احتیاط کے ساتھ انتقام

گروہی تشدد،غیر اخلاقی پولیس گری اورفرقہ وارانہ تشددکی وارداتوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہاہے،اب تک شمالی ہندمیں اس طرح کی وارداتیں فروغ پارہی تھیں،خصوصاً بی جے پی کے زیر اقتداروالی ریاستیں ان شرارتوں سے متاثرتھیں،لیکن اب جنوبی ہندمیں یہ وارداتیں اور جرائم تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں،خصوصاً ریاست کرناٹک میں پچھلے کچھ سالوں سے اس طرح کی وارداتوں کو پولیس کی حمایت بھی مل رہی ہے۔کرناٹک میں پچھلے ایک سال کے دوران غیر اخلاقی پولیس گری جسے عرف عام میں اخلاقی پولیس گری کہاجارہاہے ،اُس کی تقریباً دو درجن کے قریب وارداتیں پیش آئی ہیں۔ہندومسلم بھائی چارگی کے تعلق سےجہاں مسلمانوں کی جانب سے جلسےوپروگرام اور سمینارمنعقدکئے جارہے ہیں،گنگاجمنا تہذیب کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کیاجارہاہے تو ہندومسلم نوجوان لڑکے ولڑکیوں کے چلنے پھرنے اور بات چیت کرنے پر جس طرح تشدد کا نشانہ بنایاجارہاہے وہ بالکل طالبان حکومت میں پیش آرہے واقعات سے میل کھاتے ہیں۔غضب کی بات یہ ہے کہ جب لڑکی ہندو ہو اور لڑکا مسلمان توزیادہ مسائل پیش آرہے ہیں،نوجوانوںکو نہ صر زدوکوب کیاجارہاہے بلکہ جان لیوا حملے بھی ہورہے ہیں۔کرناٹک میں بھی حالات ایسے نہ تھے لیکن ساحلی کرناٹک میں جس طرح سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کیلئے ہندولڑکیوں ومسلمان لڑکوں کے معاملات کو پیچیدہ بنایاجارہاہے،اُس کیلئے باقاعدہ پولیس اورحکومتی کارندوں کی پشت پناہی حاصل ہورہی ہے۔حال ہی میں کرناٹک کے بنگلورومیں ایک مسلم عورت غیر مسلم مردکے ساتھ موٹر بائک پر سوارہوکرجارہی تھی،اس دوران وہاں موجود کچھ نوجوانوں نے جب خاتون کو روک کر پوچھ تاچھ کی اور ہندونوجوان پر حملہ کیا تو اس معاملے میں کرناٹکا حکومت نے نہایت سنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر نوجوانوں کوگرفتارکرنے کابیڑااٹھایااور تین نوجوانوں کوگرفتاربھی کیاہےاوران پر دفعہ153A،506,341,34,504,323کے مطابق مقدمہ عائدکیاگیاہے اور یہ تمام سیکشنس قانون کے دائرے میں مضبوط ہیں اور ملزمان کو جلدی ضمانت نہیں مل سکتی،اسی طرح کاایک واقعہ منگلورومیں پیش آیاہے جہاں پر چند میڈیکل کالج کے اسٹوڈینٹس گھومنے گئے تھے،ان پرغیر اخلاقی پولیسنگ کے ٹھیکداریعنی بجرنگ دل و وشواہندو پریشدکے کارکنوں نے متحد ہوکر حملہ،شدید طو رپر زخمی بھی کیا،ان کی ویڈیو سوشیل میڈیا پر بھی پوسٹ کی۔جب ان طلباء نے شرپسندوں کے خلاف پولیس تھانے میں معاملہ درج کروایاتو پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ341،504،506کے تحت معاملہ درج کیاہے،اس کے مطابق ملزمان کو عدالت میں ہی ذاتی ضمانت یا تحریرکی بنیاد پر چھوڑ دیاجاتاہے،یہی کام منگلوروپولیس نے بھی کیا،چار نوجوانوں کوگرفتارکیاجس میں ملزمِ اول نہیں تھے،بلکہ دوسرے لوگ موجودتھے،انہیں فوری طورپر تھانے میں ہی ضمانت مل گئی۔سوال یہ ہے کہ آخر حکومت شرپسندوں کو چھوڑکر کیا پیغام دینا چاہ رہی ہے؟کس بنیاد پر حکومت شرپسندوں کی پست پناہی کررہی ہے؟یہ بات اور ہے کہ بی جے پی حکومت بھار ت میں ہندوراشٹر بنانے کی سمت میں کام کررہی ہے،لیکن کیا ہندوراشٹرمیں عورتوں کابچنا محال ہوجائیگااور کیاعام لوگ جو ہندوراشٹر کوماننا نہیں چاہتے تو کیا وہ ملک کوچھوڑکرچلے جائینگے؟۔بھارت میں ایسی وارداتوں کوروکنے کیلئے قوانین تو سخت ہے ہی،لیکن ان قوانین کو درآمد کرنے کی ذمہ داری پولیس اور جانچ ایجنسیوں کی ہے جس پر وہ عمل نہیں کررہے ہیں۔اس وقت اس غیر اخلاقی پولیس گری کو روکنے کیلئے بھارت کے ہر شہری کو احتیاط کے ساتھ ساتھ قانونی دائرے میں رہ کرانتقام بھی لینے کی ضرورت ہے۔


 
Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197880 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.