امریکہ نے پاکستان کی آٹھ سو
ملین ڈالر کی امداد روک دی بقول امریکہ اُس نے فوجی امدا د روکی ہے اُس جنگ
کے لیے فوجی امداد جو امریکہ نے پاکستان پر مسلط کی ۔ امریکہ یہ جنگ
دہشتگردی کے خلاف نہیں ’’اور‘‘ مقاصد کے لیے لڑ رہا ہے اور ان مقاصد میں
توانائی کے ذخائر پر قبضے سے لے کر پوری دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کرنا
شامل ہیں۔ اسلام کے خلاف قوت کا استعمال تو اس کا روحانی مقصد ہے اس لیے
کسی بھی اسلامی ملک کا قوت پکڑنااُس کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ اسی
لیے اُس نے عراق پر حملہ کیا، اسی لیے وہ ایران کے خلاف ہے، اسی لیے اُس نے
طالبان کی حکومت تہس نہس کی اور اسی لیے وہ ایٹمی پاکستان کے خلاف ہے۔ جب
اُس نے دیکھا کہ پاکستانی قوم نے ایبٹ آباد آپریشن پر آنکھیں بند نہ کیں
بلکہ اس کے ذمہ داروں اور امریکہ پر برس پڑی تو اسکی پاکستان دوستی پانی کے
بلبلے کی طرح بیٹھ گئی۔ جب فوج نے اُس کی ہر مرضی ماننے سے انکار کردیا تو
اُس نے ہماری امداد بند کردی ایک رپورٹ کے مطابق ہماری فوج ڈیڑھ سال سے
کوئی امداد وصول بھی نہیں کررہی لیکن قوم خوش ہے کہ اس طرح سے شاید ہم خود
کفالت کی طرف کوئی قدم ہی اٹھا لیں، لیکن اُسے یہ گلہ بھی ہے کہ خود
پاکستان نے یہ امداد لینے سے انکار کیوں نہ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری
کلنٹن اپنے گزشتہ دورے پر جب پاکستان آئی تو اُس نے کہا تھا کہ اگرآپ کو
ہماری امداد منظور نہیں تو اسے لینے سے انکار کردیں ۔ کاش کہ ایسا کر لیا
گیا ہوتا۔ قوم کو اس بات کا احساس ہے کہ بین ا لاقوامی تعلقات میں انکار و
اقرارآسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بہت سوچنا پڑتا ہے لیکن جب آپ دس سال تک
مسلسل اقرار کے باوجود مسلسل خسارے میں رہیں تو آزمائش کے طور پر ہی اپنا
لائحہ عمل تبدیل کر کے دیکھ لیں اور اب جب کہ خود امریکہ نے ہماری امداد سے
ہاتھ کھینچ لینے کا اعلان کیا ہے تو ہمیں بھی اُس کی ہر قسم کی مدد سے ہاتھ
کھینچ لینا چاہیے۔ طالبان اور دہشت گرد دونوں امریکہ کی مدد کی پاداش میں
ہی ہم سے نبرد آزما ہیں جبکہ امریکہ کے شہری امن و امان کی فضا میں رہ کر
زندگی کا لطف اٹھا رہے ہیں اور امریکی حکومت دنیا پر اپنی گرفت مسلسل
بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اگر چہ اب افغانستان میں خود اُس کی حرکات
اُس کی ناکامی کی چغلی کھا رہی ہیں لیکن اُس نے عالم اسلام کو بالعموم اور
پاکستان کو بالخصوص مصیبت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یوں تو ہمارے پینتس ہزار
فوجیوں اور شہریوں کا خون بہا بھی امریکہ کے سر واجب الادا ہے اور ہماری
تباہ حال معیشت کی بحالی بھی اور ہمارے فوجی و سائل کا ضیاع بھی اور اب تک
جتنے اخراجات پاکستان کرچکا ہے ہمارے جتنے وسائل کو وہ استعمال کر چکا ہے
ان کی وصولی بھی ہمارا حق ہے کیونکہ بد قسمتی سے ہی سہی ہمارے وسائل جو اُس
نے استعمال کئے اس کا معاوضہ کسی بھی قانون کے تحت وہ روکنے کا مجاز نہیں
ہے اور نہ ہی پاکستان کو اپنے اس حق سے دست بردار ہونا چاہیے۔ لیکن اب اگر
امریکہ نے ہمیں اپنی بد نیتی میں ہی سہی یہ مو قع فراہم کیا ہی ہے تو ہمیں
اس موقعے کا فائدہ اٹھا لینا چاہیے اور اس جنگ کو روک لینا چاہیے ہاں اگر
پھر بھی یہ دہشت گردی جاری رہے تو پھر ہمیں بھی ان دہشتگردوں کے خلاف پوری
قوت سے آپریشن کر لینا چاہیے۔ جہاں تک امریکی امداد کا تعلق ہے اور اس بات
کا کہ ہمیں زندہ رہنے کے لیے اس امداد کی ضرورت ہے تو یہ حربہ ہم پر پہلے
بھی کئی بار آزمایا جا چکا ہے ۔ پر تعیش زندگی کو ترجیح دینے والا حکمران
طبقہ اگر یہ فیصلہ کر لے کہ قوم کے ساتھ انہی کی طرح زندہ رہنا ہے تو مسئلہ
ہی حل ہو جائے گا۔ عوام تو اب بھی کچھ آسان حالات میں نہیں رہ رہے اگر وہ
اب بھی بجلی اور جدید دور کی کئی سہولیات کے بغیر زندہ ہیں تو امداد بند
ہونے سے کوئی بہت بڑا فرق نہیں پڑے گا۔ اس لیے اپنے مفادات کے لیے عوام کا
سہارا لینے کی بجائے جرات انکار پیدا کرنے سے حکمران خود پر لگنے والے تمام
الزامات کو دھوسکتے ہیں ۔ اسوقت اگر امریکہ نے فوجی امداد روکی ہے تو کیا
یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم بہت شکر یے کے ساتھ دوسری امداد لینے سے بھی انکار
کردیں اور چین کی مثال سامنے رکھتے ہوئے اپنی عظیم الشان افرادی قوت کے
ہاتھ سے موبائل فون لے کر انہیں تیشہ پکڑا دیں تو جس طرح ایک زندہ قوم اپنی
حمیت اور غیرت کی بھوکا رہ کر بھی حفاظت کرتی اسی طرح یہ قوم بھی کرلے گی۔
زمین کے ایک ایک انچ کو حتی المقدور خوراک اگانے کے لیے استعمال کریں،
معدنیات کے قیمتی خزانوں کو ذاتی دولت نہیں بلکہ ملکی تعمیر و ترقی میں
استعمال کریں، حکمران سادہ زندگی اپنائیں اور سامان تعیش کا استعمال ختم
کردیں توپھر دیکھیں کہ کیسے ہم امریکہ بلکہ کسی کی بھی بھیک بہ نام امداد
رد کرکے بھی ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہیں اور یہ سوچ بھی ذہن سے نکال دیں
کہ ایسا ممکن نہیں جب ایک قوم بطور قوم کچھ کر گزرنے کا فیصلہ کر لے تو کچھ
بھی مشکل نہیں۔ ہمارے حکمران امریکہ کا شکریہ ادا کرتے ہو ئے اس ’’گُر‘‘ کو
صرف ایک دفعہ آزماکر دیکھ لیں۔ |