وہ وقت جب انگریزوں کو مجبوراً صلح کرنی پڑی... سلطان حیدر علی برصغیر کا ایک بہادر اور نڈر ستارہ

image
 
 1757 ء بنگال پر ایسٹ اینڈیا کمپنی کے قبضے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی، اور جو مزاحمت کر سکتے تھے یا تو ایک چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لئے ایک دوسرے کے دشمن تھے یا انگریز کے مقابلے میں آنے سے پہلے ایک دوسرے سے لڑ کر اپنی قوت گنواں بیٹھے تھے- بنگال کی فتح کے بعد انگریز نے جنوبی ہند کا رخ کیا، لیکن ان کو یہاں دو لوگوں نے شدید مزاحمت دی ایک نواب میسور سلطان حیدر علی اور دوسرا ان کے فرزند ٹیپو سلطان۔
 
 ایسٹ انڈیا کمپنی جتنا جتا علاقہ فتح کرتی جاتی ان کی توسیع پسندی اور لالچ اتنی آگے بڑھ جاتی، لیکن گورا ہر معاملے سے پہلے خوب اچھی طرح جائزہ لیتا پھر علاقے میں اپنے پینترے استعمال کرتا- یہی ان کی پالیسی بنگال میں رہی تھی یہ کام انھوں نے جنوب میں دکھایا ، پہلے انگریز نے غور کیا کون ان کا ساتھ دے سکتا ہے اور کون ان کے مخالفت پر اڑے گا۔
 
 تاریخ کا جب جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے سلطان حیدر علی نے کس طرح ایک عام سپاہی سے ریاست کی نوابی تک محنت کی، وہ جدی پشتی نواب نہیں تھے، لیکن محنت ، شجاعت ، معاملہ فہمی اور ذہانت جیسے اوصاف ان کی شخصیت کا خاصہ تھے- جہاں ریاست میسور کو ایک اعلیٰ درجے کا منتظم مل گیا، وہیں اس کی کامیابیوں سے جلنے والے بھی پیدا ہوگئے، مرہٹے خصوصاً حیدر علی سے بغص رکھتے تھے۔اور اس کے خلاف کسی بھی اتحاد میں شامل ہونا ان کے لئے فرض عین جیسا اہم کام تھا۔
 
image
 
 میسور کی پہلی جنگ
1769 ء میں حیدر علی نے کرناٹک پر چڑھائی کردی ، اور مدراس (آج کا چنائی ) سے چند میل کے قریب پہنچ گیا، جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت پہلے سے موجود تھی، انگریزوں مجبوراً صلح کر لی اور صلح کی شرائط میں اس امر پر بھی اتفاق ہوا کہ دفاعی جنگ میں ایک دوسرے کی امداد کریں گے ، دو سال بعد مرہٹوں نے میسور پر حملہ کردیا ، حیدر علی نے انگریزوں کو پیغام بھجوایا، ریاست کے دفاع میں مدد کا وعدہ پورا کرو، لیکن انگریزوں نے وعدہ نا پورا کیا ۔
 
 میسور کی دوسری جنگ
حیدر علی مناسب وقت کے انتظار میں تھے اور 1780 میں دوبارہ کرناٹک پر چڑھائی کردی، کرنل بیلی کے تمام تر بریگیڈ نے ہتھیار ڈال دیے، لارڈ کلائیو کے جانشین لارڈ وارن ہیسٹنگز(Warren Hastings) نے انگریزوں کی ساکھ بحال کرنے کے لئے بنگال سے فوج بھجوائی، جس کو کسی حد تک کامیابی ملی ، لیکن حیدر علی کے بیٹے ٹیپو سلطان نے انگریزوں کی فوج کی فوج کے کمانڈر کرنل بریتھیوٹ سے ہتھیار رکھواکر گرفتار کرلیا- بدنور اور منگلور ( بعد میں بینگلور ، آج کا بینگ لورو)فتح کرلیا، اور انگریزوں نے شکست کھائی ، معاہدہ منگلور ہوا اور میسور کی دوسری جنگ کا خاتمہ ہوا۔
 
image
 
حیدر علی کا کردار
 حیدر علی پڑھے لکھے نہیں تھے، لیکن حساب کتاب کے معاملے میں بلا کے ذہین واقع ہوئے تھے- جنگ اور سیاست کے میدان میں تو وہ ایک کامیاب انسان کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، انگریزوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے ہمیشہ خلاف رہے، لیکن اپنی ریاست میں ہندوؤں سے ان کا سلوک مثالی تھی، حیدر علی کے دیوان ( ویزر خزانہ) بھی ایک ہندو ہی تھا۔
 
حیدر علی کی وفات
 حیدر علی ریاست کے معاملت پر بھر پور نظر رکھتے تھے، لیکن اپنی مصروفیات کی وجہ سے اپنی صحت کا خیال نہ رکھ سکے ، انکی کمر پر ایک پھوڑا نمودار ہوا، جو بگڑ کر سرطان(کینسر) میں تبدیل ہو گیا ،جس کی وجہ سے چھ دسمبر 1782 ( بعض تاریخی دستاویز میں سات دسمبر 1782 بھی لکھی ہے) کو برصغیر کا یہ روشن کردار سلطان خالق حقیقی سے جا ملے ،برصغیر کی تاریخ میں حیدر علی کو ایک بلند کردار مزاحمتی کردار کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔
YOU MAY ALSO LIKE: