چین کی جانب سے ابھی حال ہی میں ملک میں حیاتیاتی تنوع کے
تحفظ کے موضوع پروائٹ پیپر جاری کیا گیا ہے جس میں اعداد و شمار کی روشنی
میں اس شعبے میں چین کی شاندار کامیابیوں کو بھرپور انداز سے سراہا گیا ہے
۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ چین دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہےجو حیاتیاتی
تنوع سے مالا مال ہیں۔ حیاتیاتی تنوع کے کنونشن پر دستخط کرنے اور اس کی
توثیق کرنے والے اولین فریقوں میں سے ایک کے طور پر ، چین نے ہمیشہ
حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو نمایاں اہمیت دی ہے اور چینی خصوصیات کے حامل
حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا راستہ اختیار کیا ہے۔
وائٹ پیپر کے مطابق چین نے ہمیشہ ترقی اور تحفظ کو یکساں اہمیت دی ہے جس کا
مطلب یہ ہے کہ چین ہر گز اندھا دھند ترقی کا قائل نہیں ہے بلکہ ایسی ترقی
چاہتا ہے جس میں فطرت کے سبھی رنگ محفوظ ہوں ۔چین نے قومی پارکس کے قیام
اور ماحولیاتی تحفظ کی سرخ لکیر جیسے اہم اقدامات اپنائے ہیں ۔ اس کے علاوہ
حیاتیاتی ماحول کے معیار کو مسلسل بہتر بنانے اورحیاتیاتی تنوع کےتحفظ اور
سبز ترقی کو آگے بڑھانے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے
کہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے میدان میں چین کی نمایاں کامیابیوں کو عالمی
سطح پر نہ صرف سراہا گیا ہے بلکہ چین کے ماڈل کو قابل تقلید قرار دیا جاتا
ہے۔
چین نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو اپنی قومی حکمت عملی کا اہم جزو قرار دیا
ہے یہی وجہ ہے کہ اسے مختلف علاقوں کی طویل المدتی منصوبہ بندی میں شامل
کیا گیا ہے تاکہ تحفظ کی صلاحیت کو مسلسل بہتر بنایا جا سکے ۔ گزشتہ دس
سالوں سے چین سبز ترقی پر عمل پیرا ہے ، حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی تحفظ
کے نظام میں روز بروز بہتری آتی جا رہی ہے ، ریگولیٹری میکانزم کو مسلسل
مضبوط کیا گیا ہے ، اور متعلقہ سرمایہ کاری میں مسلسل اضافہ کیا گیا ہے ،
جس سے حیاتیاتی تنوع کا تحفظ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے.تعجب انگیز
بات یہ ہے کہ 2000 سے 2017 تک ، دنیا کے تقریباً 25 فیصد نئے سبز علاقے چین
کی جانب سے ہی سامنے آئے ہیں ۔ چین میں جنگلات کے حیاتیاتی نظام کے تحفظ
اور بحالی کو فروغ ملا ہے۔ملک میں فارسٹ کاربن اسٹوریج کا اٹھہتر فیصد
قدرتی جنگلات سے ہے ۔جنگلات کے رقبے اور ریزروز میں مسلسل تیس سال سے اضافہ
جاری ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چین نے اپنے جنگلات کے رقبے کو 1980
کی دہائی کے اوائل میں 12 فیصد کے مقابلے میں2020 تک 23.04 فیصد بڑھا دیا
ہے ۔آج چین کے جنگلات کا ذخیرہ 17.56 بلین مکعب میٹر ہو چکا ہے۔ علاوہ
ازیں اس وقت چین میں قومی سطح کے 899 ویٹ لینڈ پارکس موجود ہیں جہاں
حیاتیاتی نظام کا موثر تحفظ کیا گیا ہے۔
چین حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے شعبے میں بین الاقوامی تعاون پر بھی تیار ہے
نیز اس شعبے کی ترقی کے لیے چینی دانش دوسروں کے ساتھ بانٹنے کا خواہاں ہے
تاکہ انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگ ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کیا
جا سکے ۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کے حیاتیاتی تنوع سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے
چینی صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ انسانیت اور فطرت کے
درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی کی جستجو اور عالمی ماحولیاتی گورننس کو بہتر
بنانا ضروری ہے، چین اسی تصور کی روشنی میں عملی اقدامات پر عمل پیرا ہے۔
علاوہ ازیں ، چین کثیر الجہتی تعاون کے پلیٹ فارمز جیسے "بیلٹ اینڈ روڈ"
اور "جنوب جنوب تعاون" کے تحت ترقی پذیر ممالک کو حیاتیاتی تنوع کے تحفظ
اور کرہ ارض پر "زندگی کی ایک کمیونٹی" کی تعمیر میں بھی مدد فراہم کر رہا
ہے۔
چین نے اپنی دانش اور مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی دہائیوں تک سبز ترقی
کے لیے بے پناہ کوششیں کی ہیں ، اس ضمن میں 1980 کی دہائی میں ماحولیاتی
تحفظ کو بنیادی قومی پالیسی کے طور پر شامل کیا گیا اور 1990 کی دہائی میں
پائیدار ترقیاتی حکمت عملی تشکیل دیتے ہوئے اس پر موئثر عمل درآمد کیا
گیا۔ ماحولیاتی تہذیب کی ترقی کو 2012 کے بعد سے صدر شی جن پھنگ کے ایک نئے
تصور "صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں" کی روشنی میں انتہائی تیز
رفتاری سے آگے بڑھایا گیا اور سبز انقلاب کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کی
گئی۔چین کی کوشش ہے کہ ملک میں قدرتی ماحول کو بنیادی طور پر بہتر بنانے کے
لیے شجرکاری سمیت دیگر اقدامات کو سائنسی پیمانے پر آگے بڑھایا جائے تاکہ
ماحولیاتی استحکام کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔اس مقصد کی خاطر
حیاتیاتی تنوع کے تحفظ ، جنگلات کے فروغ اور جنگل کے وسائل کے تحفظ کے لیے
مزید کوششوں پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ ایک گرین چین کے تحت ترقیاتی سفر
جاری رکھا جا سکے اور دنیا کے لیے بھی ایک قابل عمل مثال قائم کی جا سکے۔
|