طنز وظرافت کا بادشاہ۔اکبرؔ الہ آبادی
(Dr Rais Samdani, Karachi)
طنز وظرافت کا بادشاہ۔اکبرؔ الہ آبادی ٭ پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اصنافِ ادب میں طنز و ظرافت اور مزاح کو ہمیشہ سے ہی منفرد، دلچسپ اور پسندیدہ مقام حاصل رہا ہے۔ طنز و مزاح کی حس ہرایک میں نہیں ہوتی۔ منفرد قسم کی صلاحتیں قدرت کی جانب سے ودیعت ہوتی ہیں، پھر اس خوبی کا حامل شخص مستقل مشق اور محنت سے اس میں نکھار پیدا کرلیتا ہے۔ طنز کو میٹھا زہر جب کہ ظرافت طنز ہی کی ایک قسم ہے، ظرافت اور مزاح معمولی سے فرق کے ساتھ ایک ہی کام سرانجام دیتے ہیں یعنی بات کو اس انداز سے نثر یا نظم میں پیش کرنا کہ سننے یا پڑھنے والا کبھی تو مسکراکر رہ جائے کبھی زور دار قہقہا لگا ئے اور اس مزاح یا طنز کا بھر پور مزہ لے۔ اردو ادب میں متعدد شخصیات معروف ہیں جنہو ں نے طنز و ظرافت اور مزاح کے ایسے ایسے تیر چلائے کہ ان کے اس عمل نے انہیں امر کردیا۔جعفر زٹلی کا نام ادب کی کئی اصناف میں آتا ہے مزاح میں بھی جعفر زٹلی سر فہرست ہے۔ پھر مصحفیؔ، آتشؔ، غالبؔ، انشاءؔ اللہ خان، ذوقؔ، رفیع سوداؔ، پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی مغرب کے ایڈیسن گولڈ سمتھ جیسے مزاح لکھنے والوں نے اس صنف کو آگے بڑھایا۔ اکبرؔ الہ آبادی نے مزاح کے ساتھ ساتھ طنز و ظرافت میں خوب نام کمایا۔ وہ جدید اردو شاعری کے سَرخَیل بھی سمجھے جاتے ہیں نیز فقید المثال شخصیت بھی۔شاعری میں ایسی روش کو روشناس کرایا جو اس سے قبل موجود نہیں تھی۔ اکبر محض مزاح کے شاعری ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی جیسے غزل، نظم، قطعہ، رباعی وغیرہ اور نام پیدا کیا۔ اکبرؔکا کلام قومی اصلاح سے بھی خالی نہیں ان کے اکثر نظموں میں اصلاحی رجحان کارفرما نظر آتا ہے۔سادگی، اصلیت اور جوش کا اعلیٰ نمونہ ہے، چست بندشیں پائی جاتی ہیں،ان کی شاعری میں نادر و نایاب تشبیہات و استعارات قابل ستائش ہیں۔ان کی شاعری میں محاوروں اور اسلوب کا ایک مخصوص رنگ نظر آ تا ہے ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ظرافت، بذلہ سنجی اور لطیف طنز ہے۔انہوں نے مخصوص وجوہات، مقاصد اور نصب العین کے تحت شاعری کی اور اس میں وہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں یعنی اپنی بات کو مزاح کے انداز میں انہوں نے اس طرح پیش کیا کہ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ طنز بھی کردیا، سامنے والا مزاح سمجھ کر مزہ لیتا رہا اکبرؔ نے اپنا مقصد بھی پورا کرلیا۔ مغربی دنیا میں حکمرانوں اور عوام کا حال اپنے ایک شعر میں اس طربیان کیا ؎ یورپ کاپیش آوے اگر آپ کو سفر گزرے نظر سے حال رعایا و شاہ کا مسلمانوں کے ابتر حالات کا ذکر اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ؎ خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ مجھے تو اُن کی خوشحالی سے ہے یاس لیلیٰ و مجنوں کے حوالے سے مزاح اپنی ایک نظم میں کچھ اس طرح بیان کیا ؎ کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے کہ بیٹا تو اگر ایم اے کرے پاس تو فوراً بیاہ دو لیلیٰ کو تجھ سے بلا دقت میں بن جاؤں تری ساس کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی کُجا عاشق کُجا کالج کی بکواس بڑی بی آپ کو کیا ہوگیا ہے ھرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس یہ اچھی قدردانی آپ نے کی مجھے سمجھا ہے کوئی ھرچرن داس دل اپنا خون کرنے کو ھوں موجود نہیں منظور مغز سر کا آماس یہی ٹھری جو شرط وصل لیلیٰ تو استعفیٰ مرا با حسرت و یاس اکبرؔ کے دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اکثر لوگوں کا رجحان مغرب کی نقالی کی جانب مائل ہوا۔ مسلمانوں کو اس کا احساس دلاتے ہوئے اکبرؔ نے اپنی ایک نظم میں مسلمانوں کو اصلیت کی جانب مائل کیا ؎ نقلِ مغرب کی ترنگ آئی تمہار ے دل میں اور یہ نکتہ کے مری اصل ہے کیا بھول گئے کیا تعجب ہے جو لڑکوں نے بُھلایا گھرکو جب کہ بوڑھے روشِ دینِ خدا بھول گئے اکبرؔ نے مغربی دنیا کے بگڑے حالات، فحاشی، عریانیت، بد اخلاقی غرض ہر طرح کی بے راہ روی کو اپنی شاعری میں بیان کرنے اور مسلمانوں کو اس کے خطرناک ہونے نیز اس کے نقصانات کی جانب بھر پور توجہ دلائی۔ بے پردہ خواتین کے حوالے سے ان کا یہ شعر بہت معروف ہے ؎ بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبرؔ زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا اسی موضوع کو ایک اور جگہ اکبر ؔ نے اس انداز سے بیان کیا ؎ تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر خاتون خانہ ہوں وہ سبھائی پری نہ ہوں مغرب کی اصلیت بیان کرتے ہوئے اکبر نےؔ اہل یورپ کو اس طرح خبر دار بھی کیا ؎ بھولتا جاتا ہے یورپ آسمانی باپ کو بس خدا سمجھا ہے اُس نے برق اور بھاپ کو برق گر جائے گی اک دن اور اُڑ جائے گی بھاپ دیکھنا اکبر ؔ بچائے رکھنا اپنے آپ کو اکبرؔ کی فکر یہ تھی کہ خواتین کو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تعلیم کے ذیور سے آراستہ کیا جائے نہ کہ وہ تعلیم دنیاوی معامالات کے لیے ہو۔ یہ اکبر ؔ کی اپنی سوچ تھی جو اس کے ان اشعار سے نمایاں ہے۔ کو ن کہتا ہے کہ تعلیم زناں خوب نہیں ایک ہی بات فقط کہتا ہے یاں حکمت کو دو اُسے شوھر و اطفال کی خاطر تعلیم قوم کے واسطے تعلیم نہ دو عورت کو پینشرز کی تنخواہ تو بڑھتی ہے لیکن اس کی ترقی نہیں ہوتی۔ یہ بات اپنی جگہ سچ ہے۔ اس بات کو اکبرؔ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا، طنز بھی، مزاح بھی اور بات سرکار تک پہنچا بھی دی۔ تیری تنخواہ بڑھی شُکر ہے لیکن اے دوست تیری تو کچھ نہ ترقی ہوئی تنخواہ کے ساتھ آج بھی ہمارے اخبارات اشتہارات سے بھرے ہوتے ہیں۔ اللہ کے بندے صفحہ اول اور ادارتی صفحہ کو بھی نہیں بخشتے۔ مثال پاکستان کے سب زیادہ چھپنے والے اخبار کی، صفحہ اول پر صرف ایک سہ سرخی باقی اشتہارات۔ ایک دن تنگ آکر اخبار فروش کو کہہ دیا کہ کل سے اخبار مت لانایعنی اخبارات خبریں اور معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ نہ ہوئے پیسے کمانے کا ذریعہ ہوگئے۔ یہی حال نجی ٹی وی چینل کا بھی ہے۔ ان کا بس چلے تو ایک خبر کے عین بیچ میں اشتہار دکھادیا کریں۔ یہ صورت حال اکبر ؔ کے دور میں بھی رہی ہوگی جس کو اکبرؔ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ؎ مجھے بھی دیجئے اخبار کا ورق کوئی مگر وہ جس میں دواؤں کا اشتہار نہ ہو آخرمیں اپنی بات اکبرؔ کے معروف شعرپر کرتا ہوں۔ ہم ایسی کُل کتابیں لائقِ ضبطی سمجھتے ہیں کہ جِن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں ماہنامہ علم دوست کے ’اکبرؔ الہ آبادی نمبر‘ جو ستمبر 2021ء کا شمارہ ہوگا کے لیے بطور خاص لکھا گیا۔ (15اگست2021ء)
|