن بھی کیا جانا چاہئے-
 
image
 
ہماری یہ تحریر صرف جانب ایک چھوٹی سی کوشش کہ ہم آنے والی نسل کو کاروانِ آزادی میں شامل اپنے محسنوں کے بار ے میں جان سکیں ۔
YOU MAY ALSO LIKE: