سیمینار ’اکبرؔ صدی(معاشرہ کی اصلاح کا شاعر۔اکبرؔ الہٰ آبادی) خطبہ صدارت !

سیمینار ’اکبرؔ صدی(معاشرہ کی اصلاح کا شاعر۔اکبرؔ الہٰ آبادی)
خطبہ صدارت !
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
ادارہ علم دوست کے روح رواں شبیر ابن عادل صاحب، چیئر پرسن صاحبہ،منتظمین ِ سیمینار ”اکبر صدی“، مہمان خصوصی ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی صاحبہ، آرٹس کونسل کے ذمہ داران، شرکاء سیمینا ر اور مقررین ِ محترم۔
السلام علیکم!
دنیاء ادب میں بلند مقام کے حامل شاعر اکبر ؔ الہ آبادی کے حوالے سے منتظمین سیمینار کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ادارہ علم دوست کی جانب سے آن لائن جریدہ ”علم دوست“ کا خاص نمبر منظر عام پر آیا، ابھی آپ کو اس خاص نمبر کی پرنٹ کاپی بھی فراہم کی گئی۔ یہ ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔شبیر ابن عال صاحب کی علم وادب، کتاب اور مطالعہ کے فروغ کے لیے خدمات قابل ستائش ہیں۔ میں ذاتی حیثیت میں ادارہ علم دوست سے اس کے قیام سے اس طرح وابستہ ہوں کہ مجھ سے جب بھی کچھ لکھنے یا گفتگو کرنے کے لیے کہا گیا تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ ”شبیر ابن عادل صاحب آپ کے لیے میری ڈکشنری میں لفظ ’no‘ نہیں“۔وہ صحت کے مسائل کا مقابلہ جس ہمت اور بہادری سے کررہے ہیں قابلِ ستائش ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت عطافرمائے اور علم و ادب کی خدمت کے جذبہ سے سرفراز رکھے۔
اردو زبان کے مایہ ناز شاعر اکبر الہ آبادی کو ہم سے جدا ہوئے صدی ہوئی لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ اکبر ؔ الہٰ آبادی یہیں کہیں ہمارے درمیان موجودہیں۔ یقینا وہ جسمانی طور پرموجود نہیں لیکن اکبرؔ کی شعر وا دب کے حوالہ سے خدمات اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ اکبر زندہ ہے اور رہتی دنیا تک اس کا کلام اُسے زندہ رکھے گا۔ ایسی شخصیات دنیا سے چلی ضرور جاتی ہیں لیکن ان کی علمی وادبی خدمات انہیں تا دیر زندہ رکھتی ہیں۔اکبرؔ ایک شخصیت، ایک شاعر، ایک نثر نگار کا نام نہیں بلکہ اکبر ؔ کی شاعری اردو ادب کے لیے مینارہِ نورکی حیثیت رکھتی ہے۔شاعری میں طنز و ظرافت اور مزاح کے حوالے سے اکبر ؔ کو بلند مقام حاصل ہے۔ بلاشبہ اکبرؔنے طنز وظرافت اور مزاحیہ شاعری سے اصلاح معاشرہ کا ایسا فریضہ انجام دیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
اکبر کا دور 1846سے 1921ء تک کا ہے۔ بھارت کا شہر الہ آباد اکبرؔ کی پہچان ہے۔ اس پہچان نے اکبر اور الہ آباد کو لازم و ملزوم کردیا۔ وہ اسی شہر میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں وفات پائی۔ الہ آباد شہر ایک قدیم تاریخ لیے ہوئے ہے۔ اس شہر کو یہ نام مغلیہ سلطنت کے فرمارواں شہنشاہ اکبر نے 1574ء میں دیا تھا۔ یعنی اس عمل کو 477 سال ہوگئے۔ بھارت کے متعصب ہندوؤ نے اس شہر کا نام بدل کر ”پریاگ راج“ رکھ دیا۔ ان کی منطق یہ ہے کہ الہٰ آباد نام پانے سے قبل یہ ہندوں کا شہر تھا اور پریاگ کہلاتا تھا۔ بھارتی متعصب ہندو یہ بات بھول گئے کہ شہرسے جڑی قدیم تہذیب و ثقافت کو کسی طور مٹایا نہیں جاسکتا۔ نیا ہندو نام دے کر اس شہر کی روح کو قتل کردیا گیا ہے۔یہ شہر سیاسی، ثقافتی، علمی، ادبی سرگرمیوں کے حوالہ سے دنیا میں اپنی ایک پہچان رکھتا ہے۔ بھارتی سیاست دان نہرو پھر اندراگاندھی الہٰ آباد سے ہی الیکشن لڑتے اور کامیاب ہوتے رہے۔ بھارت اس سے قبل بھی بعض شہروں کے نام تبدیل کرچکا ہے۔ ہم اس کی جس قدر مذمت کریں کم ہے۔
اکبر ؔ کی شاعری پر مقررین نے سیر حاصل گفتگو کی ہے اور نثر و نظم میں اکبر ؔ کو خوبصورت الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا، ہمیں طنز و ظرافت اور مزاح سے بھر پور اشعار بھی ہم نے سنیں۔ واقعی ادب کی اس صنف میں اکبر کا کوئی ثانی نہیں۔اصنافِ ادب میں طنز و ظرافت اور مزاح کو ہمیشہ سے ہی منفرد، دلچسپ اور پسندیدہ مقام حاصل رہا ہے۔ طنز و مزاح کی حس ہرایک میں نہیں ہوتی۔ منفرد قسم کی صلاحتیں قدرت کی جانب سے ودیعت ہوتی ہیں، پھر اس خوبی کا حامل شخص مستقل مشق اور محنت سے اس میں نکھار پیدا کرلیتا ہے۔ طنز کو میٹھا زہر جب کہ ظرافت طنز ہی کی ایک قسم ہے، ظرافت اور مزاح معمولی سے فرق کے ساتھ ایک ہی کام سرانجام دیتے ہیں یعنی بات کو اس انداز سے نثر یا نظم میں پیش کرنا کہ سننے یا پڑھنے والا کبھی تو مسکراکر رہ جائے کبھی زور دار قہقہا لگا ئے اور اس مزاح یا طنز کا بھر پور مزہ لے۔ اردو ادب میں متعدد شخصیات معروف ہیں جنہو ں نے طنز و ظرافت اور مزاح کے ایسے ایسے تیر چلائے کہ ان کے اس عمل نے انہیں امر کردیا۔ اکبرؔ الہ آبادی نے مزاح کے ساتھ ساتھ طنز و ظرافت میں خوب نام کمایا۔ وہ جدید اردو شاعری کے سَرخَیل بھی سمجھے جاتے ہیں نیز فقید المثال شخصیت بھی۔ اکبرؔ نے شاعری میں منفرد روش کو روشناس کرایا۔ اکبرؔ محض مزاح کے شاعری ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی جیسے غزل، نظم، قطعہ، رباعی وغیرہ اور نام پیدا کیا۔ اکبرؔکا کلام قومی اصلاح سے بھی خالی نہیں ان کے اکثر نظموں میں اصلاحی رجحان کارفرما نظر آتا ہے۔سادگی، اصلیت اور جوش کا اعلیٰ نمونہ ہے، چست بندشیں پائی جاتی ہیں،ان کی شاعری میں نادر و نایاب تشبیہات و استعارات قابل ستائش ہیں۔ان کی شاعری میں محاوروں اور اسلوب کا ایک مخصوص رنگ نظر آ تا ہے ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ظرافت، بذلہ سنجی اور لطیف طنز ہے۔انہوں نے مخصوص وجوہات، مقاصد اور نصب العین کے تحت شاعری کی اور اس میں وہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں یعنی اپنی بات کو مزاح کے انداز میں انہوں نے اس طرح پیش کیا کہ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ طنز بھی کردیا، سامنے والا مزاح سمجھ کر مزہ لیتا رہا اکبرؔ نے اپنا مقصد بھی پورا کرلیا۔مسلمانوں کے ابتر حالات کا ذکر اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اکبرؔ نے کہا ؎
خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ
مجھے تو اُن کی خوشحالی سے ہے یاس
اکبرؔ کے دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اکثر لوگوں کا رجحان مغرب کی نقالی کی جانب مائل ہوا۔ مسلمانوں کو اس کا احساس دلاتے ہوئے اکبرؔ نے اپنی ایک نظم میں مسلمانوں کو اصلیت کی جانب مائل کیا ؎
نقلِ مغرب کی ترنگ آئی تمہار ے دل میں
اور یہ نکتہ کے مری اصل ہے کیا بھول گئے
کیا تعجب ہے جو لڑکوں نے بُھلایا گھرکو
جب کہ بوڑھے روشِ دینِ خدا بھول گئے
اکبرؔ نے مغربی دنیا کے بگڑے حالات، فحاشی، عریانیت، بد اخلاقی غرض ہر طرح کی بے راہ روی کو اپنی شاعری میں بیان کرنے اور مسلمانوں کو اس کے خطرناک ہونے نیز اس کے نقصانات کی جانب بھر پور توجہ دلائی۔ بے پردہ خواتین کے حوالے سے ان کا یہ شعر بہت معروف ہے ؎
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
مغرب کی اصلیت بیان کرتے ہوئے اکبر نےؔ اہل یورپ کو اس طرح خبر دار بھی کیا ؎
بھولتا جاتا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اُس نے برق اور بھاپ کو
برق گر جائے گی اک دن اور اُڑ جائے گی بھاپ
دیکھنا اکبر ؔ بچائے رکھنا اپنے آپ کو
اکبرؔ کی فکر یہ تھی کہ خواتین کو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تعلیم کے ذیور سے آراستہ کیا جائے نہ کہ وہ تعلیم دنیاوی معامالات کے لیے ہو۔ پینشرز کی تنخواہ تو بڑھتی ہے لیکن اس کی ترقی نہیں ہوتی۔ یہ بات اپنی جگہ سچ ہے۔ اس بات کو اکبرؔ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا، طنز بھی، مزاح بھی اور بات سرکار تک پہنچا بھی دی۔
تیری تنخواہ بڑھی شُکر ہے لیکن اے دوست
تیری تو کچھ نہ ترقی ہوئی تنخواہ کے ساتھ
آج بھی ہمارے اخبارات اشتہارات سے بھرپور اور ٹی وی اشتہارات سے لبریز ہے۔گویا اخبارات اور ٹی وی خبریں اور معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ نہ ہوئے پیسے کمانے کا ذریعہ ہوگئے۔ یہ صورت حال اکبر ؔ کے دور میں بھی تھی جسے اکبرؔ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ؎
مجھے بھی دیجئے اخبار کا ورق کوئی
مگر وہ جس میں دواؤں کا اشتہار نہ ہو
اکبرؔ کے چند اشعار پر اپنی بات کا اختتام کروں گا۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہم ایسی کُل کتابیں لائقِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جِن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
پید ا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا لو آج ہم بھی صاحب ِاولاد ہوگئے
اکبر دبے نہیں کسی سلطان کی فوج سے
لیکن شہید ہوگئے بیوی کی نوج سے
28ستمبر2021ء
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1439362 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More